Skip to content

کالے آلتھے کاگان

syed

“ہزارہ کے ناصر خان پر کچھ ایسی ہی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔ وہ فیروز خان کے دوش بدوش سُرخ و سیاہ قبا میں لپٹی ہوئی عروسِ شام کے سحر طراز نظارے میں مستغرق جا رہا تھا۔ چلتے چلتے اُس نے دائیں کان پر ہاتھ رکھا اور ہانک لگائی”:۔

کالے آلتھے کاگان

سیداں چا کتے قرآن

کالے آلتھے کاگان

“سوز و گداز سے معمور دل کش و مترنم آواز فضا میں اُبھری تو یوں محسوس ہوا کہ دِن کی ڈُوبتی ہوئی نبضیں سنبھل گئی ہیں۔ مجاہدین جو اپنے خیالات میں کھوئے منزل کی دُھن میں چلے جا رہے تھے، چونک اٹھے۔ ایک لمحے کے لئے ان سب کی نظریں گانے والے  پر مرکوز ہو گئیں، مگر ناصر خان ان نگاہوں سے بے نیاز بلند آہنگی سے گاتا رہا”۔

کالے کُوڑے راہ تو پُھلے

سچے دین تے جُلے

کالے ۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کالے آلتھے بیچ کسیاں

اُنہاں سیداں جاگاں دسیاں

کالے آلتھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کالے کُوڑے راہ تو پُھلے

سچے دین تے جُلے

کالے آلتھے کاگان!۔

یعنی کالی فوج کے سپاہی کاغان میں اُترے۔ سیدوں نے قرآن پر حلف اُٹھا کر اُن سے عہد کیا کہ وہ ان کی حفاظت کریں گے۔ وہ، مجاہد، باطل راستہ چھوڑ کر سچے دین کی راہ اختیار کر چکے تھے۔ کالی فوج کے سپاہی وادیوں میں اُترے جہاں سے کوئی ان کا سُراغ نہ لگا سکتا تھا۔ کاغان کے سیدوں نے ان کی پناہ گاہیں انگریشوں کو بتا دیں۔ کالے غلط راستہ ترک کر کے دین کا سچا راستہ اختیار کر چکے تھے۔

ناصر خان ہر بند کے بعد “کالے آلتھے”  کی لمبی تان اُڑاتا تو اُس کی صدائے بازگشت دیر تک پہاڑوں میں گونجتی رہتی۔ اُس نے جیسے پُرانے ذخم پھر تازہ کر دیے تھے۔ مجاہدین کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ پچھلے پینتیس چھتیس برسوں میں خود انھیں ایسے کتنے ہی ذخم لگ چکے تھے، مگر گیت اُن کی نہیں، سچ کا راستہ اپنانے والے کچھ اور سرفروشوں کی رُوداد الم سُنا رہا تھا۔

یہ جانباز 55 پیادہ فوج (نیٹو انفنٹری) کے سپاہی تھے، جس کے دستے مردان اور نوشہرہ چھاؤنی میں متعین تھے۔ پشاور میں انہترویں اور دسویں دیسی فوج اور ریگولر رسالہ تھا۔ ان سب میں مجاہدین کے اثرات تھے اور ہر جگہ مجاہدین کے خفیہ حلقے وجود میں آ چکے تھے۔ جن کا تحریک کے سرحدی مرکز سے با ضابطہ رابطہ قائم تھا۔ 11 مئی 1857 کو میرٹھ کی دیسی افواج میں آزادی کا شعلہ بھڑکا تو سرحد میں نوشہرہ کی رجمنٹ سب سے پہلے متاثر ہوئی اور 21 مئی کو اُس نے علم بغاوت بلند کر دیا۔ آدھی رات کو یہ خبر پشاور پہنچی۔ انگریز افسروں نے فوری اقدامات کئے اور صبح ہوتے ہی تمام دیسی افواج سے ہتھیار لے لئے۔ اندیشہ تھا مردان خبر پہنچے گی تو 55 پیادہ ساری کی ساری باغی ہو جائے گی۔ 23 مئی کی شب کرنل چیوٹ کی کمان میں فوج مردان روانہ ہوئی۔ وہاں نوشہرہ کی خبر نے پہلے ہی آگ لگا رکھی تھی، جونہی معلوم ہوا پشاور سے فوج آ رہی ہے وہ مقابلے پر تُل گئے۔ گھمسان کی جنگ کے بعد 55 نے شکست کھائی۔ اس کے ایک سو بیس جوان مارے گئے اور ڈیڑھ سو کے قریب زخمی ہوگئے۔ جو بچ رہے انھوں نے آزاد علاقے کی راہ لی۔

یہ لوگ سیدھے سوات پہنچے۔ اُن کا خیال تھا وہاں سے کُمک لے کر انگریزوں پر یورش کریں گے۔ لیکن یہاں تقدیر کا قاضی اپنا فیصلہ صآدر کر چکا تھا۔ مجاہدین کے حلیف، سوات کے بادشاہ سید اکبر شاہ عین اُس روز انتقال کر گئے جس روز میرٹھ میں آزادی کی جنگ چھڑی۔ اُن کے جانشین کا مسئلہ ابھی طَے نہ ہوا تھا۔ سوات کی سب سے طاقت ور شخصیت اخوند صاحب مُلا عبدالغفور صاحب کی تھی اور ریاست کا انتظام اُنھی کے ہاتھوں میں تھا۔ آزادی کی جد و جہد سے انھیں کوئی دل چسپی نہ تھی، چنانچہ حُریت پسندوں کو ریاست کی حدود سے باہر دریائے سندھ کے  پار دھکیل دیا گیا۔ یہاں سے اُن لوگوں نے کشمیر کا رُخ کیا۔ گرد و نواح کے زمیندار اور ملک ، ضلع ہزارہ کے ڈپٹی کمشنر میجر بیچر کے بچھائے ہوئے دامِ حرص و آز میں آ چکے تھے۔ اُنھوں نے اِن غریب الوطنوں کو قدم قدم پر نقصان پہنچایا۔۔ ان کے پاس کچھ بھی تو نہ تھا۔  فاقہ کشی، بے رحم موسم اور اجنبی سرزمین ۔ انگریز کے پٹھو سرداروں کے ہاتھوں بہت سے راستے میں ہی ختم ہو گئے اور بچ جانے والے ہولناک مصائب جھیلتے اور صعوبتیں اٹھاتے کاغان پہنچے۔ یہاں کاغانی سادات نے اُن سے یہ وعدہ کر کے ہتھیار رکھوا لئے کہ وہ حفاظت کریں گے۔ لیکن وہ حلف دے کر پِھر گئے اور ان مظلوموں کو انگریزوں کے حوالے کر دیا۔  انگریزوں نے ان کی بھاری تعداد اک پہاری نالے پر بے دردی سے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کر ڈالی۔  نالے کا نام اُسی وقت سے” شہید کٹہ ” پڑ گیا۔ تین سو کے قریب گرفتار ہوئے اور اُنھیں ہری پور میں گولیوں سے اُڑا دیا گیا۔۔ کاغانی سادات کی عہد شکنی اور غداری سے اُن کے خلاف ہر طرف نفرت کی لہر دوڑ گئی اور یہ المیہ داستان رزمیہ کہانیوں اور لوک گیتوں کے رُوپ میں حُجروں، پہاڑوں اور میدانوں میں گونجنے لگی۔

“شام رنگیں پر رات کے چھاتے ہوئے ملگجے اندھیرے سے متاثر ہو کر ناصر خان کی زبان پر یہی داستان الم آ گئی تھی۔ وہ اس دل گداز تاثر میں کھویا گیت الاپ رہا تھا اور اُسے کچھ خبر نہ تھی کہ اُس کے ساتھی فیروز خان پر کیا رد عمل ہوا ہے ۔۔ اور واقعی یہ رد عمل عجیب تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس کا سُرخ و سپید رنگ پیلا پڑگیا اور دل بُری طرح سینے میں دھڑکنے لگا۔ وہ چلتے چلتے لڑکھڑا گیا۔

“عِشاء کے قریب یہ لوگ ملکا پہنچے۔ فیروز خان ساری رات بے قراری کے عالم میں جاگتا رہا۔ خلاف معمول تہجد کے لئے بھی نہ اُٹھا۔ اُس کے دل میں زبردست کش مکش برپا تھی۔ اُسے باپ نے لکھا تھا، ” خاندان کی عزت اور آن کا معاملہ آن پڑا ہے، ملکا جاؤ، وہاں اخوندزادہ عبداللہ رہتا ہے۔ اس کی مسجد میں جا کر ٹھہرو اور کھوج لگاؤ، اُسے آدمی اور روپیہ کہاں سے مل رہے ہیں۔ جب تک ساری معلومات حاصل نہ کر لو، واپس نہ آؤ”۔

اتنا طویل اقتباس میں نے آباد شاہ پوری کی کتاب سید بادشاہ کا قافلہ سے لیا ہے۔ یہی سطور آپ اس کتاب کے صفحہ تمبر 224 سے 227 تک پڑھ سکتے ہیں۔ اس اقتباس کو نقل کرنے کا ایک مقصد تھا، مگر اب یہ تحریر کافی طویل ہو چکی ہے۔ لہٰذا باقی تحریر اگلے مضمون میں۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں