Skip to content

پہلی غداری

گزشتہ سے پیوستہ

پَے در پَے دو جھڑپوں میں گہرا گھاؤ کھانے کے بعد سید بادشاہ کے ہاتھ پر بیعتِ امامت کی خبر جب سکھوں کے کیمپ میں پہنچی تو مستقبل کے پردے میں کلبلاتے ہوتے خطرات ان کی رگ و پَے میں تشویش کی لہر بن کر دوڑ گئے۔  اور پھر جب یہ خبر ملی کہ بیعتِ امامت کا غیور پٹھانوں کے دل و دماغ پر انقلاب انگیز اثر ہوا ہے اور 80 ہزار سے زائد جنگ جُو سید بادشاہ کے پرچم تلے جمع ہو چُکے ہیں تو دربار لاہور تک لرزہ طاری ہو گیا۔

صرف کچھ مدت پہلے دربار لاہور نے سید بادشاہ کے قاصد کو بڑی نخوت و حقارت سے دُھتکار دیاتھا۔ اُس نے سید بادشاہ کو محض ایک درویش اور بے مایہ فقیر سمجھا تھا، لیکن اب سرحد سے آنے والی خبریں کہہ رہی تھیں کہ وہ بے مایہ درویش اور فقیر شمالی ہند کی سب سے بڑی قوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہو گیا ہے۔ گھوڑے دوڑنے لگے، لاہور سے سردار بُدھ سنگھ کے کیمپ اور پشاور میں خُفیہ پیغامات آنے جانے لگے۔

سردار یار محمد اور اُس کے بھائی سید بادشاہ کو امام تسلیم کر چکے تھے، لیکن اطاعت کا وہ جذبہ دل و دماغ کی ایک وقتی رَو ثابت ہوا تھا۔ سید بادشاہ سے سردار یار محمد کی پہلی ملاقات کابل میں ہوئی تھی، وہ سید بادشاہ اور ان کے ساتھیوں کی زندگیوں سے جو خلوص و للٰہیت اور قوت ایمانی سے عبارت تھیں مڑا متاثر ہوا تھا؛ تاہم وہ جس مقصد کو لے کر آئے تھے۔، وہ اُس کے نزدیک ایک خوش خیالی سے زیادہ اہمیت نہ رکھتا تھا۔ سکھوں کے آگے آزاد اور نبرد آزما پٹھانوں کی طاقت بے دَم ہو کر رہ گئی تھی، یہ فقیر اور اُس کے ساتھی اُن کا کیا بگاڑ سکتے تھے؟ پھر ایک اجنبی سرزمین میں اس مرد درویش کے لئے قدم جمانا سکھوں کو شکست دینے سے زیادہ مشکل تھا۔

سردار یار محمد اپنی قوم کے مزاج سے گہری واقفیت رکھتا تھا کہ اس کا ہر فرد اور قبیلہ خود تھا۔ اپنے قبیلے سے باہر کِسی کے آگے سرِ اطاعت خم کرنے کا تو وہ تصور ہی نہ کرسکتا تھا۔ دینی شخصیتوں سے ان کی عقیدت کے جذبے بلاشبہ فراواں تھے، لیکنم یہ جذبے مادی مفادات کے ساتھ تصادم میں نہ ٹِک سکتے تھے۔ اُس کے خیال میں جذبات کہ یہ ہنگامی رَو تھی جو پورے علاقے میں موج زن ہو گئی تھی۔ دانشمندی اور سیاست کاری کا تقاضا تھا کہ وہ اس رَو سے الگ نہ رہے بلکہ اس کے ساتھ ہو کر حالات کو ایسے رُخ پر موڑدے جس میں اُس کے خاندانی مفادات کی آبیاری ہوسکے۔ سرحد کے بعض خوانین ابھی تک اُس کی خاندانی سطوت کے آگے نہ جُھکے تھے، سید بادشاہ کی رفاقت میں انھیں زیرِ دام لانے کا عمدہ موقع ہاتھ آ سکتا تھا۔ اسی عمدہ موقع کو اُچکنے کے لئے اُس نے اپنے بھائیوں سمیت سید بادشاہ کا دام امامت تھام لیا تھا۔ لیکن سید بادشاہ اور اُن کی جماعت کو قریب سے دیکھا تو یہاں اور ہی منظر تھا۔

سید بادشاہ کا مقام جماعت میں محض پیرِ طریقت کا نہ تھا، بلکہ وہ اُس کے حاکم اور مُطاع تھے۔اجتماعی زندگی میں ان کے رہنما تھے، سیاسی و تہذیبی زندگی پر چھائی ہوئی مایوسی کی تاریکیوں میں صُبحِ امید کی کرن تھے۔ وہ حالات کو جس رُخ پر موڑنے کا خواہش مند تھا یہاں اُسے کوئی موقع نہ مِل سکتا تھا۔ چُناچہ سید بادشاہ اور اُن کی جماعت میں اُس کے لئے کوئی کشش نہ رہی۔

مفادات کی آگ دل میں شعلہ زن ہو تو آدمی خلوص و صدق شعاری سے ہی محروم نہیں ہو جاتا، اخلاقی جرات اور غیرت ایمانی بھی دل سے جاتی رہتی ہے۔ آنکھیں پَٹ ہو جاتی ہیں، کُچھ نظر نہیں آتا کہ وہ کیا قدم اٹھا رہا ہے اور اُس کے عواقب کیا ہوں گے۔ ایسے عالم میں اپنے بیگانے اور بیگانے اپنے ہوجاتے ہیں۔، وہ ان کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتا ہے اور اُن کے عزائم کی آبیاری کرنے میں ذرا سی  شرمساری محسوس نہیں کرتا ۔ اُس کا یہ طرز عمل دینی اور دنیاوی نقطہ نظر سے اُس  کے لئے کس قدر تباہ کُن ہوگا، اِس کی اُسے پروا نہیں ہوتی۔

سردار یار محمد ایک ایسی ہی نفسیاتی کیفیت سے دوچار ہو چکا تھا۔ ۔ دربارِ لاہور کے ایما پر سردار بُدھ سنگھ کے خُفیہ پیغامات آئے تو اپنا کام کر گئے۔ ان پیغامات میں اُسے لالچ بھی دیا گیا تھا اور دھمکی بھی۔  لالچ اس بات کا کہ سید بادشاہ سے الگ تھلگ رہو گے تو تُم سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا، تمھارے علاقے تمھارے قبضے میں ہی رہیں گے  اور دھمکی یہ کہ سید کا ساتھ دیا تو تمھارا ایسا حشر کیا جائے گا کہ تمھاری نسلیں یاد رکھیں گی۔ ( رچرڈ آرمیٹیج کی دھمکی بھی اسی طرح کی تھی۔۔ مُنیر

سردار بُدھ سنگھ کے لشکر پر حملہ کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ تقریبا 80 ہزار کا لشکر جلو میں لئے سید بادشاہ ہُنڈ سے نوشہرہ اور وہاں سے شیدو کی طرف بڑھے جہاں سردار بُدھ سنگھ مقیم تھا۔ سردار یار محمد کی 20 ہزار فوج اور توپ خانہ ان کے علاوہ تھا۔  اکوڑہ (خٹک) سے کوس ڈیڑھ کوس اِدھر پہنچ کر لشکر نے پڑاؤ ڈالا۔

سید بادشاہ کا کھانا سردار یار محمد کے مطبخ سے جاتا تھا۔ اُس رات سید بادشاہ نے کھانا کھایا تواُن کی طبیعت بگڑ گئی۔ پھر گژی طاری ہونے لگی۔، کبھی افاقہ ہوجاتا اور کبھی بے ہوش ہو جاتے، بھیگتی ہوئی رات کے ساتھ تکلیف بڑھتی چلی گئی۔ پھر قے شروع ہو گئی۔

زہر دینے کی علامات صاف ہُویدا تھیں۔

پہلی غداری ۔ آباد شاہ پوری کی کتاب سید بادشاہ کا قافلہ سے ایک اقتباس۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں