Skip to content

عبد الملک بن مروان کے دور کے اسلامی سکوں میں تبدیلی : عبدالملک یا محمد ﷺ

image

عبد الملک بن مروان کے دور کے اسلامی سکوں میں تبدیلی

سنہ 66-72 ہجری/685-92 عیسوی کی چھے سالہ خانہ جنگی کے اختتام کے بعد، خلیفہ عبد الملک بن مروان نے یروشلم میں قبۃ الصخری اور مسجد اقصی کی تعمیر شروع کی۔ اس دوران، 72 ہجری (691-92 عیسوی) میں، انہوں نے سکوں میں اسلامی تبدیلیاں متعارف کرائیں۔ اموی سلطنت کے سکے اس وقت بازنطینی اور ایرانی سکوں کے نقشوں پر مبنی تھے۔ عبد الملک بن مروان کے دور کے اسلامی سکوں میں تبدیلی کچھ ایسے ہوئی کہ عبدالملک نے ان پر خدا کی وحدانیت اور محمد ﷺ کی رسالت کا پیغام شامل کیا۔غالبا ان کا مقصد تھا کہ تجارت کے ذریعے یہ پیغام عیسائیوں تک پہنچے۔اور یہ سکے اسلام کی تبلیغ کا سبب بن سکیں۔ شائد یہ علاقائی سیاست میں ایک نئے کھلاڑی کی آمد کے اعلان کے طور پہ بھی جاری کئے گئے ہوں، بہر حال یہ وجوہات قابل مطالعہ ہیں۔

اموی خلیفہ نے بازنطینی/ایرانی سکوں کو اسلامی بنانے کا فیصلہ کیا اور کلمہ ‘لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ’ کندہ کرایا۔ اس سے بازنطینی سکوں کی صلیبی علامتیں ختم ہوئیں اور یہ سکے “اسلامی” بن گئے۔ یہ “اسلامی” سکے جب بازنطینی سلطنت میں پہنچے توعبد الملک بن مروان کے دور کے اسلامی سکوں میں تبدیلی کا یہ قدم بازنطینی شہنشاہ جسٹنین دوم (685–95 ہجری، 705-11عیسوی) کی طرف سے ایک ردعمل کا باعث بنا۔ جسٹنین دوم نے اپنے جاری شدہ سکوں میں تبدیلی کی اور سکہ کے پچھلے حصے پر اپنی تصویر اور چہرے پر عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہہ کندہ کر کے اپنی عیسائی شناخت کو اجاگر کیا۔ اس کا جواب عبد الملک نے یوں دیا کہ اس نے اپنے جاری شدہ سکوں پر ایک کھڑے ہوئے آدمی کی تصویر کندہ کی، جس کے ہاتھ میں تلوار تھی۔:

عبد الملک بن مروان کے دور کے اسلامی سکوں میں تبدیلی
جسٹینین ثانی اور عبدالملک بن مروان کے درمیان جاری سکوں کی جنگ کی مثالیں۔ اوپر: عیسی علیہ السلام کی شبیہہ والے بازنطینی سکے۔ نیچے: عبدالملک بن مروان کے “کھڑا ہوا خلیفہ ” والے سکے۔

یہ سکے 74 ہجری/693-94 عیسوی سے معلوم ہیں۔ یہ تصویر شاید عبدالملک کی ہو، جسے ‘کھڑے ہوئے خلیفہ والے سکے’ کہا جاتا ہے۔ لیکن اس خیال میں شک بھی پایا جاتا ہے۔ اس شک کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:.

عبد الملک بن مروان کے دور کے اسلامی سکوں میں تبدیلی
کھڑے ہوئے خلیفہ کی تصویر والے سکے جو بائیں سے دائیں بالترتیب قنسرین ، حمص اور روحا سے ملے۔

عبد الملک بن مروان کے دور کے اسلامی سکوں میں تبدیلی اور محمد ﷺپہلی دلیل : ۔

عبدالملک بن مروان اور جسٹنین دوم نے اپنے سکوں کے ذریعے زبردست پروپیگنڈا کیا۔ انہوں نے اپنی تصاویر اور مذہبی شعارات کو ان سکوں پر کندہ کیا، جو اس دور کی ایک خاص بات تھی۔ جب جسٹنین نے مسیح کی تصویر والے بازنطینی سکے جاری کئے، عبدالملک نے مسلمان سکوں کے ذریعے جواب دیا۔اگر عبدالملک کی اپنی تصویر ہوتی تو مسیحی دنیا کو یہ کمزور پیغام ملتا۔ لیکن انہوں نے ایک شاندار قدم اٹھایا اور نبی محمد ﷺ کی شان و شوکت کو اپنے سکوں پر نمایاں کیا۔ یہ ان کا حق بھی تھا اور اسلام کی تعلیمات کے مطابق بھی۔ دونوں فریقوں کے سکوں میں کی گئی تبدیلیاں انتہائی اہم تھیں۔ یہ نہ صرف نئی تھیں بلکہ پروپیگنڈے کا زبردست ذریعہ بنیں۔ خاص طور پر، جب بازنطین سلطنت کو سبستپولس کی لڑائی میں شکست ہوئی (73 ہجری/692-693 عیسوی) ، تو فریقین کی طرف سے جاری کردہ سکوں پر بالعموم اور عبدالملک بن مروان کی طرف سے جاری کردہ سکوں پر بالخصوص زیادہ غور کرنا ضروری بن گیا۔

عبد الملک بن مروان کے دور کے اسلامی سکوں میں تبدیلی اور محمد ﷺ دوسری دلیل : ۔

عرب کی دوسری خانہ جنگ (685-92 عیسوی) کے دوران، مختلف گروہوں نے مذہب کا استعمال بڑھا دیا تھا۔ یہ خانہ جنگ سماجی انصاف کے لیے لڑی گئی تھی۔ اس دوران، خلیفہ عبد الملک نے اسلام کو ریاست کا مرکز بنانے کا موقع دیکھا۔ انہوں نے مسلمان برادری کی تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کی۔اس دور کے بعد، پیغمبر محمد ﷺ کا نام سرکاری دستاویزات میں شامل ہو گیا۔ یہ نام قبرستانوں اور دیواروں پر بھی عام ہو گیا۔ ایسے حالات میں، یہ ممکن نہیں لگتا کہ عبد الملک نے نئے سکوں پر اپنی تصویر لگائی ہو۔ بلکہ یہ ممکن ہے کہ ان سکوں پر کسی مذہبی شخصیت کی تصویر ہو۔ اس میں سب سے زیادہ امکان پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی ہے۔

image 2

عبد الملک بن مروان کے دور کے اسلامی سکوں میں تبدیلی اور محمد ﷺ تیسری دلیل : ۔


عبد الملک کے سکوں پر موجود شخصیت کی تصویر کا ایک دلچسپ پہلو ہے۔ یہ تصویر بازنطینی شہنشاہ جسٹنین دوم کے مسیح کی تصویر سے مماثلت رکھتی ہے، بجائے کسی بادشاہ کی تصویر کے۔ دونوں شخصیات کے بال لمبے اور ڈاڑھی والے ہیں۔ اس کے علاوہ، دونوں، یعنی بازنطینی سکے کے مسیح اور اسلامی سکے کے کھڑے شخص کے سروں پر کوئی عمامہ، پگڑی یا تاج نہیں ہے۔

عبد الملک بن مروان کے دور کے اسلامی سکوں میں تبدیلی اور محمد ﷺ چوتھی دلیل : ۔

یروشلم، حران، اور الروحا (ادیسا) کے کھڑے شخصیت والے سکوں میں، جیسا کہ دیگر سکوں میں ہوتا ہے، نہ تو پیغمبر محمد ﷺ اور نہ ہی خلیفہ عبد الملک کا نام موجود ہے۔ ان سکوں پر صرف محمد ﷺ کا ذکر ہے۔ ماہر کلائو فاس کے مطابق، ‘ہیلنسٹک دور کے سکوں میں عموماً تصویر اور تحریر دونوں ہوتے تھے۔ یعنی تحریر میں وہ شخص نامزد ہوتا ہے جس کی تصویر بنائی گئی ہو ایسا کوئی سکہ نہیں ملتا جس میں تصویر کے ساتھ دوسرے شخص کا حوالہ دیا گیا ہو۔’ یہ بات واضح کرتی ہے کہ جن سکوں پر محمد ﷺ کی تصویر کے ساتھ ان کا نام لکھا گیا ہے، وہ یقیناً محمد ﷺ کی شبیہہ والے سکے ہیں۔”

عبد الملک بن مروان کے دور کے اسلامی سکوں میں تبدیلی اور محمد ﷺ پانچویں دلیل : ۔

اسلام میں تصویری مواد کے استعمال پر اکثر بحث ہوتی ہے۔ خاص طور پر، پیغمبر محمد ﷺ کی تصویر کے معاملے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمان دینی علماء نے پیغمبر ﷺ کی تصویر بنانے پر پابندی لگائی، لیکن یہ درحقیقت صحیح نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس دور کے مسلمان علماء کے درمیان تصویری مواد کی قبولیت پر گرم بحث چل رہی تھی۔ خاص طور پر، عبد الملک بن مروان کے دور کے اسلامی سکوں میں تبدیلی کے معاملے میں، جن میں ایک طرف تصویر شامل تھی۔ پندرہویں صدی کے مصری مورخ المقرزی کے مطابق، جب یہ سکے محمد ﷺ کے ساتھیوں تک پہنچے، تو انہوں نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ تاہم، سعید بن المسیب، مدینہ منورہ کی ایک معروف شخصیت، نے ان سکوں کی خرید و فروخت میں کوئی عیب نہیں نکالا۔ یہ اسلام کا وہ دور تھا جس میں بہت سی قانونی بحثوں نے ابھی تک وہ حتمی شکل اختیار نہیں کی تھی جو آج کل پائی جاتی ہے۔ اس دور میں، مسلمان ابھی بھی یہ تعین کر رہے تھے کہ اسلام ان کو مختلف مسائل، جیسے کہ تصویری مواد کے استعمال، پر کیسی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ بات اس لئے بھی خاص طور پر اہم ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید ایسے معاملات پر کوئی مخصوص رائے فراہم نہیں کرتا۔

تاریخی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ نبی محمد ﷺ کی تصویری نمائندگی پر کوئی خاص پابندی نہیں تھی۔ لوگ اکثر ان کی تصویر دیکھ کر انہیں پہچانتے تھے۔ ایک مثال اس وقت کی ہے جب عربوں کے ایک گروہ نے شہنشاہ ہیرکلیس (610-41) سے ملاقات کی۔ ہیرکلیس نے انہیں ریشم کے پردوں پر بنائی گئی پیغمبروں کی تصویریں دکھائیں، جن میں آخری تصویر نبی محمد ﷺ کی تھی۔ عرب وفد نے اس تصویر کی تصدیق کی۔ایک اور مثال بیت المقدس میں چٹان کے گنبد کی ہے۔ وہاں ایک سیاہ فرشی پتھر ہے جسے جنت کے دروازے کا حصہ مانا جاتا ہے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق، اس پتھر پر نبی محمد ﷺ کی ‘شبیہ’ خود بخود بن گئی تھی۔ چاہے یہ بات سچ ہو یا نہ ہو، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں قصوں میں محمد ﷺ کی تصویر کی نمائش کو کبھی بھی ناپسندیدہ نہیں سمجھا گیا۔ یہ دو مثالیں بتاتی ہیں کہ نبی ﷺ کی شبیہ بنانا اس زمانے میں یہ عام تھا۔

پس نوشت

عبد الملک بن مروان کے دور کے اسلامی سکوں میں تبدیلی مختصر مدت کے لئے تھی، خلیفہ کی شبیہہ والے سکے صرف تین سال (ہجری 74-77 / عیسوی 693-697) تک چھاپے گئے۔ اس دورانیے کے بعد، سکوں کی تصویری شکل کو ترک کر دیا گیا۔ اب ان پر صرف عربی الفاظ تھے اور کوئی تصویر موجود نہیں تھی۔ سکے کی ایک طرف موجود کھڑے شخص کی تصویر کی جگہ، قرآنی آیات نے لے لی تھی۔ یہ آیات اللہ کی وحدانیت اور محمد ﷺ کے مشن کا اعلان کرتی تھیں اسلامی سکوں کے لئے جمالی انداز کی تلاش کا دور ختم ہو چکا تھا۔ اب عربی حروف تحریر کی سادگی اور خوبصورتی نے اس کردار کو ادا کیا۔ یہ حروف مسلمانوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کے لئے بہترین ذریعہ بن گئے۔ اس جمالی انداز کو آج تک برقرار رکھا گیا ہے۔

image 3

اگر 694-97 میں مسلمان سکوں پر موجود شخص محمد ﷺ تھے تو پھر یہ بات بہت ہی دلچسپ ہوگی، کیونکہ، حالانکہ یہ اسٹائل ایک شبیہہ کی صورت میں تھا، لیکن اس وقت ان کے ساتھی، جنہوں نے ان سے ذاتی طور پر رابطہ رکھا تھا، زندہ تھے اور شاید وہ اس شبیہہ میں اپنے عزیز دوست و رہنما کو پہچانتے بھی ہوں۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں