Skip to content

“Selective Outrage Is Hypocrisy”

یہ تو پاکستانی پاپ میوزک کی آمد تھی کہ جس نے ہماری محبوب کی تانیث بارے ذہن سازی کی۔ مثلا نجم شیراز کا گانا “میری آنکھوں میں سمائی ایک لڑکی” یا مرحوم جنید جمشید کا غالبا آخری البم کا “نہ تو آئے گی نہ ہی چین ائے گا” وغیرہ وغیرہ ۔۔
ورنہ اس سے قبل تو ہماری درسی کتب میں موجود منتخب اردو شاعری میں نہ نہ کرتے ہوئے بھی کہیں نہ کہیں مذکر محبوب کا ذکر نکل آتا تھا۔ ہمارے اردو کے اساتذہ کو نہ جانے کتنی کوششیں کرنی پڑتی تھیں کہ ہمیں عشق مجازی و عشق حقیقی کا فرق سمجھاتے اور یہ کہ دراصل یہ فلرٹیہ شاعری عشق مجازی کا پرتو ہے، جس کا مخاطب دراصل عشق حقیقی ہے جو کہ صرف اللہ کی ذات سے ہوسکتا ہے۔
یہ منافقانہ تشریح شاعری سے بندے کا دل اچاٹ کردیتی ہے کہ یار، دیکھو شاعر تو فلاں بات کر رہا اور تشریح میں فلاں نکتہ؟ یہ کیسے ممکن است۔ الحمدللہ رٹے مار مار کر اس جنجھٹ سے جان چھڑائی۔
میر تقی میر کاہی شعر ہے نا :

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

ریختہ ڈاٹ آرگ پہ یہ شعر کچھ اس طرح نقل ہے:

میرؔ کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

عزیزم علامہ باطل نڈھال نے ایک پوسٹ میں ٹیگ کر کے کچھ اور اشعار کی طرف توجہ دلائی ہے جو کہ آپ کے لئے میں یہاں نقل کئے دیتا ہوں :۔

کیا اس آتش باز کے لونڈے کا اتنا شوق میر
بہہ چلی ہے دیکھ کر اس کو تمہاری رال کچھ
میر تقی میر

خواجہ حیدر علی آتش کو بھی دیکھیں۔۔۔

امرد پرست ہے تو گلستاں کی سیر کر
ہر نونہال رشک ہے یاں خورد سال کا

پھر مصحفی کہتے ہیں۔۔۔۔

لیا میں بوسہ بہ زور اس سپاہی زادے کا
عزیزو اب بھی مری کچھ دلاوری دیکھی ۔۔۔۔۔

قائم چا ند پوری نے تو جنت میں بھی اغلام بازی کی دعا کی ہے۔۔۔

یاں تلک خوش ہوں امارد سے کہ اے رب کریم
کاش دے حور کے بدلے بھی تو غلماں مجھ کو

مجھے علم نہیں آج کل کے اردو اساتذہ ان اشعار کی کیا تشریح فرماتے ہوں گے مگر یہ سادے سادے سے لونڈے کی تعریف میں لکھے گئے اشعار ہیں ۔ لونڈے بازی، اغلام بازی یا امرد پرستی اس معاشرے یا کلچر کا ایک جرو لا ینفک ہے۔ اس جزو کے ڈانڈے میری دانست میں بر صغیرپر ایرانی و افغانی اثرات سے جا ملتے ہیں۔
وہ ایک پشتو کہاوت ہے جو افغانستان میں مشہور ہے کہ “عورتیں اولاد کے لئے ہوتی ہیں اور لڑکے تلذذ کے لئے” ۔ آپ برصغیر کی اردو شاعری کا ایک تنقیدی جائزہ لیں تو علم ہو گا کہ تقریبا تمام تر شاعری ایک ایسے محبوب کی تعریف میں ہوئی ہے جس کا ذکر مذکر کے پیرائے میں کیا گیا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ مرد و عورت کی جنسی کشش اور ہیر رانجھا، مرزا صاحباں، سسی پنہوں، فرہاد شیریں جیسے قصوں کے ہوتے ہوئے ان کو کیا تکلیف پڑی تھی کہ محبوب کا ذکر مذکر کے صیغے میں کر گئے اور ہم جیسوں کے لئے میٹرک اور ایف ایس سی / ایف اے / بی اے اردو / ایم اے اردو کے امتحانات دینے والوں کو عشق مجازی / عشق حقیقی کے جھنجھٹ میں ڈال گئے۔ یقینا وہ شعرا اپنے فن پہ جتنا بھی عبور رکھتے ہوں گے، کم از کم اتنے پیش بین نہ ہوں گے۔
تو صاحبو، یہ طویل تمہید اس لئے کہ یہ بتانا مقصود تھا کہ لونڈے بازی ہمارے مقامی “اسلامی” کلچر کا ایک اہم جزو ہے۔ اور ہم سب، چاہے ہمارا لڑکوں کی طرف فطری میلان ہو یا نہ ہو، کسی نہ کسی پیرائے میں اس رجحان کو اینڈورس کرتے نظر آتے ہیں۔
غورغشتی سے حضرو تک کا علاقہ اس رجحان کے لئے مشہور ہے۔ بنوں کی وجہ بدنامی یا وجہ شہرت، آپ اسے کچھ بھی کہہ لیں ، میں اس علت کا بھی کچھ عمل دخل ہے۔ یقینا اس کی کلچرل انٹرپریٹیشن مختلف ہے، ایک عدد لڑکا ساتھ رکھنا ایک سٹیٹس سمبل کے طور پہ لیا جاتا ہے، اس “لے پالک ” پر خرچہ کیا جاتا ہے، اور شائد معاشرے میں اس چکر میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے، ضروری نہیں کہ لڑکا جنسی وجوہات کی بناء پر ہی ساتھ رکھا گیا ہو۔ سینہ گزٹ میں تو ایسے افراد کے بارے میں بہت رکیک باتیں منقول ہیں جو کہ اس تحریر میں بوجہ مشکوک صحت شامل نہیں کی جا سکتیں۔
افغانستان کا ذکر اوپر آ چکا۔ ہم اس علت کے ساتھ جی رہے۔ یہ ہمارے کلچر کا ایسا حصہ ہے کہ جس کی موجودگی سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی ہم اس کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتے۔ اس رجحان کا ذکر آتے ہی اس کو مذاق میں اڑا دیا جاتا ہے۔ ہمارے کلچرل استعارے لونڈے بازی سے جڑے ہوئے۔ حسین لڑکوں کو جس انداز میں پپو کہہ کر بلایا جاتا ہے اور اس کے بعد سننے والوں کی معنی خیز ہنسی سامنے آتی ہے وہ سب کچھ ظاہر کردیتی ہے کہ کہیں نہ کہیں، اس کام کے لئے ہمارے دلوں میں ایکسپٹنس موجود ہے ورنہ اس پر ہنسی کیوں؟
تو اس سب کے باوجود ہمارا غم و غصہ اس وقت کیوں ابل کر سامنے آتا ہے جب کوئی مذہبی شخصیت اس عمل میں ملوث پائی جاتی ہے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ مذہبی شخصیات کو اس کام کا لائسنس ملنا چاہئے ، نہ ہی، اگر آپ اس طویل تمہید کے باوجود یہ سمجھ رہے کہ میں لونڈے بازی کے حق میں ہوں، تو آپ کو شائد یہ تحریر دوبارہ پڑھنی پڑے، جی ہاں، نہ ہی میں لونڈے بازی کے حق میں ہوں۔ اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ مذہبی شخصیات کو ہر حال میں محتاط رہنا چاہئے کہ تقوی کا تقاضا یہ ہی ہے۔ احتیاط۔ لیکن ہم آپ سب یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ افراد بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہ کوئی آسمان سے تو نازل نہیں ہوئے۔ یہ فرزند زمین صرف اپنے شعبہ زندگی کی وجہ سے ہم سب کی نظر میں ہیں ورنہ ہیں تو یہ ہمارے جیسے ہی ناقص انسان۔ ان پہ قانون اسی شدت سے نافذ ہوتا ہے جس شدت سے ہم پر۔ قانون کی نظر میں ان میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں۔ ان کو وہی حقوق حاصل ہیں جو ہمیں۔ اور ان کے فرائض بھی وہی ہیں جو ہمارے۔ ایسا نہیں کہ تقوی صرف ان پہ فرض ہے اور ہم پہ نہیں۔ چونکہ ہم مدرسے میں نہیں پڑھ سکے یا ہم عالم دین نہیں یا ہم مسجد کے امام نہیں تو گویا ہم پر تقوی فرض نہیں؟ یہ کس نے کہا۔ اگر ان سب باتوں کو دیکھا جائے تو ان میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں۔ ہم سب برابر ہیں۔

اب جب کہ ہم سب برابر ہیں تو میں آپ لوگوں کی توجہ اس بابت دلانا چاہتا ہوں کہ

“selective outrage is hypocrisy”.


امرد پرستی، لونڈے بازی، لڑکوں سے جنسی فعل برا ہے، اور اگر کوئی غیر مذہبی شخص یہ کام کرے تو وہ کم برا نہیں بن جاتا۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں