Skip to content

ہم بھی کیا قوم ہیں۔

روزنامہ ڈان کی ویب سائٹ پر اس خبر پر نظر پڑی تو  بہت افسوس ہوا۔ خیال آیا کہ شائد ہم اتنے کاہل ہو گئے ہیں کہ اب تعلیم و تربیت کی جگہ قانون سازی سے کام لے رہے ہیں۔

خبر کے مطابق حکومت نے ۲۰۰۲ میں بچوں کو ماں کا دودھ پلانے سے متعلق ایک آرڈیننس پر کچھ کام شروع کیا تھا۔  کام کی کچھ پیش رفت ہوئی مگر بعد میں ماہرین نے اس کا تنقیدی جائزہ لیا اور کہا کہ اس آرڈیننس کو قابل عمل نہیں بنایا جا سکتا۔

میرا خیال ہے کمیشن کی سفارشات کچھ اس طرح ہو ں گی:

ماں کا دودھ بچے کو پلانا لازمی قرار دیا جائے۔

جو ماں اس پر عمل نہ کرے اسے چھے ماہ قید با مشقت اور بچے سے دوری کی سزا دی جائے۔

ایک ایسا فول پروف میکینزم بنایا جائے گا جس سے ان ماؤں کی نشان دہی ہو سکے گی جو بچوں کو بوتل کا دودھ پلاتی ہیں۔

تمام دکاندار حضرات  آئندہ سے فیڈنگ بوتل اور دودھ کے ڈبے خریدنے والے حضرات کے قومی شناختی کارڈ اور نیشنل ٹیکس نمبر کا ریکارڈ لے کر قریبی تھانے کو فوری مطلع کریں گے۔

خلاف ورزی کے مرتکب دکاندار کو کاروبار کی ضبطی کی سزا دی جا سکے گی۔

یہ مقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے گا۔

حکومت کے نمائندے ہر تیسرے ہفتے ہر بچے کا انٹر ویو لے کر تسلی کریں گے کہ ان  کو ڈبے کا دودھ نہیں پلایا جا رہا۔

بجائے اس کے کہ بجٹ میں تعلیم و تربیت پر کچھ زیادہ رقم استعمال کی جائے، بجائے اس کے کہ اساتذہ کی مالی حالت ٹھیک کی جائے تاکہ وہ فکر معاش سے آزاد ہو کر طُلبا کی تعلیم و تربیت میں اپنی صلاحیتیں صرف کر سکیں، زور آرڈیننس بنانے پہ لگایا جا رہا ہے۔  ظاہر ہے اس کام میں پیسہ کھانے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔

ہم بھی کیا قوم ہیں، اگر یہ زوال اسی طرح جاری رہا تو شائد کل اس سے بھی کم  اہمیت کے مقاصد کے لئے آرڈیننس بنائے جانے لگیں اور پولیس کے لئے کمیشن خوری کا ایک اور راستہ نکال آئے۔

3 thoughts on “ہم بھی کیا قوم ہیں۔”

  1. اور پولیس شیرخوار کے حقوق کی پاسداری کے لئے کسی بھی وقت چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے چھاپہ مار سکتی ہے اور موقع پر ”ٹیسٹ“ کر سکتی ہے

  2. اگر اخلاقی انحطاط کا یہی عالم رہا ، اور سفارش کلچر کی بنا پر اہم عہدوں پر اپنوں کو نوازنے کا یہ رجحان اسی طرح جاری رہا تو کچھ عجب نہیں کہ کل اسی طرح یہ قانون منظور ہو جائے ، اور ڈفر کی پیش کردہ تجویز پر عمل بھی ہونے لگے۔

  3. امید کی کرن تو ہے ، عوام میں باشعور لوگوں‌کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے ۔۔ دھیرے دھیرے سہی، مگر کارواں چل رہا ہے ۔۔۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں