Skip to content

سکور کارڈ

بچپن میں بھی، اور ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا، جاب پہ آتے جاتے اکثر ایسے اشتہاروں پر نظر پڑتی جس میں تعلیمی اداروں نے تعلیمی نظام کی ایک سٹیج پر کامیاب ہونے والے طالب علموں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے پُر کشش اعلانات کئے ہوتے تھے۔

ان اعلانات کا لُب لُباب اکثر یہ ہوتا تھا کہ اگر آپ نے ایک خاص تناسب سے زیادہ نمبر لئےہیں تو مزید تعلیم کے لئے ہمارے ادارے کے انتخاب پر ادارہ آپ کی فُلاں فُلاں فیس معاف کردے گا۔ کچھ ادارے تو یہاں تک اعلان کر گئے کہ مخصوص تناسب سے نمبر حاصل کرنے والے طُلبہ ادارے کی طرف سے ایک عدد موٹر سائیکل کے حقدار ٹھہریں گے، اگر، جی ہاں، اگر وہ اِس ادارے کو مزید تعلیم کے لئے منتخب کریں گے۔

پہلے پہل تو میرے غبی ذہن میں یہ بات بیٹھی ہی نہیں۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ یہ ادارے ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ ایک طرف تو یہ خیال آتا تھا کہ شائد یہ ادارے ایسے طُلبہ و طالبات کو اپنی طرف متوجہ کر کے اپنی ساکھ بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف سوچتا تھا کہ کون ہوگا جو ان اداروں کی طرف جائے گا۔

پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب ثانوی تعلیمی بورڈوں کے نتائج پر نظر پڑنے لگی تو اندازہ ہوا کہ ان نتائج پر چند تعلیمی اداروں کا اجارہ ہے۔ ہر سال ان اداروں کے طُلبہ و طالبات امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوتے ہیں تو لوگ بھی کوشش کر کے اپنے بچوں کو ان تعلیمی اداروں میں داخل کراتے ہیں۔ اچھے مستقبل کی خواہش انسان سے کیا کیا نہیں کرواتی؟؟

پھر سمجھ آئی کہ وہ تعلیمی ادارے جو اچھے طُلبہ وطالبات کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے اشتہار دیتے تھے کہ ہمارے پاس آنے پر ٹیوشن فیس معاف یا موٹر سائیکل ملے گا وہ ایسا کیوں کرتے تھے۔

اچھے محنتی طُلبہ کے اُن کے پاس آنے سے کئی مسائل حل ہوسکتے تھے۔

اول تو یہ کہ محنتی طُلبہ پر زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی، اور ذرا سی محنت ہی درکار ہوگی۔

دوم ، یہ طُلبہ اپنے روشن مستقبل کی خاطر محنت کریں گے اور حسب سابق کامیاب ہوں گے تو ادارے کا نام روشن ہوگا۔

سوم، اساتذہ پر توقعات کا زیادہ اور بھاری بوجھ نہ ہوگا۔

چہارم ، یہ طُلبہ ادارے کا چلتا پھرتا اشتہار بن جائیں گے

لا محالہ اس سب کا منطقی نتیجہ ادارے کے لئے زیادہ کمائی تھا۔

جب آپ کے مستقبل کا دارو مدار قابلیت کی بجائے امتحان میں، جیسے بھی حاصل کئے گئے، نمبروں کی بنیا د پر ہو تو پھر ایسا ہی ہوگا۔ پڑھانا، اور مضمون کو ذہن نشین کرانا مشکل کام ہے۔ شائد اسی لئے محنتی اور ذہن طُلبہ کو سب اساتذہ پسند کرتے ہیں اور شائد اسی لئے غبی طلبہ کو اکثر مذاق و طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مجھے اپنے ایف ایس سی کے زمانے کا ایک غبی ساتھی یاد آ رہا ہے، اسے بہت مشکل سے مضمون سمجھ آتا تھا اور نتیجتا اسے ہم سمیت بہت سوں کے مذاق کا نشانہ بننا پڑتاتھا۔

بہر حال، محنتی ، ذہین اور کامیاب ہونے والے طلبہ اپنے ادارے کے لئے چلتا پھرتا اشتہار بن جاتے ہیں اور یوں اس ادارے کے سکور کارڈ میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

جہاں تک مملکت خداداد پاکستان کی بات ہے، یہاں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو کہیں بھی نہیں ہوتا، اور بہت سا ایسا بھی ہوتا ہے جو ہنس کی چال چلنے کے چکر میں اختیار کر لیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں عنقریب ہیلتھ انشورنس کا نظام آنے والا ہے، اور صحت کو پرائیویٹائز کردیا جائے گا۔

اگر صحت کی مکمل پرائیوٹائزیشن نہ بھی ہوئی تو جزوی حد تک اس قدر اس نظام کو بڑے کھلاڑیوں کے لئے چھوڑ دیا جائے گا کہ حکومت پر کم سے کم بوجھ ہو۔

اس پرائیوٹائزیشن کے بعد ہسپتالوں کو اپنے لئے خود پیسہ کمانا ہوگا۔ اپنے لئے بھی، اپنے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کی مد میں بھی اور منافع بھی کمانا ہوگا۔

کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ پھر ہسپتالوں کے لئے ذریعہ آمدنی کیا ہوگا؟

اول تو مریضوں کی جیب سے اخراجات کی براہ راست ادائیگی۔

دوم محکمہ جاتی ادائیگی پینل سسٹم کے ذریعے

سوم عطیات و خیرات۔ مخیر حضرات

مملکت خداداد پاکستان میں لوگوں کی صحت کی سہولیات کو حاصل کرنے کے لئے درکار قوت خرید نہ ہونے کے برابر ہے اور بہت سے مریض صحت کی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔

ملک میں اس وقت صحت کی سہولیات کا بڑا حصہ پرائیوٹ سیکٹر فراہم کر رہا ہے مگر یہ پرائیویٹ سیکٹر ابھی مکمل کارپوریٹ نہیں ہوا۔ کچھ عرصے کی بات ہے، یہ کارپوریٹ کلچر یہاں بھی آجائے گا۔

بہر حال ملک میں اس وقت جو نام ور ہسپتال کام کر رہے ہیں وہ اکثر عطیات و خیرات حاصل کرنے کے چکر میں زکوٰۃ، صدقات، قربانی کی کھالیں اور اس طرح کی دوسری چیزیں مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ٹیلی تھان نشریات کی جاتی ہیں۔ صرف اس لئے کہ ہسپتال کے اخراجات مریضوں سے حاصل کئے گئے پیسے سے پورے نہیں ہوپاتے۔

ہمارے ہاں صدقات و خیرات کا جو تصور ہے، اس کا پوری طرح سے استحصال کرتے ہوئے یہ ادارے اپنے اخراجات کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے ان اداروں سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں ہے۔ لیکن اس صورت حال کا ایک  اور پہلو بھی ہے اور اتنی طویل تمہید میں نے اس لئے باندھی ہے کہ میں اپنے قارئین کی توجہ اس پہلو کی طرف مبذول کرا سکوں۔

ان اداروں کو اپنے بجٹ میں رہنا ہوتا ہے، اور ان کو تعین بھی کرنا ہوتا ہے کہ اخراجات کی آخری حد کیا ہے۔ اور اپنے بجٹ کی حد میں رہتے ہوئے یہ ادارے ایک خاص حد تک ہی صحت کی سہولیات فراہم کر سکتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ان کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کونسا مریض لینا ہے اور کونسا نہیں۔

سکور دکھانے کا پریشر یہاں کام کرتا ہے۔ یہ ادارے اس مریض کو بخوشی لیں گے جس کے صحت یاب ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوں، ایک خاص حد سے کم عُمر ہووغیرہ وغیرہ۔

اگر کوئی مریض ان کے منتخب کردہ معیارات پر پورا اترتا ہے تو اس مریض کے مزے۔ اور اگر کوئی مریض ان معیارات پر پورا نہیں اترتا تو اس کو صاف جواب دے دیا جاتا ہے۔

ایسے مریضوں کے صحت یاب ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں، یہ معمر مریض ہوتے ہیں ، اپنی زندگی گزار چکے ہوتے ہیں لہٰذا کوشش کی جاتی ہے کہ جوان العمر مریضوں پر توجہ دی جائے، ان پر وسائل خرچ کئے جائیں تاکہ وہ اپنی زندگی گزار سکیں۔

جوان العمر مریض جن کا مرض ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھا،  خوش قسمت ٹھہرتے ہیں کہ ان کا علاج بہترین ماحول میں ہوتا ہے۔ان کے علاج سے ہسپتال کو فائدہ بھی ہوتا ہے۔ سالانہ سکور کارڈ میں یہ دکھایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ برس اتنے ہزار یا اتنے لاکھ مریضوں میں سے اتنے ہزار یا اتنے لاکھ مریض صحت یاب ہوئے۔ لہٰذا ہم آپ کے صدقات و خیرات و عطیات کے مستحق اس لئے ٹھہرتے ہیں کہ ہمارے پاس آنے والے مریضوں کی اکثریت صحت یاب ہوکر جاتی ہے۔

سکور کارڈ، جناب والیٰ، سکور کارڈ۔

خسارے میں چلنے والے بزنس پر کوئی سرمایہ کاری نہیں کرتا۔ سرمایہ کار اُسی بزنس کو پسند کرتا ہے جس کے نتائج اچھے اور دِل پسند ہوں۔ لہٰذا ایسے سکورکارڈ جن میں سب اچھا درج ہو، زیادہ عطیات کی وصولی کا سبب بنتے ہیں۔

سوال یہ ہے جناب والٰی ، کہ وہ لوگ جو ان اداروں کے معیارات پر پورا نہیں اترتے وہ کہاں جائیں؟ کیا ان کا حق نہیں بہترین علاج کی سہولیات پر؟ کیا ان کا حق نہیں کہ ان کے علاج کی کوشش ہی کر لی جائے، بے شک امراض سے متعلق مختلف سکورنگ سسٹمز موجود ہیں، بے شک یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ کسی کے بچنے کا کتنا امکان ہے مگر کیا معمر ، یا ایک خاص حد سے زیادہ بیمار مریضوں کا اُنھی سہولیات سے استفادے پر کوئی حق نہیں جو جوان العمر مریضوں کے لئے ہیں؟

جب اس ملک میں انشورنس سسٹم آجائے گا تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ انشورنس کمپنیاں گھاٹے کا سودا نہیں کرتیں۔ معمر، بیمار افراد کی انشورنس یا تو بہت مہنگی ہوگی ، یا ہوگی ہی نہیں۔

وجہ؟

سکور کارڈ۔ بیلنس شیٹ۔ منافع

3 thoughts on “سکور کارڈ”

  1. زبردست ۔ ڈاکٹر صاحب ۔ زبردست ۔ گو کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ میں ایسے ہی بولتا رہتا ہوں (میں آپ کی بات نہیں کر رہا) لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں بغیر ذاتی تجربہ یا ذاتی مشاہدہ یا مستند تحریر کی بنیاد پر لکھتا یا بات کرتا ہوں ۔ میں ان دنوں دبئی میں ہوں ۔ پہلے میں سال بھر ایک سے تین ماہ کیلئے آتا تھا ۔ اُس دوران میں بیمار ہوا تو تین بار سرکاری ہسپتال لے جایا گیا جہاں مجھے صرف ایمرجنسی علاج مل سکتا تھا ۔ وہاں مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہونےکی وجہ سے باری دو سے ڈھائی گھنٹے بعد آئی اور علاج ایک سے دو گھنٹے ہوا مگر تسلی بخش تھا ۔ چِٹ بنوانے کے صرف چند درھم دینا پڑے جیسے پاکستان میں بھی اب شاید 20 روپے دینا ہوتے ہیں ۔ ایک بار بیٹا انتظار کا سوچ کر قریبی بڑے پراوئیویٹ ہسپتال میں لے گیا ۔ 600 درھم صرف دکھانے کے دینا پڑے ۔ دوائیوں کے الگ دیئے اور علاج ہمارے بدنام قسم کے سرکاری ہسپتال کے برابر بھی نہ تھا۔ ایک درھم 28 روپے 50 پیسے کا ہے
    پچھلے دسمبر میں بچوں نے ہمارا ریزیڈنٹ وِیزا لے لیا جس کیلئے ہیلتھ انشورنس لازم ہے جو میری اور میری بیوی کی انشورنس ایک سال کیلئے 10000 درھم میں ہوئی میری عمر 70 سال سے اُوپر اور بیوی 5 سال چھوٹی ہے ۔ میں دو بار بیمار ہوا تو پرائیویٹ ہسپتال جو انشورنس کمپنی کی لِسٹ میں تھا اُس میں گئے ۔ وہاں جو ڈاکٹر بیٹھے تھے وہ جی ڈی ایم او تھے جب کہ میرا مرض ایک اعلٰی تعلیم یافتہ سپیشلسٹ ہی سمجھتا ہے ۔ اینٹی بائیوٹک اور اینلجیسک دے دی ۔ اور دوائی کی بھی 25 فیصد قیمت دینا پڑی ۔ یہاں دوائیوں کی قیمت پاکستان کی نسبت 5 سے 6 گنا ہے
    محترم ۔ دعا کیجئے کہ ہمارے مُلک میں ہیلتھ انشورنس نافذ نہ ہو ۔ ورنہ 80 فیصد لوگ علاج نہیں کروا سکیں گے ۔ امریکہ میں چھوٹے چھوٹے شہروں میں رہنے والے لاکھوں غریب لوگ علاج سے اس لئے محروم ہیں کہ اُن کے پاس ہیلتھ انشورنس کیلئے پیسے نہیں ہوتے ۔ اوروہ وہاں کے دیسی ٹوٹکے کرتے ہیں ۔ یہ مجھے خالص امریکی جس کی عمر 55 سال ہے اور ریاست نیواڈا کے ایک چھوٹے سے شہر میں رہتی ہے نے بتایا ہے ۔ اور جو لوگ اچھا کماتے ہین اور بڑے شہروں میں رہتے ہیں ان میں ایک جو راولپنڈی کے پاس واہ مین پیدا ہوئے اور پڑھائی مکمل کی نے بتایا کہ وہ کار کے حادثہ جس مین کار تباہ ہو گئی زضمی ہو کر اپنے ذریعہ سے انشورنس کے ہسپتال پہنچا اور وہاں ڈاکٹر نے نہ سی ٹی سکین کیا نہ ایم آر آئی کیا اور اُسے فارغ کر دیا ۔ میں نے بتایا کہ مجھے موٹر سائکل والے نے شدید زخمی کیا ۔ 2211 کی ایمبولنس 10 منٹ کے اندر مجھے لاہور جنرل ہسپتال لے گئی ۔ سیدھ مجھے آپریشن ٹھیئیٹر لے جا کر ٹانکے لگائے گئے پھر نیورو ڈیپارٹمنٹ لیجایا گیا وہاں پروفیسر آف نیورولوجی نے دیکھا اور فوری طور پر سی ٹی سکین کا کہا جس کے بعد مجھے آئی سی یو میں داخل کر دیا گیا ۔ میرے لئے ناشتہ اور دو وقت کا کھانا ہسپتال کی طرف سے آتا رہا ۔ میں تو کچھ کھان نہیں تھا ۔ انچارج نرس نے میری بیوی اور بیٹی جو ہسپتال پہنچ گئی تھیں کو روکا ہوا تھا اُنہیں کہا یہ آپ کھا لیں پھر مزید کینٹین سے خرید لائیں ۔اُنہوں نے اُسی پر گذارہ کر لیا ۔ وہ امریکہ والا بولا ” ہم ایسے ہی اپنے مُلک کو بدنام کرتے ہیں ۔ ہمارا مُلک تو جنت ہے“۔ جو ناشتہ اور کھان ہسپتال میں دیا گیا وہ لاہور کے دولتمند شہری تمام ہسپتالوں میں سپلائی کر رہے ہیں ۔ یہ بات مجھے ڈاکتر نے بتائی ۔ شہباز شریف نے لاہور کے بڑے کارخانہ داروں اور تاجروں کو بلایا اور کہا ”نہ ہمارے پاس پیسہ ہے اور نہ آدمی ۔ آپ لوگوں کا یہ ملک ہے یہ شہر ہے ۔ آپس میں مل کے فیصلہ کر لیں ایک ہسپتال کا ایک کھانا ایک آدمی یا دو تین مل کر سنبھال لیں “۔ سو لاہور کے تمام ہسپتالوں میں صبح ناشتہ ۔ دوپہر اور رات کا کھانا اور سہ پہر کو چائے بسکٹ ملتے ہیں ۔ صبح کے ناشتے میں چوس کی ڈبیہ ۔ دودھ کا کپ ۔کچھ بسکٹ ۔ انڈہ اور چائے ہوتے ہیں ۔

    1. جناب، ہیلتھ انشورنس کے نظام کا نفاذ شروع ہوچکا ہے مملکت خداداد پاکستان میں۔
      خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت اس کا کریڈٹ لے رہی ہے اور بقیہ ملک میں مسلم لیگ نون کریڈٹ لے رہی ہے۔

      تبدیلی آ نہیں رہی، آ گئی ہے۔

  2. اللہ کرے کہ ایسا نظام سارے پاکستان میں ہو جائے ۔ یقین جانے پاکستانی سخاوت میں دنیا بھر میں سب سے اُوپر ہیں ۔ صرف انہیں ڈائریکشن اور سیٹسفیکشن کی ضرورت ہے ۔ جو شہباز شریف نے اُنہیں مہیاء کی اور عوام مستفید ہو رہے ہیں ۔ اللہ ہم لوگوں کو صبر اور قناعت کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور اپنے ملک ۔ اپنے ہموطنوں سے نفرت کرنے کی بجائے پیار اور ہمدردی کرنا سکھائے ۔ آمین ثم آمین

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں