Skip to content

قربانی، حج اور عید الضحی: قرآن اور سنت ابراہیمی

حج اور عید الضحی کی اہمیت

ماہ ذی الحج مسلمانوں کے لئے دو وجوہات کی بناء پر اہم ہے۔ ذی الحج کے پہلے دس دنوں میں حج بیت اللہ کیا جاتا ہے اور اس مقصد کے لئے دنیا بھر سے مسلمان مکہ پہنچ کر حرم اور اس کے مضافات میں حج کی رسومات ادا کرتے ہیں۔ دس ذی الحج کو مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان قربانی کی یاد میں جانور ذبح کرتے ہیں، اسی دن ہم ایک تہوار بھی مناتے ہیں جسے عید الضحی کہا جاتا ہے ۔عید الضحی کی آمد کے ساتھ ہی لوگ قربانی کے جانور تلاش کر کے اس رسم کو ادا کرنے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ جانور فروخت کرنے والے بھی اس موقع پر ممکنہ آمدنی کا حساب لگا کر اپنے جانوروں کو فروخت کرنے کے لیے لے جاتے ہیں۔نیت کا حال اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں، اور وہ ہماری نیتوں کے مطابق ہمارے اعمال کو قبول فرماتے ہیں۔

قربانی ، حج اور عید الضحی: قرآن اور سنت ابراہیمی

قربانی کے اسلامی احکام

فقہ حنفیہ کی رعایت سے قربانی کو واجب اور کچھ حالات میں فرض تصور کیا جاتا ہے۔ احناف کے علماء کے مطابق قربانی کے احکام مقرر ہیں، جیسے کہ کون سے جانور کی قربانی جائز ہے، کون سے جانور کی نہیں، جانور کی عمر، جسمانی نقائص، حلال یا حرام ہونے کی شرائط، اور کون قربانی کر سکتا ہے، کون نہیں۔باقی تین جو مکاتب فکرِ اسلامی ہیں، شافعیہ، حنبلیہ، اور مالکیہ ، ان کے ہاں قربانی واجب نہیں بلکہ سنت عمل ہے۔ یہ سنت جو ادا کرنا چاہے وہ کر دے، جو نہیں کرنا چاہے وہ نہ کرے۔ کسی پہ کسی قسم کا کوئی وبال نہیں۔ ۔سب مکاتبِ فکرِ اسلامی اس بات پہ متفق ہیں کہ یہ سنت ابراہیمی ہے، اس سنت کا اتباع احناف کے ہاں واجب ہے، اور اسی حکم کی رعایت سے فقہ حنفیہ کے احکام وضع ہوئے، باقی تین مکاتبِ فکرِ اسلامی کے ہاں یہ سنت ہے، اس عمل کو سنت ہی تصور کریں اور اپنی مرضی کریں۔ یہ سلیس خلاصہ ہے. ہمیں، جو کہ اکثر غیر حاجی ہی ہوتے ہیں، یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ سنت ابراہیمی ہے، اس کی یاد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کرتے تھے اور چونکہ اس پہ حکم دیا گیا ہے یا تاکید کی گئی ہے تو اصحاب احناف کہتے ہیں کہ یہ عمل کچھ شرائط کے ساتھ واجب ہے۔

حج اور قربانی کی شرعی حیثیت

قرآن مجید میں قربانی کے جانوروں کا ذکر مختلف آیات میں ملتا ہے، جہاں حج و عمرہ، مسجد حرام، اور حلال و حرام جانوروں کا بھی ذکر ہے۔ ان آیات کی تفصیلی تشریح سے واضح ہوتا ہے کہ حج کے مناسک میں قربانی کی ادائیگی کتنی اہم ہے۔اس موضوع پر مزید بصیرت کے لیے قرآنی آیات کا مطالعہ انتہائی اہم ہے، جو قربانی کی شرعی حیثیت اور اس کی عملی ادائیگی کے بارے میں واضح ہدایت فراہم کرتی ہیں۔

سورۃ بقرۃ

سورۃ بقرۃ آیت ایک سو چھیانوے میں یہ احکام ملتے ہیں۔

وَأَتِمُّوا۟ ٱلْحَجَّ وَٱلْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا ٱسْتَيْسَرَ مِنَ ٱلْهَدْىِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا۟ رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ ٱلْهَدْىُ مَحِلَّهُۥ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِۦٓ أَذًۭى مِّن رَّأْسِهِۦ فَفِدْيَةٌۭ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍۢ ۚ فَإِذَآ أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِٱلْعُمْرَةِ إِلَى ٱلْحَجِّ فَمَا ٱسْتَيْسَرَ مِنَ ٱلْهَدْىِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَٰثَةِ أَيَّامٍۢ فِى ٱلْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌۭ كَامِلَةٌۭ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُۥ حَاضِرِى ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ ﴿196﴾

اور خدا (کی خوشنودی) کے لئے حج اور عمرے کو پورا کرو۔ اور اگر (راستےمیں) روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کردو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ۔ اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سر منڈالے تو) اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر جب (تکلیف دور ہو کر) تم مطمئن ہوجاؤ تو جو (تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔ اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو۔ یہ پورے دس ہوئے۔ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل وعیال مکے میں نہ رہتے ہوں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے ﴿196﴾

Al Quran. 2:196

سورۃ مائدہ

سورۃ مائدہ آیت 2

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تُحِلُّوا۟ شَعَٰٓئِرَ ٱللَّهِ وَلَا ٱلشَّهْرَ ٱلْحَرَامَ وَلَا ٱلْهَدْىَ وَلَا ٱلْقَلَٰٓئِدَ وَلَآ ءَآمِّينَ ٱلْبَيْتَ ٱلْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًۭا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَٰنًۭا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَٱصْطَادُوا۟ ۚ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـَٔانُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا۟ ۘ وَتَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْبِرِّ وَٱلتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ ﴿2﴾

مومنو! خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا اور نہ ادب کے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ان جانوروں کی (جو خدا کی نذر کر دیئے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹے بندھے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو عزت کے گھر (یعنی بیت الله) کو جا رہے ہوں (اور) اپنے پروردگار کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہوں اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے ﴿2﴾

AlQuran. 5:2

سورۃ مائدہ آیات پچانوے تا ستانوے:

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَقْتُلُوا۟ ٱلصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌۭ ۚ وَمَن قَتَلَهُۥ مِنكُم مُّتَعَمِّدًۭا فَجَزَآءٌۭ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ ٱلنَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِۦ ذَوَا عَدْلٍۢ مِّنكُمْ هَدْيًۢا بَٰلِغَ ٱلْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّٰرَةٌۭ طَعَامُ مَسَٰكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًۭا لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِۦ ۗ عَفَا ٱللَّهُ عَمَّا سَلَفَ ۚ وَمَنْ عَادَ فَيَنتَقِمُ ٱللَّهُ مِنْهُ ۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌۭ ذُو ٱنتِقَامٍ ﴿95﴾

مومنو! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار نہ مارنا اور جو تم میں سے جان بوجھ کر اسے مارے تو (یا تو اس کا) بدلہ (دے اور وہ یہ ہے کہ) اسی طرح کا چارپایہ جسے تم میں دو معتبر شخص مقرر کردیں قربانی (کرے اور یہ قربانی) کعبے پہنچائی جائے یا کفارہ (دے اور وہ) مسکینوں کو کھانا کھلانا (ہے) یا اس کے برابر روزے رکھے تاکہ اپنے کام کی سزا (کا مزہ) چکھے (اور) جو پہلے ہو چکا وہ خدا نے معاف کر دیا اور جو پھر (ایسا کام) کرے گا تو خدا اس سے انتقام لے گا اور خدا غالب اور انتقام لینے والا ہے ﴿٩٥﴾

أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ ٱلْبَحْرِ وَطَعَامُهُۥ مَتَٰعًۭا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ۖ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ ٱلْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًۭا ۗ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ٱلَّذِىٓ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ﴿96﴾

تمہارے لیے دریا (کی چیزوں) کا شکار اور ان کا کھانا حلال کر دیا گیا ہے (یعنی) تمہارے اور مسافروں کے فائدے کے لیے اور جنگل (کی چیزوں) کا شکار جب تک تم احرام کی حالت میں رہو تم پر حرام ہے اور خدا سے جس کے پاس تم (سب) جمع کئے جاؤ گے ڈرتے رہو ﴿٩٦﴾

۞ جَعَلَ ٱللَّهُ ٱلْكَعْبَةَ ٱلْبَيْتَ ٱلْحَرَامَ قِيَٰمًۭا لِّلنَّاسِ وَٱلشَّهْرَ ٱلْحَرَامَ وَٱلْهَدْىَ وَٱلْقَلَٰٓئِدَ ۚ ذَٰلِكَ لِتَعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ وَأَنَّ ٱللَّهَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ ﴿97﴾

خدا نے عزت کے گھر (یعنی) کعبے کو لوگوں کے لیے موجب امن مقرر فرمایا ہے اور عزت کے مہینوں کو اور قربانی کو اور ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے بندھے ہوں یہ اس لیے کہ تم جان لو کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے خدا سب کو جانتا ہے اور یہ کہ خدا کو ہر چیز کا علم ہے ﴿97﴾

سورۃ الانعام

سورۃ الانعام آیت ایک سو اٹھارہ:

فَكُلُوا۟ مِمَّا ذُكِرَ ٱسْمُ ٱللَّهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُم بِـَٔايَٰتِهِۦ مُؤْمِنِينَ ﴿118﴾

تو جس چیز پر (ذبح کے وقت) خدا کا نام لیا جائے اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو تو اسے کھا لیا کرو ﴿118﴾

Alquran. 6:118.

سورۃ الحج

سورۃ حج آیات چھبیس تا سینتیس:

وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَٰهِيمَ مَكَانَ ٱلْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِى شَيْـًۭٔا وَطَهِّرْ بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْقَآئِمِينَ وَٱلرُّكَّعِ ٱلسُّجُودِ ﴿26﴾

(اور ایک وقت تھا) جب ہم نے ابراہیم کے لئے خانہ کعبہ کو مقرر کیا (اور ارشاد فرمایا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیجیو اور طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجدہ کرنے والوں کے لئے میرے گھر کو صاف رکھا کرو ﴿٢٦﴾

وَأَذِّن فِى ٱلنَّاسِ بِٱلْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًۭا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍۢ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍۢ ﴿27﴾

اور لوگوں میں حج کے لئے ندا کر دو کہ تمہاری پیدل اور دبلے دبلے اونٹوں پر جو دور دراز رستوں سے چلے آتے ہو (سوار ہو کر) چلے آئیں ﴿٢٧﴾

لِّيَشْهَدُوا۟ مَنَٰفِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا۟ ٱسْمَ ٱللَّهِ فِىٓ أَيَّامٍۢ مَّعْلُومَٰتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَٰمِ ۖ فَكُلُوا۟ مِنْهَا وَأَطْعِمُوا۟ ٱلْبَآئِسَ ٱلْفَقِيرَ ﴿28﴾

تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں۔ اور (قربانی کے) ایام معلوم میں چہار پایاں مویشی (کے ذبح کے وقت) جو خدا نے ان کو دیئے ہیں ان پر خدا کا نام لیں۔ اس میں سے تم خود بھی کھاؤ اور فقیر درماندہ کو بھی کھلاؤ ﴿٢٨﴾

ثُمَّ لْيَقْضُوا۟ تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا۟ نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا۟ بِٱلْبَيْتِ ٱلْعَتِيقِ ﴿29﴾

پھر چاہیئے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں اور خانہٴ قدیم (یعنی بیت الله) کا طواف کریں ﴿29﴾

ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَٰتِ ٱللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌۭ لَّهُۥ عِندَ رَبِّهِۦ ۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ ٱلْأَنْعَٰمُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ۖ فَٱجْتَنِبُوا۟ ٱلرِّجْسَ مِنَ ٱلْأَوْثَٰنِ وَٱجْتَنِبُوا۟ قَوْلَ ٱلزُّورِ ﴿30﴾

یہ (ہمارا حکم ہے) جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ پروردگار کے نزدیک اس کے حق میں بہتر ہے۔ اور تمہارے لئے مویشی حلال کردیئے گئے ہیں۔ سوا ان کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں تو بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو ﴿30﴾

حُنَفَآءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِۦ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ ٱلسَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ ٱلطَّيْرُ أَوْ تَهْوِى بِهِ ٱلرِّيحُ فِى مَكَانٍۢ سَحِيقٍۢ ﴿31﴾

صرف ایک خدا کے ہو کر اس کے ساتھ شریک نہ ٹھیرا کر۔ اور جو شخص (کسی کو) خدا کے ساتھ شریک مقرر کرے تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے پھر اس کو پرندے اُچک لے جائیں یا ہوا کسی دور جگہ اُڑا کر پھینک دے ﴿31﴾

ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَٰٓئِرَ ٱللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى ٱلْقُلُوبِ ﴿32﴾

(یہ ہمارا حکم ہے) اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ (فعل) دلوں کی پرہیزگاری میں سے ہے ﴿32﴾

لَكُمْ فِيهَا مَنَٰفِعُ إِلَىٰٓ أَجَلٍۢ مُّسَمًّۭى ثُمَّ مَحِلُّهَآ إِلَى ٱلْبَيْتِ ٱلْعَتِيقِ ﴿33﴾

ان میں ایک وقت مقرر تک تمہارے لئے فائدے ہیں پھر ان کو خانہٴ قدیم (یعنی بیت الله) تک پہنچانا (اور ذبح ہونا) ہے ﴿33﴾

وَلِكُلِّ أُمَّةٍۢ جَعَلْنَا مَنسَكًۭا لِّيَذْكُرُوا۟ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَٰمِ ۗ فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌۭ وَٰحِدٌۭ فَلَهُۥٓ أَسْلِمُوا۟ ۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُخْبِتِينَ ﴿34﴾

اور ہم نے ہر اُمت کے لئے قربانی کا طریق مقرر کردیا ہے تاکہ جو مویشی چارپائے خدا نے ان کو دیئے ہیں (ان کے ذبح کرنے کے وقت) ان پر خدا کا نام لیں۔ سو تمہارا معبود ایک ہی ہے تو اسی کے فرمانبردار ہوجاؤ۔ اور عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنادو ﴿34﴾

ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ ٱللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَٱلصَّٰبِرِينَ عَلَىٰ مَآ أَصَابَهُمْ وَٱلْمُقِيمِى ٱلصَّلَوٰةِ وَمِمَّا رَزَقْنَٰهُمْ يُنفِقُونَ ﴿35﴾

یہ وہ لوگ ہیں کہ جب خدا کا نام لیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر مصیبت پڑتی ہے تو صبر کرتے ہیں اور نماز آداب سے پڑھتے ہیں اور جو (مال) ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے (اس میں سے) (نیک کاموں میں) خرچ کرتے ہیں ﴿35﴾

وَٱلْبُدْنَ جَعَلْنَٰهَا لَكُم مِّن شَعَٰٓئِرِ ٱللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌۭ ۖ فَٱذْكُرُوا۟ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَيْهَا صَوَآفَّ ۖ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا۟ مِنْهَا وَأَطْعِمُوا۟ ٱلْقَانِعَ وَٱلْمُعْتَرَّ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرْنَٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿36﴾

اور قربانی کے اونٹوں کو بھی ہم نے تمہارے لئے شعائر خدا مقرر کیا ہے۔ ان میں تمہارے لئے فائدے ہیں۔ تو (قربانی کرنے کے وقت) قطار باندھ کر ان پر خدا کا نام لو۔ جب پہلو کے بل گر پڑیں تو ان میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ۔ اس طرح ہم نے ان کو تمہارے زیرفرمان کردیا ہے تاکہ تم شکر کرو ﴿36﴾

لَن يَنَالَ ٱللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ ٱلتَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا۟ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمْ ۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُحْسِنِينَ ﴿37﴾

خدا تک نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون۔ بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ اسی طرح خدا نے ان کو تمہارا مسخر کر دیا ہے تاکہ اس بات کے بدلے کہ اس نے تم کو ہدایت بخشی ہے اسے بزرگی سے یاد کرو۔ اور (اے پیغمبر) نیکوکاروں کو خوشخبری سنا دو ﴿37﴾

Alquran. 22:26-37


سورۃ فتح آیت پچیس:

هُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَصَدُّوكُمْ عَنِ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ وَٱلْهَدْىَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُۥ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌۭ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَآءٌۭ مُّؤْمِنَٰتٌۭ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَـُٔوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌۢ بِغَيْرِ عِلْمٍۢ ۖ لِّيُدْخِلَ ٱللَّهُ فِى رَحْمَتِهِۦ مَن يَشَآءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا۟ لَعَذَّبْنَا ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿25﴾

یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روک دیا اور قربانیوں کو بھی کہ اپنی جگہ پہنچنے سے رکی رہیں۔ اور اگر ایسے مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کو تم جانتے نہ تھے کہ اگر تم ان کو پامال کر دیتے تو تم کو ان کی طرف سے بےخبری میں نقصان پہنچ جاتا۔ (تو بھی تمہارے ہاتھ سے فتح ہوجاتی مگر تاخیر) اس لئے (ہوئی) کہ خدا اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرلے۔ اور اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان ہم دکھ دینے والا عذاب دیتے ﴿٢٥﴾

Alquran. 48:25.

سورۃ الصافات میں ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش

ہمارے ہاں مشہور روایت یہ ہے کہ عید الضحی پہ جانوروں کی قربانی ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد میں کی جاتی ہے جب اللہ نے ان کی آزمائش کی اور ان کو اپنے بیٹے کی قربانی کا حکم دیا۔ آزمائش میں کامیابی کے بعد ان کو بیٹے کے فدیے کے طور پر ایک بڑی قربانی عطا کی۔ اور ان کا ذکر خیر آنے والوں کے لئے چھّوڑ دیا۔ قرآن یہ نہیں بتاتا کہ ذکر خیر سے مراد عید الضحی پہ غیر حاجیوں کے لئے قربانی کا حکم ہے یا نہیں۔ سورۃ الصافات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کا بیان کچھ ایسے ہوا ہے۔:

وَقَالَ إِنِّى ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّى سَيَهْدِينِ ﴿99﴾

اور ابراہیم بولے کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں وہ مجھے رستہ دکھائے گا ﴿٩٩﴾

رَبِّ هَبْ لِى مِنَ ٱلصَّٰلِحِينَ ﴿100﴾

اے پروردگار مجھے (اولاد) عطا فرما (جو) سعادت مندوں میں سے (ہو) ﴿١٠٠﴾

فَبَشَّرْنَٰهُ بِغُلَٰمٍ حَلِيمٍۢ ﴿101﴾

تو ہم نے ان کو ایک نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی ﴿١٠١﴾

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ ٱلسَّعْىَ قَالَ يَٰبُنَىَّ إِنِّىٓ أَرَىٰ فِى ٱلْمَنَامِ أَنِّىٓ أَذْبَحُكَ فَٱنظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَٰٓأَبَتِ ٱفْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِىٓ إِن شَآءَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلصَّٰبِرِينَ ﴿102﴾

جب وہ ان کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو پہنچا تو ابراہیم نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا) تم کو ذبح کر رہا ہوں تو تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا کہ ابا جو آپ کو حکم ہوا ہے وہی کیجیئے خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پایئے گا ﴿١٠٢﴾

فَلَمَّآ أَسْلَمَا وَتَلَّهُۥ لِلْجَبِينِ ﴿103﴾

جب دونوں نے حکم مان لیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا ﴿١٠٣﴾

وَنَٰدَيْنَٰهُ أَن يَٰٓإِبْرَٰهِيمُ ﴿104﴾

تو ہم نے ان کو پکارا کہ اے ابراہیم ﴿١٠٤﴾

قَدْ صَدَّقْتَ ٱلرُّءْيَآ ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِى ٱلْمُحْسِنِينَ ﴿105﴾

تم نے خواب کو سچا کر دکھایا۔ ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں ﴿١٠٥﴾

إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ ٱلْبَلَٰٓؤُا۟ ٱلْمُبِينُ ﴿106﴾

بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی ﴿١٠٦﴾

وَفَدَيْنَٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍۢ ﴿107﴾

اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا ﴿١٠٧﴾

وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِى ٱلْءَاخِرِينَ ﴿108﴾

اور پیچھے آنے والوں میں ابراہیم کا (ذکر خیر باقی) چھوڑ دیا ﴿١٠٨﴾

سَلَٰمٌ عَلَىٰٓ إِبْرَٰهِيمَ ﴿109﴾

کہ ابراہیم پر سلام ہو ﴿١٠٩﴾

كَذَٰلِكَ نَجْزِى ٱلْمُحْسِنِينَ ﴿110﴾

نیکوکاروں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں ﴿١١٠﴾

إِنَّهُۥ مِنْ عِبَادِنَا ٱلْمُؤْمِنِينَ ﴿111﴾

وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے ﴿١١١﴾

Alquran. 37: 99-111

قرآن میں قربانی اور مناسک حج کا ذکر

قرآن کریم میں جہاں قربانی اور مناسک حج کا ذکر ملتا ہے، وہ تمام آیات اسلام کی ان دو اہم عبادات کی جامع تفہیم فراہم کرتی ہیں۔ یہ آیات حج کی رسوم اور قربانی کی اہمیت کو نمایاں کرتی ہیں، جس میں میں نے متعدد آیات کا حوالہ دیا ہے تاکہ موضوع کی گہرائی اور وسعت کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے۔ خاص طور پر سورۃ الحج کی آیات نمبر چھبیس سے سینتیس تک کی ان آیات کو میں نے یہاں پیش کیا ہے جو مناسک حج اور قربانی کے موضوع پر روشنی ڈالتی ہیں۔ ان آیات میں حج کے دوران قربانی کی ادائیگی کی اہمیت اور اس کے طریقہ کار کی وضاحت کی گئی ہے۔

قربانی کے قرآنی احکامات کا تجزیہ

اب تک کی گفتگو سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن میں قربانی حج کے مناسک میں سے ایک اہم جزو ہے اور یہ کہ قربانی کے جانور کو حرم میں ہی ذبح کرنا ضروری ہے۔ اگر غیر حاجیوں یا عید الضحی پر قربانی واجب ہوتی، تو اس کا حکم قرآن میں موجود ہوتا۔ قربانی کی [ھدی]، جو کہ اللہ کے لئے مانی گئی نذر ہے، اور القلائد کی قربانی کو بیت اللہ تک بھیجنے کا حکم قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ سب آیات واضح طور پر بتاتی ہیں کہ غیر حاجیوں کے لئے قرآن میں واجب قربانی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

غیر قرآنی مآخذ اور مصادر میں بیان کیا گیا ہے کہ قربانی کا طریقہ یا رسم، جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے چلی آ رہی ہے، مستقبل کی نسلوں کے لیے باقی چھوڑ دی گئی تھی۔ یہ عمل، جسے سنت ابراہیمی کہا جاتا ہے، آج بھی ہم مسلمان ادا کرتے ہیں۔ تاہم، قرآن مجید اس بات پر کھل کر روشنی نہیں ڈالتا کہ کیا ہمیں عید الضحی پر سنت ابراہیمی کی یاد میں قربانی کرنی چاہیے یا نہیں۔

مختلف اسلامی مکاتب فکر کے پیروکار اپنے اپنے پسندیدہ علماء یا مسلک کی تعلیمات کو فوقیت دیتے ہیں، اور اس بنا پر غیر قرآنی مآخذ اور مصادر کی صحت کے بارے میں اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔ اس مضمون میں، ان غیر قرآنی مآخذ و مصادر کا تفصیلی جائزہ نہیں لیا گیا ہے۔ اس تحریر کے قاری کو یہ فیصلہ خود کرنا ہوگا کہ وہ قرآنی تعلیمات کو ترجیح دیتے ہیں یا غیر قرآنی مآخذ و مصادر سے منسوب تعلیمات کو۔ مصنف اس معاملے میں قارئین کی راہنمائی کرنے سے معذور ہیں۔

مضمون کا اگلا حصہ یہاں موجود ہے۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں