Skip to content

ہمارے معاشرتی معیارات کیوں بدل رہے ہیں؟

ابھی ابھی ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا جس کے عنوان میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ پاکستانی معاشرہ سیکولر کیوں ہو رہا ہے ۔ہمارے معاشرتی معیارات تو ایسے نہ تھے۔ اور شائد دین بیزاری اور خدا سے دوری ہمارے معاشرے میں ایک نیا اور واضح رجحان نظر آ رہا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ مضمون میں اس سوال کا جواب دیا گیا یا نہیں، میرے خیال میں ہمارے معاشرتی معیارات میں تبدیلی کی دو اہم وجوہات ہیں۔

ٹیلی ویژن

یاد ش بخیر بچپن میں ، جب صرف پی ٹی وی ہی دیکھنے کو ملتا تھا اور اس کی نشریات شام کو چھے سات گھنٹے پر ہی محیط ہوتی تھیں تو ہماری پوری کوشش ہوتی تھی کہ ایک  بھی لمحہ ضائع نہ جائے ۔۔ یہ اور بات کہ کبھی بھی فرمان الہی دیکھنے کی نوبت نہ آئی۔ اس وقت کے ٹی وی ڈراموں میں، اور شائد اب بھی دکھایا جاتا ہو کیونکہ عرصہ ہوا پاکستانی ڈرامے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا، جو کچھ دکھایا جاتا تھا وہ ہماری روز مرہ کی زندگی سے قطعی میل نہ کھاتا تھا، اور ہم اس طرز زندگی کے خواب بھی دیکھتے تھے ۔اکثر حیرانی ہوتی تھی کہ ٹی وی ڈراموں میں جو طرز زندگی دکھایا جا رہا ہے وہ کہاں پایا جاتا ہے؟ مرد و عورت کاایک ریسٹورنٹ میں ملاقات کرنا اور سب سے بڑی اچنبھے کی بات تو یہ کہ ان پر کوئی روک ٹوک بھی نہیں۔ یہ بھی خیال آتا تھا کہ کیا ان کےگھر والوں کو ان کے گھر سے باہر رہنے پر کوئی پریشانی نہیں؟ سچ بات تو یہ ہے کہ ان ڈراموں کو دیکھ دیکھ ذہن میں ریسٹورانٹوں کا تاثر ایک ڈیٹنگ پوائنٹ جیسا بن گیا تھا اور جب زندگی میں پہلی بار ایک عدد ریسٹورانٹ میں کھانے کا موقع ملا تو یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ وہاں آس پاس ایسا کوئی جوڑا نظر نہیں آ رہا تھا جو شائد ڈیٹ پہ آیا ہو۔

اس وقت کا ٹیلی ویژن اور آج کا انٹرنیٹ وہ بڑے اسباب ہیں جو آپ کے گھر میں موجود ہوتے ہوئے بھی آپ کو نظر نہیں آ رہے۔ یہ دونوں ذریعے جس طرز زندگی کی ترویج کرتے نظر آتے ہیں وہ ہمارا اصل طرز زندگی نہیں۔ یوں حقیقت اور خوابوں میں تفاوت بہت بھیانک صورت حال کو جنم دیتا ہے۔ پھر معاشی حالات بھی ایسے ہوگئے ہیں کہ گھر کے کماو پوتوں پر چاہے وہ مرد ہوں یا عورت، کمانے کا بوجھ اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ صبح کے نکلے شام ڈھلے واپس آتے ہیں، ان کو یہ عیاشی میسر ہی نہیں کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ بیٹھ کر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ان کی اولاد کی سوچ کس طرف جا رہی ہے۔ گھر کے ان خچروں کی پوری زندگی گھر سے دفتر اور شام کو کسی دوسرے یا تیسرے ذریعہ معاش میں مصروف گزر جاتی ہے، رات ڈھلے وہ گھر صرف آرام کے لئے آتے ہیں۔۔

جب ایسے لوگ ذرا فرصت پاتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ اولاد کو آسانیاں پہنچانے کے چکر میں وہ اولاد کو دور کر بیٹھے ہیں۔ دو نسلوں کے درمیاں جو دوری پیدا ہوتی ہے وہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اولاد کو جو توجہ والدین کی طرف سے ملنی تھی، اولاد اس کی کمی ٹیلی ویژن یا انٹرنیٹ سے معلومات حاصل کر کے پوری کر لیتے ہیں۔ والدین اور اولاد کے درمیان پیدا اس دوری میں اضافہ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کی عمل انگیزی سے زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ پرانی نسل کو فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ نئی نسل کو اپنی مذہبی ، معاشرتی اور اخلاقی اقدار سے آگاہ کر سکے، نتیجتا نئی نسل کے اخلاقی و مذہبی و معاشرتی معیارات وہی ہوتے ہیں جو وہ ٹیلی ویژن سے سیکھتی ہے۔ پرانی نسل اپنے معیارات ، معاشرت کے تصورات اور اچھائی برائی کے پیمانوں سے بندھی اپنے ایک دائرے میں سفر کر رہی ہے اور اس کا خیال ہے کہ اولاد تک یہ اچھائی برائی کے پیمانے خود بخود پہنچ جائیں گے۔ حال آں کہ ایسا ہوتا نہیں اور دو نسلوں کے درمیان پیدا خلیج وسیع ہوتی چلی جاتی ہے۔

نظام تعلیم

معاشرے میں نفوذ پذیر اس تبدیلی کی دوسری اہم وجہ ہمارا نظام تعلیم ہے۔ یہ نظام تعلیم گریڈز پر توجہ دیتا ہے ۔ یہاں نمبروں کی اہمیت ہے، چاہے یہ نمبر کسی بھی طریقے سے حاصل کئے گئے ہوں۔ کوالٹی سرٹیفیکیشن کا یہ ایک تاریک پہلو ہے۔ جہاں انسان کی اہمیت ایک کاغذ کے ٹکڑے پہ مرقوم تاثرات سے جانچی جاتی ہو، وہاں کاغذ کے اس ٹکڑے کا حصول اہم قرار پاتا ہے۔ اور یوں تحصیل علم ایک ثانوی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔

یوں یہ نظام تعلیم محض رٹو طوطے پیدا کرتا ہے اور ایسے رٹو طوطے کہ اگر آپ ان سے آسان الفاظ میں کسی موضوع کو بیان کرنے کا مطالبہ کریں تو یہ طوطے اکثر و بیشتر گنگ ہو جاتے ہیں۔ اس نظام تعلیم میں اساتذہ کی توجہ صرف اپنے مضامین پڑھانے پر ہے۔ یہاں اخلاقیات کا کوئی عمل دخل نہیں، نہ ہی اخلاقیات کی تعلیم اساتذہ کا سر درد سمجھا جاتا ہے۔

اخلاقیات کی تعلیم والدین کے ذمے فرض کر لی گئی ہے اور سکولوں میں اس پہلو سے مکمل پہلوتہی کی جاتی ہے۔لیکن دوسری طرف والدین کے پاس اکثر و بیشتر وقت کی کمی ہوتی ہے، معاشرتی و اقتصادی عوامل والدین کو ایسا مصروف رکھتے ہیں کہ وہ اولاد کو وقت نہیں دے پاتے، اور اولاد ٹیلی ویژن ، انٹرنیٹ اور اپنے دوستوں سے زندگی کے چال چلن سیکھتی نظر آتی ہے جو اکثر اوقات غلط ہی ہوتے ہیں۔ پھر طبقاتی نظام تعلیم کے اپنے تقاضے ہیں، نتیجتا معاشرے میں ہر طبقہ اپنے خیالات پر ایک متشدد عامل بن کر پھلتا پھولتا رہتا ہے۔ فرض کرلیا گیا ہے کہ دین کی تعلیم کا روز مرہ کی زندگی سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور دوسری طرف جدید تعلیم میں مذہبی تعلیم کا عمل دخل نہیں برداشت کیا جاتا۔ ایک رویہ یہ بھی ہے کہ دین کی تعلیم محض کچھ خاص طبقوں کا فرض سمجھ لیا گیا ہے اور مالی لحاظ سے کمزور معاشرتی طبقات جوں جوں خوشحال ہوتے جاتے ہیں مذہب سے اتنے ہی دور ہوتے جاتے ہیں۔

جدید تعلیم ، سائینسی مضامین میں خدا کے وجود پر بات نہیں ہوتی، عقل پرستی ایویڈنس بیسڈ ہے۔ اگر کسی چیز کی ایویڈنس نہیں تو عقل اسے ماننے سے انکار کردے گی۔ پھر آج کل کے معاشی و معاشرتی حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ ایک لحاظ سے تسلیم کرلیا گیا ہے کہ اگر معاشی طور پر خوشحال رہنا ہے تو جدید فنی تعلیم حاصل کرنی ہوگی۔ جدید فنی تعلیم، جیسا کہ میں نے عرض کیا، میں مذہب اور عقائد کی مستثنیات کے علاوہ کوئی جگہ نہیں۔ یوں ایک خوشحال مستقبل کے چکر میں فنی تعلیم حاصل کرتے کرتے فرد مذہب بیزار ہوجاتا ہے الا ما شاء اللہ۔

نتیجتا ہمارے معاشرتی معیارات بدلتے جا رہے ہیں۔ پرانی نسل کو اس تبدیلی کا اس لئے احساس نہیں کہ یہ ایک بتدریج ارتقائی عمل ہے اور ایک سست رفتار سے ہی سہی، مگر آگے بڑھ رہا ہے۔ نئی نسل کے ہاں اچھائی اور برائی کے معیارات وہی ہیں جو انہوں نے سیکھے ہیں اور اکثر اوقات یہ معیارات ٹیلی ویژن ، انٹرنیٹ اور اپنے ہم عمر وں سے سیکھے جاتے ہیں۔ یوں جب تک پرانی نسل کو علم ہوتا ہے نئی نسل کے معاشرتی معیارات اور ان کا طرز زندگی ایسے ہم آہنگ ہو چکے ہوتے ہیں کہ پرانی نسل کے پاس اکثر ان کو برا بھلا کہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ کسی زمانے میں جوان لڑکوں لڑکیوں کا ایک ساتھ گھومنا پھرنا معیوب سمجھا جاتا تھا، اب حال یہ ہے کہ ان کو ایک جگہ بیٹھنے سے روکنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔

ہمارا معاشرہ بدل رہا ہے، اور تبدیلی بھی ایک عجیب سے تبدیلی ہے، بہت سے بت جو ہم نے تراش رکھے تھے ایک ایک کر کے سرنگوں ہو رہے ہیں۔ ہمارے بہت سے اخلاقی و معاشرتی معیارات زوال پذیر ہیں اور ان کی جگہ ایسے معیارات نے لے لی ہے جو لوگوں کی اکثریت کے لئے قابل عمل ہیں ۔ چاہے ایسے رائج خیالات پرانی نسل کے ہاں معیوب ہی کیوں نہ ہوں۔

پرانی اور نئی نسل کی جنگ میں فتح ہمیشہ نئی نسل کی ہوتی ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ نے نئی نسل کی تربیت کیسے کی۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ پرانی اور نئی نسل کے معاشرتی، مذہبی اور اخلاقی معیارات کا مقابلہ ہے جس میں نئی نسل کو ہر حال میں فتح حاصل ہوگی کیونکہ پرانی نسل کے پاس وقت نہیں بچا۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں