Skip to content

یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں

اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں

یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں

زندگی تیری عطا ہے سو تیرے نام کی ہے
ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں

دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں

اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں

آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں

مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں

ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں

ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں

جس کو دیکھو وہی زنجیر بپا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخلِ زنداں جاناں

اب تیرا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں

ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسمِ ہجراں جاناں

ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں

کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے یہ احمد فراز کا کلام ہے؟
🙂 🙂 🙂

4 thoughts on “یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں”

  1. پتہ نہیں کیا بات ہے کہ جب بھی میں‌ یہ جاناں‌والی غزل پڑھتا یا سنتا ہوں
    مجھے اپنے محلے کا رمضان عرف جانا سبزی والا یاد آجاتا ہے۔۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں