Skip to content

حج کے ایام ، قربانی اور عیدالضحی

تحریر کا تیسرا اور آخری حصہ جس میں حج کے ایام، قربانی اور عید الضحی پہ بات کی گئی ہے۔ پہلے دو حصے یہاں اور یہاں موجود ہیں۔

حج کے ایام ، قربانی اور عید الضحی
حج کے ایام، قربانی اور عید الضحی ہمارے ہاں لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔

حج کے ایام ،قربانی اور عید الضحی

اسلام میں قربانی اور عید الضحی کو ایک لازمی و ملزوم جزو کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ قربانی کی رسم، جو حج کے موقع پر ادا کی جاتی ہے، دراصل اللہ کے حکم اور اس کی محبت میں انسان کی جانب سے ایک عملی اظہار ہے۔

حج کے ایام اور حج کی مدت

حج، جو مسلمانوں کا ایک بڑا فریضہ ہے، سال کے مخصوص دنوں میں ادا کیا جاتا ہے۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حج صرف ذی الحج کے پہلے عشرے کے دوران ہی ادا کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، قرآن کی سورۃ بقرہ کی آیت 197 میں حج کے مہینوں کا ذکر ہوتا ہے، جو یہ بتاتی ہے کہ حج کسی بھی معلوم شدہ مہینے میں ادا کیا جا سکتا ہے:

ٱلْحَجُّ أَشْهُرٌۭ مَّعْلُومَٰتٌۭ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ ٱلْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِى ٱلْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا۟ مِنْ خَيْرٍۢ يَعْلَمْهُ ٱللَّهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا۟ فَإِنَّ خَيْرَ ٱلزَّادِ ٱلتَّقْوَىٰ ۚ وَٱتَّقُونِ يَٰٓأُو۟لِى ٱلْأَلْبَٰبِ ﴿197﴾

حج کے مہینے (معین ہیں جو) معلوم ہیں تو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرلے تو حج (کے دنوں) میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے نہ کسی سے جھگڑے۔ اور جو نیک کام تم کرو گے وہ خدا کو معلوم ہوجائے گا اور زاد راہ (یعنی رستے کا خرچ) ساتھ لے جاؤ کیونکہ بہتر (فائدہ) زاد راہ (کا) پرہیزگاری ہے اور اے اہل عقل مجھ سے ڈرتے رہو ﴿١٩٧﴾

Alquran. 2:197

حج کے ایام: قرآنی تعلیمات کی روشنی میں

اسلامی تاریخ و تعلیمات میں حج کے ایام کی اہمیت اور ان کی تقویم کا خاص مقام ہے۔ یہاں ہم یہ بیان کریں گے کہ حج کی ادائیگی صرف محدود دنوں یا ایک مہینے میں نہیں، بلکہ معین اور متصل حرام مہینوں میں کی جاتی ہے۔ اس بات کی وضاحت قرآن کی آیت میں بھی موجود ہے، جیسا کہ سورۃ توبہ کی آیت نمبر دو میں بیان کیا گیا ہے:
“فَسِيحُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍۢ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِى ٱللَّهِ ۙ وَأَنَّ ٱللَّهَ مُخْزِى ٱلْكَٰفِرِينَ ﴿2﴾” (القرآن، 9:2)
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ چار مہینے متصل ہوتے ہیں، جس میں زمین میں سیاحت کی جا سکتی ہے، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔

اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حج کے ایام کی تقویم کا علم اور ان کی پیروی اہم ہے۔تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو، قصی بن کعب یا کعب بن لوی (نام کی تصحیح ممکن نہیں) نے رجب کو حرام مہینوں میں شامل کیا تھا اور رجب کے علاوہ شوال ، ذی القعد اور ذی الحج کو حرام مہینے شمار کیا جاتا تھا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب رجب میں حرام مہینوں کے امن کے باعث سفر شروع کیا جائے، تو کیا شعبان اور رمضان، جو کہ مقدس مہینے نہیں ہیں، میں سفر جاری رکھا جائے یا نہیں؟ اس بارے میں قرآنی آیات اور اسلامی تعلیمات ہمیں رہنمائی فراہم کرسکتی ہیں۔ چار مہینے انسان اسی صورت میں گھوم پھر سکتا ہے جب یہ چار مہینے متصل ہوں۔

یہ سب بحث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ حج کے ایام محض ذی الحج تک محدود نہیں ہوتے بلکہ حج کے مناسک کچھ مہینوں میں ادا کئے جا سکتے ہیں اور یہ متعین مہینے جیسا کہ قرآن نے ان کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں حج ادا کیا جا سکتا ہے متصل اور معلوم ہیں۔ اسلامی تعلیمات اور قرآنی ہدایات کے مطابق، حج کے مہینوں کی پہچان اور ان کی پیروی اہم ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے، مسلمانوں کو حج کی ادائیگی کے لئے ان مہینوں کا ، نہ کہ چند ایام کا، خصوصی خیال رکھنا چاہئے۔

حرام مہینے کونسے ہیں؟

اسلامی تقویم میں چند مہینوں کو خاص حرمت اور تقدس حاصل ہے۔ میرے نقطہ نظر کے مطابق، جو یقیناً غلط بھی ہو سکتا ہے، شوال، ذی قعد، ذی الحج کے ساتھ ساتھ رمضان بھی ایک حرام یا مقدس مہینہ ہے۔ اس حوالے سے صاحبِ تفسیرِ اشرفُ الحواشی کا حوالہ قابل ذکر ہے جہاں بیان کیا گیا ہے کہ عبداللہ رض بن عمررض ابن خطاب شوال، ذی قعد اور ذی الحج کے پہلے دس دنوں کو حرام مہینوں میں شمار کرتے تھے۔

قصے بن کعب یا کعب بن لوی کے مطابق، رجب کو چار حرام مہینوں میں شامل کرنے کی روایت ہے۔ ذی قعد اور ذی الحج کو تو عموماً تمام علماء حرام یا مقدس مہینے تسلیم کرتے ہیں، تاہم دیگر دو مہینوں یعنی محرم اور رجب کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک محرم، رجب، ذی القعد اور ذی الحج حرام یا مقدس مہینے ہیں، جبکہ دیگر رجب، شوال، ذی قعد اور ذی الحج کو حرام تسلیم کرتے ہیں۔

رمضان کی حرمت کا ذکر خاص طور پر قابل توجہ ہے کیونکہ اس ماہ مبارک میں قرآن مجید کا نزول ہوا تھا اور اس مہینے میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ رمضان کی حرمت کا ذکر شاید ان لوگوں کے لئے ہے جو رمضان کی بجائے رجب کو شوال، ذی القعد اور ذی الحج کے ساتھ چوتھا حرام مہینہ سمجھتے ہیں۔ اس تمام بحث میں غیر قرآنی حوالوں کو نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، لہٰذا قارئین کو خود تحقیق کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ انشاء اللہ تعالی، میرے دلائل کی تصدیق ہوگی۔

بارہ مہینے: اسلامی کیلنڈر اور حرام مہینوں کی اہمیت

اسلامی کیلنڈر میں بارہ مہینے ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے خود مقرر فرمایا ہے۔ ان مہینوں میں سے چار کو حرام یا ادب والے مہینے کہا جاتا ہے۔ یہ تصور کہ کسی طرح کا تیرہواں مہینہ موجود ہو، اسلامی تعلیمات میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اس سے قبل یہود کی مذہبی پریکٹس میں تیرہویں مہینے کا تصور پایا جاتا تھا، جسے ان کے علماء اور رہنماؤں نے مقرر کیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس طرح کی پریکٹس کی ممانعت فرمائی ہے۔ یہ حقیقت کہ اللہ کی مرضی کے مطابق سال میں بارہ مہینے ہوتے ہیں اور ان میں سے چار کو خاص اہمیت دی گئی ہے، اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ زمانہ اپنے اصلی حالت پر واپس آ گیا ہے، اس بات کی تائید کرتا ہے کہ اسلامی کیلنڈر میں مہینے صرف بارہ ہیں اور ان میں چار کو حرام یا ادب والا مہینہ کہا جاتا ہے۔ یہی اصل زمانہ ہے، یہی ترتیب ہے جو اللہ نے مقرر کی ہے۔ تیرہویں مہینے کا تصور اور نسی کی پریکٹس اب بے معنی ہو چکی ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق، سال کے یہ بارہ مہینے اللہ کی مرضی اور حکمت کے مطابق تقسیم کیے گئے ہیں، جن میں سے ہر ایک مہینے کی اپنی خصوصیت اور اہمیت ہے۔ اسلامی کیلنڈر کی یہ ترتیب نہ صرف وقت کی گزران کو منظم کرتی ہے بلکہ مسلمانوں کی عبادات اور معاشرتی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ چنانچہ، مسلمانوں کے لئے اسلامی کیلنڈر کی پیروی اور اس کے مہینوں کی حرمت کا احترام کرنا ان کی دینی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

نسی کیا تھا؟

قرآن مجید میں نسی کا ذکر کچھ اس طرح ہے کہ قدیم عرب، خاص طور پر بنی کنانہ، جو اہل عرب کے سردار تصور کیے جاتے تھے، حرام مہینوں کو غیر حرام مہینوں سے بدل لیتے تھے۔ وہ خود یہ فیصلہ کرتے تھے کہ کون سے مہینے حرام یا غیر حرام ہوں گے۔ اس پریکٹس کا تعلق عرب کے تجارتی اور مذہبی ماحول سے تھا جو اکثر بہار یا خزاں کے موسموں میں ہونے والے میلوں کے گرد گھومتا تھا، جب لوگ دور دراز علاقوں سے آسانی سے آ سکتے تھے۔ تجارتی سرگرمیوں کے لئے موسم کی سختیوں سے بچنا ضروری تھا، اس لئے قریش کو جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کیا گیا تھا، تاکہ وہ بہار اور خزاں کے تجارتی میلوں میں شرکت کر سکیں۔۔ دیکھئے سورۃ قریش آیت 2:

إِۦلَٰفِهِمْ رِحْلَةَ ٱلشِّتَآءِ وَٱلصَّيْفِ ﴿2﴾

(یعنی) ان کو جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کے سبب ﴿٢﴾

Alquran. 106:2

جاڑے کے سفر کا اختتام بہار میں اور گرمی کے سفر کا اختتام خزاں میں۔ ان کو اس سفر سے مانوس کرایا تاکہ وہ بہار اور خزاں کے تجارتی میلوں میں شرکت کر سکیں۔ اگر آپ زمانہ قبل از اسلام کے یمن سے لے کر جنوبی لبنان کے تمام اہم تجارتی میلوں کے انعقاد کی جگہوں اور تاریخوں کا جائزہ لیں تو شائد یہ چیز آپ کو مشترک نظر آئے۔ بہار اور خزاں میں میلے۔

عرب کے پاس اپنی تقویم نہیں تھی، اس لئے وہ یہود کے قمری کیلنڈر سے مدد لیتے تھے۔ یہود کے قمری کیلنڈر میں ایک ایشو یہ تھا کہ وہ کچھ تہواروں کو ان کے موسم سے جڑا رکھنے کے لئے مہینوں کی تعداد میں ایڈجسٹمنٹ کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد ان کا قمری سال تیرہ مہینوں کا ہو جاتا تھا۔ رمضان کا مطلب سخت گرمی ہے، اور اس کا نام بھی اسی بنیاد پر پڑا ہو سکتا ہے۔ عرب تہواروں کو موسم کی نرمی کے حساب سے مستقل رکھنے کے لئے یا تو یہود کی طرح کچھ عرصے بعد تیرہواں مہینہ شامل کر لیتے تھے، یا پھر حرام مہینوں کو آگے پیچھے کر دیتے تھے۔

ذی الحج کا زمانی تعین بھی اس طرح کیا جاتا تھا کہ یہ نہ بہت گرمی میں آئے نہ بہت سردی میں۔ اللہ تعالی نے اس پریکٹس کو ختم کر دیا۔ سورۃ توبہ کی آیات 36 سے 37 میں اس بارے میں وضاحت کی گئی ہے کہ خدا کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ اللہ تعالی کی یہ ہدایت ہے کہ ان مہینوں میں زیادتی نہ کی جائے۔ اور نسیئ، جو حرام مہینوں کو آگے پیچھے کرنے کا عمل تھا، کفر میں اضافہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے کافر حلال کو حرام اور حرام کو حلال سمجھ لیتے تھے، جو کہ ان کے لئے گمراہی کا سبب بنتا تھا۔اس کو ختم کردیا گیا۔ سورۃ توبہ کی آیات چھتیس سے سینتیس ملاحظہ کیجئے:

إِنَّ عِدَّةَ ٱلشُّهُورِ عِندَ ٱللَّهِ ٱثْنَا عَشَرَ شَهْرًۭا فِى كِتَٰبِ ٱللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ مِنْهَآ أَرْبَعَةٌ حُرُمٌۭ ۚ ذَٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا۟ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَٰتِلُوا۟ ٱلْمُشْرِكِينَ كَآفَّةًۭ كَمَا يُقَٰتِلُونَكُمْ كَآفَّةًۭ ۚ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلْمُتَّقِينَ ﴿36﴾

خدا کے نزدیک مہینے گنتی میں (بارہ ہیں یعنی) اس روز (سے) کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ کتاب خدا میں (برس کے) بارہ مہینے (لکھے ہوئے) ہیں۔ ان میں سے چار مہینے ادب کے ہیں۔ یہی دین (کا) سیدھا راستہ ہے۔ تو ان (مہینوں) میں (قتال ناحق سے) اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔ اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں۔ اور جان رکھو کہ خدا پرہیز گاروں کے ساتھ ہے ﴿٣٦﴾

إِنَّمَا ٱلنَّسِىٓءُ زِيَادَةٌۭ فِى ٱلْكُفْرِ ۖ يُضَلُّ بِهِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ يُحِلُّونَهُۥ عَامًۭا وَيُحَرِّمُونَهُۥ عَامًۭا لِّيُوَاطِـُٔوا۟ عِدَّةَ مَا حَرَّمَ ٱللَّهُ فَيُحِلُّوا۟ مَا حَرَّمَ ٱللَّهُ ۚ زُيِّنَ لَهُمْ سُوٓءُ أَعْمَٰلِهِمْ ۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْكَٰفِرِينَ ﴿37﴾

امن کے کس مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کر دینا کفر میں اضافہ کرتا ہے اس سے کافر گمراہی میں پڑے رہتے ہیں۔ ایک سال تو اس کو حلال سمجھ لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام۔ تاکہ ادب کے مہینوں کو جو خدا نے مقرر کئے ہیں گنتی پوری کر لیں۔ اور جو خدا نے منع کیا ہے اس کو جائز کر لیں۔ ان کے برے اعمال ان کے بھلے دکھائی دیتے ہیں۔ اور خدا کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ﴿٣٧﴾

Alquran. 9:36-7.

یہاں یہ ذکر کرنا دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ قریش نے حج کو ذی الحج کے پہلے دس ایام سے نتھی کردیا تھا اور ذی الحج کا تعین ایسے ہوتا تھا کہ حج مارچ یا اپریل کے مہینے میں آئے جب موسم بھی معتدل ہو اور علاقائی تہوار بھی تجارتی سرگرمی میں مدد دے سکیں۔ نبی ﷺ کی حیات مبارکہ میں فتح مکہ سے لیکر جب تک نسی کے امتناع کی آیات نازل نہیں ہوئیں، حج ہر سال مارچ / اپریل میں ادا کیا جاتا رہا۔

نسیئ کا امتناع: قرآنی تعلیمات کا ایک اہم پہلو

نسیئ، جو کہ اسلامی تاریخ کا ایک اہم موضوع ہے، بنیادی طور پر حرام مہینوں کو آگے پیچھے کرنے کے عمل کو کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس عمل کو بیان کیا گیا ہے، خاص طور پر سورۃ بقرہ کی آیت 194 اور سورۃ توبہ کی آیات 36 اور 37 میں۔سورۃ بقرۃ آیت ایک سو چورانوے میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں

ٱلشَّهْرُ ٱلْحَرَامُ بِٱلشَّهْرِ ٱلْحَرَامِ وَٱلْحُرُمَٰتُ قِصَاصٌۭ ۚ فَمَنِ ٱعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَٱعْتَدُوا۟ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا ٱعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلْمُتَّقِينَ ﴿194﴾

ادب کا مہینہ ادب کے مہینے کے مقابل ہے اور ادب کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں۔ پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ویسی ہی تم اس پر کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا ڈرنے والوں کے ساتھ ہے ﴿١٩٤﴾

سورۃ بقرہ کی آیت 194 کی تفسیر

اس آیت میں اللہ تعالی نے حرام مہینوں کی اہمیت کو بیان کیا ہے، جس میں فرمایا گیا ہے کہ ایک حرام مہینہ دوسرے حرام مہینے کے مقابل میں ہے اور اس میں انجام دیے گئے اعمال کی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے۔ اس آیت کے ذریعے، مسلمانوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ حرام مہینوں کو غیر حرام مہینوں سے نہیں بدل سکتے ۔ جیسا کہ عرب میں عام تھا محرم مہینہ آگے کر کے اس کی جگہ ایک غیر محرم مہینہ متعین کر لیتے تھے۔

سورۃ توبہ کی آیات 36-37 کی شرح

سورۃ توبہ کی ان آیات میں، اللہ تعالی نے نسیئ کے عمل کو کفر قرار دیا ہے، جس میں کچھ لوگ حرام مہینوں کو حلال قرار دیتے تھے اور پھر اسے دوبارہ حرام بناتے تھے تاکہ اللہ کے مقرر کردہ حرام مہینوں کی تعداد میں چھیڑچھاڑ کر سکیں۔ ان آیات کے ذریعے اللہ تعالی نے واضح کیا ہے کہ ایسے عمل سے گریز کیا جائے اور حرام مہینوں کی حرمت کو قائم رکھا جائے۔

حج اور نسیئ کا تعلق

ان آیات کی بنیاد پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حج کے ایام پانچ یا دس نہیں ، اس کو صرف ماہ ذی الحج میں ہی نہیں ادا کرنا چاہئے بلکہ اسے حرام مہینوں کی حدود میں رکھنا چاہئے۔ حج کے معلوم مہینے، جو کہ رمضان، شوال، ذی القعد اور ذی الحج ہیں، اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ حج کی ادائیگی کے لئے مخصوص وقت مقرر کیا گیا ہے۔اور یہ وقت دس یا پانچ دن نہیں بلکہ چار حرام مہینے ہیں۔ آمدم بر سر مطلب

عید الضحی یا غیر حاجی کے لئے قربانی کا کوئی قرآنی حکم نہیں ہے۔

عید الضحی کی مناسبت سے اب کچھ سوالات سامنے آتے ہیں:

کیا حج کے ایام والی قربانی اور سنت ابراہیمی والی قربانی ایک ہی ہیں؟

عید الضحی پہ ہم کونسی والی قربانی کریں؟ قرآن والی، جس میں جانوروں کو بیت اللہ بھیجنا ہے یا گھر پہ سنت ابراہیمی والی ؟

کیا ہمارے لئے سنت ابراہیمی والی قربانی واجب یا لازم ہے جب کہ اللہ نے ہمارے لئے اس کے وجوب کا ذکر نہیں کیا؟۔ اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے کہ

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ ٱلْمَيْتَةُ وَٱلدَّمُ وَلَحْمُ ٱلْخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ لِغَيْرِ ٱللَّهِ بِهِۦ وَٱلْمُنْخَنِقَةُ وَٱلْمَوْقُوذَةُ وَٱلْمُتَرَدِّيَةُ وَٱلنَّطِيحَةُ وَمَآ أَكَلَ ٱلسَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى ٱلنُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا۟ بِٱلْأَزْلَٰمِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ ٱلْيَوْمَ يَئِسَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَٱخْشَوْنِ ۚ ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَٰمَ دِينًۭا ۚ فَمَنِ ٱضْطُرَّ فِى مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍۢ لِّإِثْمٍۢ ۙ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴿3﴾

تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہ پاسوں سے قسمت معلوم کرو یہ سب گناہ (کے کام) ہیں آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے ﴿٣﴾
Alquran. 5:3

اللہ تعالی نے دین مکمل کردیا ، ہمارے لئے نعمتیں پوری کر دیں اور ہمارے لئے دین اسلام کو پسند کیا اور مسلمانوں کے ہاں اتنے اہم مسئلے یعنی سنت ابراہیمی واجب ہے کہ نہیں کا ذکر تک نہیں کیا؟ اللہ تعالی سورۃ قمر میں فرماتا ہے:

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا ٱلْقُرْءَانَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍۢ ﴿17﴾

اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟ ﴿١٧﴾
Alquran. 54:17.

سوالات جاری ہیں:

اگر سنت ابراہیمی والی قربانی کرنی لازم ہے تو حجاج کونسی قربانی کریں؟

کیا سنت ابراہیمی والی قربانی حجاج سے ساقط ہو جاتی ہے؟

کیا سنت ابراہیمی لازما حج کے ایام میں ہی ادا کی جاسکتی ہے؟

کیا ہم سال کے بقیہ دنوں میں یہ سنت ادا نہیں کر سکتے؟؟

ایک حاجی رمضان ، شوال، ذی قعد حتی کہ ذی الحج کے آخری عشرے میں حج کرسکتا ہے؟

اگر کر سکتا ہے تو غیر حاجی اپنے لئے قربانی کی کیا ترتیب رکھیں او رکونسی والی قربانی کی نیت کریں؟

کیا ایک قریہ میں رہنے والے سال کے کسی بھی دن ایک ساتھ یہ سنت ابراہیمی والی قربانی کر سکتے ہیں یا سب نے اپنی اپنی کرنی ہے؟

جو غیر حاجی احباب حج کے مہینوں میں قربانی کرنا چاہیں، تو وہ کیا کریں ؟ حج تو تین یا چار مہینوں میں تقریبا مسلسل ہو رہا ہوگا، کسی کا یوم عرفہ ہوگا تو کسی کا مزدلفہ والا دن ۔۔ تو غیر حاجی احباب اپنی قربانی کی کیا ترتیب رکھیں اگر وہ اپنی سنت ابراہیمی والی قربانی ان دنوں میں کرنا چاہیں؟

تتمہ:

کچھ عبادات ، رسومات اور تہوار ہم نے اتنے فار گرانٹڈ لے لئے ہیں کہ اگر کوئی ان کی اصل تک پہنچنا چاہے تو کنفیوژن بن جاتی ہے۔ ہمارے پاس سال کے دو اہم تہواروں میں سے کم از کم ایک کی تو کوئی قرآنی دلیل نہیں ہے، اس کے باوجود ہم ان کو منائے جا رہے ہیں، اور ہم نے تقدیس، قبولیت اور تقوی کے نئے معیارات گھڑ لئے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو سچ کی تلاش اور اس کا اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وما علی الالبلاغ۔

===========================================================================================

سُبْحَٰنَ رَبِّكَ رَبِّ ٱلْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿180﴾ وَسَلَٰمٌ عَلَى ٱلْمُرْسَلِينَ ﴿181﴾ وَٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿182﴾

یہ جو کچھ بیان کرتے ہیں تمہارا پروردگار جو صاحب عزت ہے اس سے (پاک ہے) ﴿١٨٠﴾ اور پیغمبروں پر سلام ﴿١٨١﴾ اور سب طرح کی تعریف خدائے رب العالمین کو (سزاوار) ہے ﴿١٨٢﴾

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں