Skip to content

زمین کا نمک

یہی ایک بے تدبیری نہ تھی جو ان نازک ترین لمحات میں تحریک کے رہنماؤں سے سرزد ہوئی۔ ضروری تھا کہ مولوی مظہر علی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی خبر پنجتار میں پھیلنے نہ پاتی اور عام باشندوں کو شہر سے باہر نہ جانے دیا جاتا۔ جن دماغوں نے مجاہدین کو قتل کرنے کی سازش کا وسیع اور مؤثر منصوبہ بنایا تھا، اُنھوں نے اپنے آدمی پنجتار میں بھی بٹھا رکھے تھے، تاکہ مرکزی حُکام کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور ان کی اطلاع سازشیوں کو دیتے رہیں۔ ۔ مجلس شوریٰ کو رازداری کا مکمل اہتمام برتنا چاہئے تھا۔ اِس کے فیصلے کی خبر عام نہیں پھیلنی چاہئے تھی۔ غیر پنجتاری باشندوں کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھنا ارو مشتبہ افراد پر شہر سے باہر جانے کی پابندی لگانا بھی لازمی تھا؛ تا کہ اس فیصلے کی خبر اگر مقامی وطور پر پھیل بھی جاتی تو شہر سے باہر سفر نہ کرنے پاتی۔ بالکل آخری وقت پر کیے جانے والے اس فیصلے پر کامیابی سے عمل مکمل رازداری ہی سے کیا جا سکتا تھا۔ مگر یہاں ان دونوں باتوں کو پس پشت ڈال دیا گیا۔
پشاور کے حادثے اور رات کے فیصلے کی خبر صبح ہوتے ہوتے پنجتا رمیں پھیل چُکی تھی۔ گڑھی امان زئی کے رہنےو الے ایک شخص نصراللہ خان کو پنجتار میں سازشیوں نے اسی مقصد کے لیے متعین کر رکھا تھا؛ جُونہی سید اسماعیل روانہ ہوئے وہ بھی اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر چل کھڑا ہوا اور بستی بستی منافقین کے سرغنوں کو اطلاع دیتا چلا گیا کہ سازش کی خبر پنجتار میں ہو چکی ہے ، جو کام پرسوں کرنا ہے اُسے آج ہی کر ڈالو۔ ورنہ غازی تمھارے ہاتھ سے بچ کر نکل جائیں گے۔
ایک ایک غلطی اور بے تدبیری حالات کے دھارے کو مشیت الٰہی سے قریب ترکرتی چلی جا رہی تھی۔ آخری فاصلہ غازیوں کے تساہل اور غفلت نے پورا کردیا۔ سید اسماعیل نے شیوہ اور یاروسین (موجودہ یار حسین نامی گاؤں یا قصبہ۔ مُنیر) پیغام پہنچا یا۔ رسالدار حمزہ علی نے جو سوار مختلف دیہات میں بھیجے اُن کے ذریعے سے صرف پنجتار جلد سے جلد پہنچ جانے کا پیغام بھجوایا۔ سمہ (مردان ، چارسدہ صوابی اور پشاور کی وادی کے کچھ علاقوں پر مشتمل علاقے کو سمہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ زمین ایک میدان ہے اورزرخیز بھی ہے۔ مُنیر )میں پیدا ہونے والی نازک صورت حال کی طرف اشارہ تک نہ کیا۔ نتیجہ یہ کہ غازیوں کو سنگین صورت حال کا احساس تک نہ ہوا کہ وہ احکام ملتے ہی روانہ ہو جاتے۔ اکثر یہی سمجھے کہ پشاور کی مہم درپیش ہے اس لیے انھیں طلب کیا جا رہا ہے۔
اُنھوں نے اپنی سہولت کے مطابق روانگی کا فیصلہ کیا۔ کسی نے کہا، ہم یہاں سے شام کو روانہ ہوں گے۔ کسی بستی کے غازیوں نے آدھی رات یا صبح پچھلے پہر کا وقت مقرر کیا ۔بستی والوں کے ساتھ بظاہر اُن کے گہرے دوستانہ تعلقات تھے؛ چنانچہ وہ اپنے دوستوں اور شناساوں سے وداعی مالاقاتیں کرنے لگے۔ ان ملاقاتوں میں دیہاتیوں کو بھی پتہ چل گیا کہ غازی کس وقت کُوچ کریں گے۔ غازیوں کے اس تساہل اور غفلت اور فاش غلطی نے جو اُن سے بے خبری کے عالم میں سرزد ہوئی تھی۔ اُن کی اپنی ہی نہیں بلکہ سرحد کی اسلامی ریاست کی قسمت پر مُہر ثبت کردی۔

تپہ امان زئی (علاقہ امان زئی) کے ناظم حاجی بہادر شاہ خان سید صاحب کی خدمت میں حاضری دے کر گڑھی امان زئی کے لئے روانہ ہوئے تو بظاہر فضا بالکل صاف تھی اور اضطرا ب اور خوف کی کہیں بھی کوئی لہر نہ تھی۔ زندگی معمول کے مطابق جاری تھی۔ وہ غورغشتی اور شیوہ میں ٹھہرتے ہوئے کالو خان پہنچے اور وہاں سے اسماعیلیہ (موجودہ نام اسماعیلہ۔ مُنیر)۔ ہر جگہ لوگ عقیدت سے پیش آئے۔ وہ صاحب احسان بزرگ تھے اور سید صاحب نے اُنھیں لوگوں کی تربیت اور تزکیہءنفس کا کام بھی سونپ رکھا تھا۔ اِس کوُچے کے راہ نورد اُن سے توجہ لیا کرتے؛ چُنانچہ انھیں عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھتے۔ اسماعیلیہ (اسماعیلہ) وہ تقریبا عصر کے وقت پہنچے تھے۔ دو روز پہلے پشاور میں مولوی مظہر علی اور ان کے ساتھیوں کا حاثہ شہادت پیش آ چکا تھا۔ رات سید صاحب نے شوریٰ کا اجلاس طلب کر کے ساتھیوں کو پنجتار بلانے کا فیصلہ کیا تھا اور صُبح سید اسماعیل رائے بریلوی احکام لے کر شیوہ روانہ ہو چکے تھے او ر اُن کے پیچھے پیچھے غدار نصراللہ خان ساتھیوں کو ہوشیار ، خبردار کہنے اور فوری وار کرنے کا مشورہ دینے نکل کھڑا ہوا تھا۔ وہ دوپہر سے کُچھ پہلے پیغام دے کر آگے نکل گیا تھا۔ چونکہ یہاں (اسماعیلہ میں) کوئی غازی متعین نہ تھا اس لئے حاجی بہادر شاہ خان اُمڈنے والے طوفان سے بے خبر ہی رہے۔ اسماعیلیہ (اسماعیلہ) والوں نے حسب سابق اُن کی بڑی تعظیم و تکریم کی۔ وہ تو اُسی روز آگے روانہ ہو جانا چاہتے تھے۔لیکن اُنھوں (اسماعیلہ والوں نے) بہت اصرار سے اُنھیں ایک رات کے لئے ٹھہرا لیا۔ بے حد خاطر تواضع کی، پُر تکلف کھانا کھلایا اور عشاء کی نماز میں امام بنایا۔ پہلی رکعت کا سجدہ کر کے دوسرے میں گئے ، زبان پر رب بزرگ و برتر کی تسبیح جاری تھی کہ بستی کے خان ، اسماعیل خان نے تلوار ماری اور سر تن سے جُدا کردیا۔ اُن کی پاکیزہ روح اپنے پالنہار کے ذکر میں ڈوبی اعلیٰ علیین تک پہنچ گئی۔ اُن کےپاک لہو سے مسجد کا فرش یوں سُرخ ہو گیا جیسے کسی نے سُرخ بانات کی چادر بچھا دی ہو۔
حاجی صاحب کو شہید کرتے ہی اسماعلیہ (اسماعیلہ) میں نقارہ بجا۔ اِدھر یہاں نقارے پر چوٹ پڑی، اُدھر گاؤں گاؤں بستی بستی میں نقارے بجنے لگے۔نزد و دور سے یکے بعد دیگرے بلند ہوتی ہوئی نقاروں کی آوازیں رات کو پُر ہول بنائے دے رہی تھیں، یہ اس امر کا اعلان تھا کہ جو کچھ فیصلہ ہوچکا ہے اُس پر عمل پیرا ہونے کا وقت آ چکا ہے۔ زیادہ تر مجاہدین کچھ سمجھ نہ پائے کہ نقارے اچانک کیوں پھٹ پڑے ہیں۔ بعض مقامات پر کُچھ غازیوں کا ماتھا ٹھنکاٍ۔ اُنھوں نے اپنے ملنے جلنے والوں سے دریافت کیا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ ظالموں نے جواب دیا ” خندروس کوبی” (جوار کوُٹنے )کے لئے لوگوں کو جمع کیا جا رہا ہے تا کہ سید بادشاہ نے جو عُشر کا غلہ جلد سے جلد ادا کرنے کا فرمان جاری کیا ہے ؛ اُس کی تعمیل ہو سکے۔ غازی مطمئن ہو گئے۔ اُن کے حاشیہء خیال میں بھی یہ بات نہ آئی کہ “خندروس کوبی”خفیہ اشارہ ہے جو غداروں اور منافقوں نے اُن کے سروں کی فصل کاٹنے کے لئے مقرر کر رکھا ہے۔
اور پھ رجگہ جگہ غازیوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ کوئی عشاء کی نماز میں، کوئی آدھی رات کو، کوئی نمازِ فجر میں قیام اور رکوع و سجود کی حالت میں ، کوئی طہارت اور وضو کرتے ہوئے شہید کردیا گیا۔ کہیں غآزی دھوکے فریب سے قتل ہوئے ، کہیں انھوں نے مردانہ وار لڑ کر جان دی۔
—-
اس قتل عام میں کس قدر مردان حق شہید ہوئے؟ سید صاحب کی ایک تقریر کے مطابق اُن کی تعداد سینکڑوں تک پہنچتی تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جو خود سید صاحب کے الفاظ میں عِلم و عمل، خدا ترسی، تقویٰ اور اتباع شریعت میں پُورے برصغیر کا خلاصہ اور لُب لُباب تھے اور حضرت مسیح علیہ السلام کے الفاظ میں زمین کا نمک۔
زمین کا نمک۔

  • (اس قتل عام کے بعد سید احمد شہید صاحب اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ انھوں نے اس علاقہ کو چھوڑ کر ہجرت کرجانے کا فیصلہ کر لیا۔ یوں چار سال کی محنت کا صلہ غداریوں کے داغ لئے وہاں سے چل نکلے اور کچھ ہی عرسہ بعد بالاکوٹ میں ایک اور مخبری کے نتیجے میں سکھوں کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرما گئے۔ مُنیر)


یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں