Skip to content

ہم سب کے ادارتی عملے کے نام

مکرمین، السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

مجھے اس بات کا احساس ہے کہ اس پر آشوب دور میں کہ جب اپنے ہی لکھے گئے الفاظ کسی کو معینہ یا غیر معینہ مدت کے لئے لا پتہ کر سکتے ہیں ، ایک عدد ایسی ویبسائٹ چلانا کہ جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے جمع ہو کر حاکم وقت کی سوچ سے اختلاف کا اظہار کرسکتے ہوں کتنا مشکل کام ہے۔ اب جب کہ انقلابی حکومت پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے نام پر پریس قوانین کی از سر نو تدوین و ترتیب کر رہی ہے، یہ امید قوی ہے کہ اب کی بار ہم سب، دلیل، مکالمہ اور اس قبیل کی دوسری ویبسائٹس بشمول سوشل میڈیا اور بلاگز کو بھی مد نظر رکھا جائے گا۔ ایک اچھے مستقبل کی امید پر کہ جس میں اختلاف رائے کسی قسم کے غداری و ناپاکی کے فتاوی پر منتج نہ ہو، میں آپ تمام احباب کو ایسی ویبسائٹس کی ادارت کرنے پر تہنیت پیش کرتا ہوں۔

آمدم بر سر مطلب، مجھے یہ اندازہ بھی ہے کہ آپ لوگوں کا کام بہت مشکل ہے، اس کام میں کسی کو بھی خوش نہیں رکھا جا سکتا، بہت سے لوگ آپ کی موقر ویبسائٹ پر اپنی تحریر کے نہ شائع ہوپانے پر آپ سے گلے شکوے بھی کرتے ہوں گے، کچھ تو بے ساختگی میں اخلاق کی حدود بھی پار کر جاتے ہوں، ہو سکتا ہے ایسا بالکل بھی نہ ہوا ہو۔ بہر حال، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ کے ہاں تحریر کی اشاعت اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب اس تحریر کو آپ کی طرف سے متعین کردہ چند راہ نما اصولوں کے مطابق ضبط قلم کیا گیا ہو۔ فدوی نے سید مجاہد علی کی ایک تحریر پر تبصرہ کیا تھا ، اور اس تبصرے کو آپ کی طرف برقی ڈاک سے بھیجنے سے قبل آپ کے متعین کردہ راہ نما اصولوں کا کئی بار مطالعہ بھی کیا کہ کہیں انجانے میں ہی سہی، قانون شکنی نہ ہوجائے۔ اپنی طرف سے مکمل اطمینان کے بعد ہی وہ تحریر آپ کو روانہ کی تھی۔ آپ لوگوں کا خود کار جوابی نظام مجھے آگاہ کرگیا کہ تحریر مکتوب الیہ کے پاس پہنچ چکی ہے، البتہ اس کے بعد سے خاموشی ہی خاموشی ہے۔

فدوی اس خاموشی کا کیا مطلب سمجھے؟ آیا آپ پر کام کا بوجھ اتنا ہے کہ آپ تحریر پر فیصلہ نہیں کر پارہے؟ آیا تحریر کسی ایسی زبان میں لکھی گئی کہ آپ سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ کیا لکھا گیا؟ یا آپ کی متلون مزاج طبیعت نے فیصلہ کرلیا کہ ایس نوں نی چھاپنا بس۔ وجہ جو بھی ہو، کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ مجھے مطلع کر دیتے؟ یوں انتظار کے انگاروں پر لوٹانے کا کیا فائدہ؟ ہم تو اس ڈر کے مارے اپنی تحریر بابت استفسار کر بھی نہیں سکتے کہ وہاں لکھا ہوا کہ دو دن تک کوئی نہ پوچھے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ یہ بھی لکھ دیتے کہ کب اپنی تحریر کی بابت کس سے کہاں پر پوچھا جا سکتا ہے؟ اور یہ کہ آپ کے ہاں ناقابل اشاعت تصور کی جانے والی تحاریر کے بارے میں ان کے مصنفین کو مطلع کرنے کا رواج ہے یا اسے فی الحال ٹیبو سمجھا جاتا ہے؟

والسلام۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں