Skip to content

اسلام کے نام پر انتخابی سیاست

جب سید احمد شہید نے سمہ کے علاقے میں پہلی اسلامی ریاست قائم کی تو اس وقت اس علاقے میں کئی گروہ متحرک تھے۔ ایک تو ہندوستانیوں اور دوسرے غیر پشتونوں کا تھا جو سید شہید کے ساتھ یہاں ہجرت کر کے آئے۔ دوسرے ان کے حامی یا زیر نگین مقامی پٹھان تھے ، تیسرے سکھ تھے اور چوتھا گروپ پشاور کے درانی خان اور ان کے حمایتی۔درانیوں نے سید کو زہر دینے کی کوشش کی، قاتلانہ حملے ہوئے، لیکن یہ سیاسی کشمکش کا حصہ تھے۔ سکھوں کے ساتھ طاقت کی گیم تھی، ظالم حکمران تھے سکھ، رعایا تنگ تھی۔ سید شہید کے خلاف سمہ کے علاقے میں جب بغاوت ہوئی تو وہ مسلمان پٹھانوں نے کی۔ سید کے ساتھی جہاں جہاں مقیم تھے وہاں مارے گئے۔ کچھ وضو کرتے ہوئے، کچھ استنجا کرتے ہوئے، کچھ غسل کرتے ہوئے، کچھ کو امام بنا کر دوران نماز پیچھے سے وار کر کے ختم کیاگیا۔ کچھ کو جانوروں کے باڑوں میں سے نکال کر مارا گیا۔ پنجتار کی بغاوت کے نام سے اس تاریخی واقعے میں اس خطے میں قائم پہلی اسلامی سلطنت کا خاتمہ اس کی اپنی رعایا کے ہاتھوں ہوا۔ وجہ؟ یہ رعایا سید شہید کی طرف سے اسلامی احکامات کی پابندی سے نالاں تھی۔ اور احکامات بھی وہ جو اس رعایا کے رسوم و رواج کے خلاف تھے، مثلا بیواؤں کی شادی۔

سید نے اس واقعے کے بعد کشمیر جانے کی ٹھانی، ہری پور کے مقامی حکمرانوں سے لڑائی، نواب امب کی طرف سے انگریزوں کی طرف داری وغیرہ کے بعد بالآخر وہ بالاکوٹ میں شہید ہو گئے۔ کتنی حیرانی کی بات ہے کہ وہ قوم، خطہ، افراد جو بظاہر اپنی اسلام پسندی کی وجہ سے معروف ہیں، اپنے حکمران کے خلاف اس لئے بغاوت کردیں کہ اس کے احکامات، بے شک اسلامی ہوں، مگر اس کے رواج کے خلاف ہوں۔ یہ واقعہ اس نظریے کو تقویت پہنچاتا ہے کہ اس خطے کے عوام محض زبانی اسلام اسلام کرتے ہیں، اور جب اسلامی نظام کے عملی نفاذ کا وقت آتا ہے تو دور ہوجاتے ہیں۔

اگر آپ اسلام کے نام پرانتخابی سیاست کرکے یہ گمان کرتے ہیں کہ آپ کے ووٹر آپ کو ووٹ دے کر آپ کو اپنی زندگی عذاب بنانے کی اجازت بخوشی دیں گے تو بخدا یہ آپ کی بھول ہے۔ آپ ان حالات میں کبھی بھی کامیاب نہ ہو سکیں گے۔ انقلاب لانا ہے تو خود کو بدلیں۔ اپنی زندگی اپنی دی گئی دعوت کے مطابق ڈھالیں، لوگوں کو اسم با مسمی بن کر دکھائیں۔ لپ سروس سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
جب لوگ آپ کو ، آپ کے رفقاء کو آپ لوگوں کے دیئے گئے پیغام کے مطابق زندگی گزار تا اور کامیاب ہوتا دیکھیں گے تو وہ خود بدلیں گے، آپ کی دعوت تک خودآئیں گے۔ چاروں ہاتھوں پیروں کے بل، جسم گھسیٹ کر، بھاگ کر، چل کر، لوٹیں لگا کر، سوار ہو کر، حتی کہ اگر ممکن ہوا تو اڑ کر بھی آئیں گے کہ کوئی انسان گھاٹے کا سودا پسند نہیں کرتا۔ لیکن اگر آپ باتوں کے شیر ہیں اور آپ کے قول اور عمل میں تضاد ہے تو یقین جانئے تا عمر آپ اس الجھن میں مبتلا رہیں گے کہ ہمارا پیغام حقانیت کی حقیقت سے بھرپور ہونے کے باوجود کیوں پاپولر نہیں ہو رہا۔

ایک تو یہ بات ہوگئی کہ اگر آپ نے اپنا پیغام پہنچانا ہے لوگوں کو تو اس کو پریکٹیکل بنا کر دکھانا ہوگا، لوگوں کو عملی مثال چاہئے۔ تقریر تو کوئی بھی کر لے۔ ننھا پروفیسر ہی دیکھ لیں بڑے بڑے میڈیکل پروفیسروں سے زیادہ پر اعتمادانداز پر لیکچر دیتا ہے۔ لیکن کیا ننھا پروفیسر قابل تقلید بھی ہے؟؟؟ دوسری بات یہ کہ اس خطے کے عوام جب بھی انتخابات میں موقع ملا، ہمیشہ غیر مذہبی طاقتوں کو ووٹ دے کر جتوایا۔ سوائے ۲۰۰۲ کے جب ایم ایم اے کو صوبہ دے دیا گیا تھا۔وجہ چاہے کچھ بھی ہو، عوام کی مرضی ہو یا کسی اور کی۔ اس کے علاوہ عوام نے ہمیشہ فری اینڈ فئیر الیکشنز میں غیر مذہبی سیاسی جماعتوں پر اعتماد کا اظہار کر کے ان کو جتوایا ہے۔
مذہبی جماعتوں کے کینڈییڈیٹس کےحاصل کردہ ووٹوں کی تعداد اور شرح انٹرنیٹ پر کسی کو بھی مل جائے گی۔ مسلم اکثریتی ملک ہوتے ہوئے بھی اگر انتخابات میں، سب کچھ جانتے ہوئے بھی اگر لوگ آپ کو مسترد کر رہے ہیں تو کبھی آپ مذہبی سیاسی کارکنوں نے لوگوں کی جاہلیت اور کم عقلی پر نفریں بھیجنے کے علاوہ سوچا بھی کہ وجہ کیا ہے کہ وہ آپ کو مسترد کر رہے ہیں؟ جتنے ماہریں اس پہ غور کریں گے اتنی ہی آراء سامنے آئیں گی، مگر میرا خیال یہ ہے کہ اس خطے کے منافق عوام مذہب کے نام پر سب کچھ کر لیں گے مگر مذہبی حکمرانی برداشت نہ کریں گے۔کیونکہ رواج مذہب پہ مقدم ہے۔
گاؤں کی مسجد کے امام کی عزت سب استاد جی کہہ کر کرتے ہیں مسئلے بھی پوچھیں گے اس سے، خدمت بھی کریں گے مگر روز مرہ کے فیصلوں، سیاسی فیصلوں اور طاقت و اختیار کے استعمال کی بات جب آئے گی تو وہ گاؤں کی مسجد کے امام کو اس کی اوقات دکھا دیں گے۔
یہی ہوتا چلا آیا ہے، یہی ہو رہا ہے، اور ہوتا رہے گا۔

اسلام کے نام پراس ملک میں کی جانے والی کاوشوں پر ایک اجمالی تبصرہ، تفصیلی تو شائد قلت وقت کے سبب ممکن نہ ہوسکے، ان شاء اللہ بشرط زندگی اگلی تحریر میں پیش کیا جائے گا

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں