Skip to content

طوفان پھٹ پڑا

گزشتہ سے پیوستہ

اور پھر ہندوستان سے سید بادشاہ اور قافلہ حق کے جان سپاروں کے خلاف کُفر اور گمراہی کے فتوے دُرانی سرداروں کے پاس پہنچنے لگے جن پر قبر پرست مولویوں اور دُنیا پرست مشائخ کی مہریں لگی ہوتیں۔

اس سلسلے میں کئی علما ء کا ایک مشترکہ محضر نامہ بھی اُنھیں پہنچا جس میں ان مردان حق کو قتل کردینے اور اپنے علاقے سے نکال دینے کا فتویٰ دیا گیا تھا۔ سردار سُلطان محمد خان نے سید صاحب سے مُلاقات کے وقت یہ محضر نامہ ان کی خدمت میں پیش بھی کیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ اُس نے باغیانہ رویہ اسی محضر کی بنیاد پر اختیار کیا تھا۔ محضر نامے کے مرتبین نے سید صاحب کو وہابی اور بد عقیدہ قرار دیا تھا اور جہاد فی سبیل اللہ کو مکرو فریب۔ مزید یہ کہ اُن پر ایک نیا مذہب نکالنے کی تہمت لگائی تھی اور کہا تھا کہ تُم ان کے وعظ و نصیحت کے دام میں نہ آنا، اُنھیں تباہ کردو او ر اپنے ملک میں نہ ٹکِنے دو۔سید صاحب نے محضر نامہ پڑھ کر فرمایا کہ یہ لوگ قبر پرستی اور پیر پرستی ہی کو اپنا دین و آئین جانتے ہیں ، حلال و حرام میں امتیاز نہیں رکھتے اور یہی اُن کا ذریعہ ء معاش ہے۔  ہمارے وعظ و نصائح سے وہاں (غالبا ہندوستان مراد ہے- مُنیر) اللہ تعالیٰ نے لاکھوں لوگوں کو ہدایت نصیب کی۔ و ہ پکے مؤحد اور متبع سنت ہوگئے؛ چنانچہ ان دُنیادار عالموں اور پیروں کا کاروبار سرد ہو گیا اور آمدنی مندی پڑ گئی تو رشک وحسد نےاُنھیں ہم پر اتہام باندھنے پر آمادہ کیا۔

محضر کی زبان اور انداز صاف ظاہر کرتا تھا کہ یہ سکھوں نے تیار کروایا ہے۔

——-

سلطان محمد خان نے توبہ اور تجدید بیعت کا ڈھونگ مہلت حاصل کرنے کے لئے رچایا تھا۔  کُھلی دشمنی میں نفاق ناکام ہو چکا تھا اور اُس کی سب سے بڑی طاقت (دُرانی ریاست) حق و اخلاص کے مقابلے میں شکست کھا چکی تھی۔ اب وہ وسیع پیمانے پر سازش کر کے اسلام کی قوت کو موت کے گھاٹ اتارنا چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لئے اُکھڑے ہوئے قدم جمانے اور ہاتھ سے نکلی ہوئی ریاست بحال کرانے کی ضرورت تھی۔  سید صآحب نے سُلطان محمد خان کی توبہ کو اپنی خطا کاریوں پر نادمٍ و پشیمان مسلمان کی توبہ سمجھ کر  قبول فرما لیا تھا ۔ آتش انتقام میں شعلہ زن نفاق کی روح جو وقت چاہتی تھی وہ اُسے مل گیا تھا؛ چنانچہ اب متحرک ہو چکی تھی اور اُس کے ساتھ ہی وہ تمام عناصر حرکت میں آ گئے تھے جن کی جاہلی عصبیتوں اور دنیاپرستانہ مفادات پر شرعی قوانین کی  ضرب پڑی تھی اور دل ہی دل میں بُری طرح کَھول رہے تھے، مگر اسلامی حکومت کی بڑھتی ہوئی قوت کے آگےاپنے آپ کو بے بس  پاتے اور خون کا گھونٹ پی کر رہ جاتے تھے۔ پروپیگنڈے کا سب سے مہلک ہتھیار گَور پرست ملانوں اور بندگانِ دنیا پِیروں کے فتوے تھے ٍجو بڑی رازداری سے قبائل میں پھیلائے جا رہے تھے۔

عام پٹھان روزے اور دینی جذبات کی حد تک بہت اچھے مسلمان تھے۔ سید بادشاہ کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ اُن کی خاصی بڑی تعداد اپنے خوانین کے معاندانہ رویے کے باوجود ، تحریک جہاد سے قلبی وابستگی رکھتی تھی کہ اُس نے سکھوں کی وحشی طاقت کو پہلی بار کامیابی کے ساتھ چیلنج کیا تھا، اُن کی دہشت گردی  سے جنم لینے والی سطوت  کا طلسم توڑا تھا۔ اور اُنھیں اُن (سکھوں )کے مقابلے میں سر اُٹھا کر چلنا سکھایا تھا۔ ۔ یہ جذباتی تعلق اتنا گہرا تھا کہ اس کو کاٹے بغیر نفاق کی کامیابی ممکن نہ تھی۔  مجاہدین فتح سے ہمکنار ہوتے تو اُن کے اندر خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ اور اُنھیں زک پہنچتی تو وہ اُس کا کرب محسوس کرتے۔ مُلانوں کے فتووں نے اُنھیں  تحریک اور سید بادشاہ سے برگشتہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ بد قسمتی سے نہ اُن کے اندر حقیقی دینی شعور تھا اور نہ وہ سیاسی آگہی سے بہرہ ور تھے۔ مولویوں کی زبان سے جب اُن پر  “منکشف ” ہوا کہ سید بادشاہ اور ان کے ساتھی بد عقیدہ اور نئے دین و مذہب کے پیرو کار ہیں تو وہ سناٹے میں آگئے۔  دین کے معاملے میں وہ عُلماء پر کامل اعتماد رکھتے تھے۔ وہ اگر سیاہ کو سفید کہتے اور سفید کو سیاہ تو سرِ تسلیم خم کر دیتے۔ وہ یہ تصور کر ہی نہ سکتے تھے کہ مقدسین کا یہ طائفہ جُھوٹ بھی بول سکتا ہے۔ مذہب کے نام پر دھوکا دے سکتا ہے، افترا ء باندھ سکتا ہے اور اللہ اور اُس کے رسولؐ پر ایمان اور تقویٰ و احسان کے اعلیٰ مدارج  پر فائز مجاہدین فی سبیل اللہ کو کافر اور گمراہ قرار دے سکتا ہے۔

سید صاحب اور ساتھیوں کے جو مثالی پیکر عام آبادی کی محبت و احترام کا مرکز تھے، اس جھوٹے پروپگنڈے نے اُن پر سیاہی پھیر دی۔  پہلے اُس  (عام آبادی – مُنیر )کے اندر بیزاری پیدا ہوئی، جس نے رفتہ رفتہ نفرت کی صورت اختیا رکر لی اور آخر کار یہ نفرت اشتعال میں بدل گئی۔ ایک خاصی بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی تھی جس نے مسلسل جھوٹے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کر لیا۔ اور حالت یہ ہو گئی کہ ہربستی میں گنے چُنے لوگ تحریک کے ساتھ باقی رہ گئے۔  یہ بھی زیادہ تر وہ  باشعور اور متقی دیندار عُلماء حق پرست سادات اور خدا ترس امام مسجد اور اُن طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد تھے جو جاگیرداری  اور قبائلی نظام میں سیاسی اور معاشرتی طور پر اثر و رسوخ سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔

عام آبادی میں برگشتگی کی رَو جیسے تُند و تیز ہوتی چلی گئی۔ سطح کے نیچے ہی نیچے پلنے والا طُوفان شدت اختیار کر گیا۔

اور پھر ایک روزیہ, طوفان پھٹ پڑا۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں