Skip to content

یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے

ہم آپ کافی مرتبہ ایسی صورت حال سے دو چار ہوئے ہوں گے کہ ہم کہنا کچھ اور چاہتے ہوں گے مگر مطلب کچھ اور لے لیا گیا ہوگا۔

آج مجھے پتہ چلا کہ ہمارے ایک محترم استاد نے ایک فارمولا بنایا ہے جس کے مطابق :

اگر ایک بات مختلف طریقوں سے کہی جاسکتی ہو تو ہمیشہ اس انداز میں سمجھی جائے گی جس سے سب سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہو

بہر حال گفتگو اور تقریر کے فن بارے آپ کو بہت سے کتابیں مل جائیں گی، بہت سے مشورے اور نصائح ہر جگہ دتیاب ہوتے ہیں کہ بات چیت کا مہذب انداز کیا ہونا چاہئے۔

 کمیونیکیشن سکلز یا  تبادلہ خیال کے عمل میں مہارت ایک ایسی چیز ہے جس کی ڈاکٹرز کو بالخصوص اور ہر پیشہ ور کاریگر کو بالعموم ضرورت ہوتی ہے ۔ ڈاکٹرز کو اس لئے کہ اگر انھیں تبادلہ خیال کے عمل میں بہم مہارت حاصل نہ ہو تو ان کی بات کا کوئی غلط مطلب کسی کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بھی بن سکتا ہے۔ اور کبھی کبھی روا روی میں کہی گئی بات کسی مریض کے لئے سوہان روح بھی بن سکتی ہے۔

بہر حال، آج اسی موضوع پر ایک روزہ ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا، گو کہ مقرریں کی زیادہ تر توجہ انداز بیان کے سنوارنے پر اور اس سے متعلق کئی پہلووں پر تھی، مگر موضوع سے متعلق کافی اخلاقی  چیزیں بھی زیر غور آئیں۔

آج  سیکھنے کو کافی کچھ ملا، مگر ایک بات کا افسوس رہا۔  وہ یہ کہ  اخلاقیات پر اتنا زور دیا گیا کہ آخر میں یوں لگتا تھا کہ جیسے  ہم کسی مذہبی محفل میں آ بیٹھے ہوں ۔اور ایک اور بات بھی دیکھنے کو ملی۔کچھ سینئرز کے درمیاں رابطے کا فقدان تھا جسے کمیونیکیشن گیپ بھی کہا جاتا ہے۔ اور اس فقدان کی وجہ سے تھوڑی بہت بد مزگی بھی پیدا ہوئی۔

ایک دوست نے کیا خوب تبصرہ کیا کہ ‘  وہ عالم ہی کیا جو خود عمل کرے’۔

2 thoughts on “یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے”

  1. آوارہ گرد

    your keyboard color is near white , aint visible at all ! i had to select all to make it blue and visible then

  2. یا رب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
    دے اور دِل اُن کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

    میں نے نوجوانی میں
    How to increase your world power
    How to speak
    How to write
    اور اس قسم کی کئی دوسری کُتب بڑے انہماک کے ساتھ پڑھیں اور معلوم ہوا کہ اللہ نے وہ سب خوبیاں دے رکھی تھیں جو ان کتابوں میں لکھی تھی ۔ جب میں نے پہلا تقریری مقابلہ گیارہویں جماعت میں ہوتے ہوئے جیتا اُس وقت تک میں نے دونو مؤخرالذکر قسم کی کوئی کتاب نہ پڑھی تھی ۔
    اصل مسئلہ ماحول کا ہے ۔ آج کا ماحول آپ کے الفاظ اور آپ کے خلوص کی بجائے آپ کا رُتبہ یعنی اثر و رسوخ دیکھتا ہے ۔ اگر وہ نہیں ہے یا کم ہے تو آپ کیسی بھی اچھی تقریر کر لیجئے وہ صدا بصحرا ثابت ہوگی اور عین ممکن ہے کہ جو آپ کہہ رہے تھے اُس کا بالکل اُلٹ سمجھ لیا جائے ۔ اس لئے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اپنے پیدا کرنے والے پر بھروسہ رکھیئے اور نیکی کا ساتھ نہ چھوڑیئے ۔ آخر فتح آپ کی ہو گی
    .-= افتخار اجمل بھوپال´s last blog ..غَیرت کہاں گئی =-.

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں