گزشتہ تحریر میں میں نے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ مجموعی طور پر ہم جنس پرستی کو برا سمجھا جانے کے باجود معاشرے میں ہم جنس پرستی موجود ہی ہے۔ تحریر بغیر کسی ریسرچ کے اپنی یادداشت کے سہارے لکھی گئی تھی اور مدعا یہی تھا کہ جو چیز معاشرے میں موجود ہے اس کے ارتکاب کے بعد صرف ایک طبقے کو مذمت کا نشانہ بنانا منافقت ہے۔ جرم جرم ہوتا ہے، چھوٹا ہو یا بڑا۔ قانون کی نظر میں مجرم یا ملزم مجرم / ملزم ہوتا ہے۔ اس کا معاشرتی رتبہ اس کو کم یا زیادہ مذمت کا حقدار نہیں بناتا۔
اُس تحریر پر میرے کچھ دوستوں کی رائے یہ تھی کہ اس تحریر سے میرے ریپ اپالوجسٹ ہونے کا تاثر بنا۔ اور یہ کہ یہ تحریر میری جانب سے مفتی عزیز کی حمایت کا تاثر ابھرتا تھا۔ حال آں کہ میرا ایسا کوئی مقصد نہ تھا۔ لیکن ہمارا معاشرہ تقسیم ہوچکا ہے۔ یہاں اگر آپ کسی ایک گروہ کی حمایت نہیں کر رہے تو لا محالہ دوسرے گروہ کے بندے ہیں۔ یہاں تنقیدی نقطہ نظر کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اس لئے اگر میں نے مفتی عزیز کی مذمت نہیں کی تو لا محالہ میں اس کا حامی ہی ہوں گا۔
اس واقعے کے بعد اور بھی کچھ واقعات سامنے آئے ۔ مثلا علامہ مظہر عباس نجفی کی وڈیو جو اس قبیح فعل میں مرتکب پائے گئے۔ مفتی قوی تک کا نام آیا ۔ اب تو یہ عدالت یا قانون نافذ کرنے والوں کا کام ہے کہ ان الزامات یا جرائم کی تحقیق کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔
لیکن کیا ہم معاشرے میں پائے جانے والے اس رجحان پہ اب گفتگو بھی نہیں کر سکتے؟ اس حوالے سے میرا ارادہ خود کچھ تحقیق کرنے کے بعد لکھنے کا ارادہ تھا مگر اب وقت کی قلت کے باعث اور اسلامی قانون اور فقہ سے متعلق میری کم علمی آڑے آگئی۔ اسی اثناء میں مجھے ایک تھیسس ملا جو سٹیفنی ایل مارٹن نے ۱نیس سو چھیانوے میں اپنی ماسٹرز ڈگری کے لئے لکھا تھا۔ اس تھیسس کا عنوان میں نے اپنی تحریر کے لئے منتخب کیا ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ اقساط میں میں اس تحریر کا اردو ترجمہ یہاں پیش کروں اور ایک غیر جانب دار جائزہ آپ کے لئے پیش کروں۔ میرا مقصد کسی بھی صورت میں ہم جنس پرستی کو جسٹفائی کرنا نہیں ہے لیکن میرے خیال میں اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کریں، اور دیکھیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں، ہمیں اس مسئلے کا سامنا کرنا ہوگا ، شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبانے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا کہ “”عالمگیریت کے سمندر میں کوئی جزیرہ نہیں ہوتا”۔