Skip to content

ہاراکری ۔ ناظر کے تاثرات

Screenshot 20190815 084718

آپ کا تو نہیں کہہ سکتا مگر میں نے ہارا کری کا تذکرہ پہلی بار دوسری جنگ عظیم کے جاپانی پائلٹوں کے ضمن میں سنا تھا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ کس طرح جاپانی پائلٹ اپنے جہاز کو عمودی رخ میں نیچے لا کر دشمن کے بحری جہازوں پر گرا کر دشمن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے تھے۔ میری یادداشت میں اس فعل کو ہارا کری کا نام دیا گیا تھا۔ پھر ذرا دلچسپی بڑھی تو علم ہوا کہ ہاراکری تو خودکشی ہے اور جاپانی معاشرے میں اسے ایک قابل تحسین فعل سمجھا جاتا ہے۔
اس سے زیادہ میں نے اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی بھی نہیں کہ اتنا ہی کافی تھا۔ البتہ گزشتہ دنوں جب اس نام کی ایک جاپانی فلم تک رسائی ہوئی اور وہ بھی آئی ایم ڈی بی کی آٹھ اعشاریہ سات ریٹنگ کے ساتھ تو فیصلہ کیا کہ اسے دیکھنا چاہئے۔ میرے ذہن میں پہلے سے موجود معلومات کے باعث ایک تاثر بن چکا تھا کہ یہ فلم کیسی ہوگی، دیکھنے کے بعد جانا کہ وہ تاثر غلط تھا۔

ہاراکری یا سیپُکو بنیادی طور پر سیمورائی جنگجوؤں کے لئے مخصوص فعل تھا جو بعد میں جاپانی معاشرے میں عام ہوگیا۔ اس کا سب سے آسان طریقہ یہ تھا کہ خودکشی کرنے والا اپنے پیٹ میں چھوٹی تلوار یا خنجر گھونپ کر اسے افقی طرف ایسے حرکت دے کہ اس کی انتڑیاں کٹ جائیں۔ ایک اچھی طرح سے گھونپا گیا چھرا پیٹ میں موجود آورٹا یا دل سے نکلنے والی خون کی بڑی رگ جو نچلے جسم کو خون پہنچاتی ہے، کو کاٹ کر خون کے اخراج اور موت میں مدد دے سکتا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہوتا تھا کہ ایک اور سیمورائی جنگجو ہاراکری کرنے والے کی گردن کاٹ دیتا تھا۔ اور یوں خودکشی کرنے والے کا مقصد پورا ہوجاتا تھا۔

اس فلم کی ابتداء ایسے سیمورائی جنگجو کی آمد سے ہوتی ہے جوفکر معاش اور تنگدستی کی زندگی سے تنگ آکر ایک جاگیردارکی حویلی پر حاضر ہوتا ہے کہ اسے معروف طریق پر ایک باعزت جنگو کی طرح اپنی زندگی ختم کرنے دی جائے۔ جس تاریخی زمانے پر یہ فلم بنی ہے ، اس میں جاپانی معاشرے میں بہت سے ایسے سیمورائی پائے جاتے تھے جن کا سرپرست کوئی نہیں ہوتا تھا اور بظاہر اس فلم میں اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ معاشرے میں ہر طرف امن قائم تھا اور اب جنگجوؤں کی چنداں ضرورت نہ رہی تھی۔ اسی زمانے میں سمورائی جنگجوؤں کے لئے کسی جاگیردار کے ڈیرے پر حاضر ہوکر خودکشی کی اجازت طلب کرنا ایک معمول بن رہا تھا کہ کچھ کو اجازت مل جاتی تو وہ خود کو ہلاک کر لیتے، جن کو نہ ملتی ، ان کو جاگیردار کچھ معاوضہ وغیرہ دے دلا کر رخصت کردیتا۔ یوں پیسے کے لالچ میں بھی ہاراکری کے لئے جاگیرداروں کے ڈیروں پر ان جنگجوؤں کی آمد ہوتی رہتی تھی۔

ہمارا یہ سیمورائی جنگجو کیا پیسے کے لالچ میں اس جاگیردار کے ڈیرے پر آیا تھا؟ اس کا علم تو فلم دیکھنے کے بعد ہی ہوسکے گا، مگر سیمورائی، جاگیردار، ہاراکری وغیرہ کے مسلسل تذکرے سے آپ یہ نہ سمجھ لیجئے گا کہ اس فلم میں ایکشن اور مار دھاڑ کی بھرمار ہے۔ فلم کی کہانی کی رفتار مناسب ہے، نہ بہت تیز، نہ بہت سُست۔ بلیک اینڈ وائٹ میں بنی جاپانی زبان کی یہ فلم انگریزی سب ٹائٹل کے ساتھ ہی دیکھنی ہوگی۔ فلم کی فوٹوگرافی اور ڈائریکشن اچھی ہے، کہیں بھی ناظر کو کسی جھول کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر فلم کا دورانیہ دو گھنٹے اور تیرہ منٹ کا ہے، کیا آپ اتنا وقت نکال سکیں گے؟

فلم نے معاشرتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے انسانی المیوں اور رویوں کو بہت اچھے انداز میں اجاگر کیا ہے اور مجھے یہ پیشکش کافی پسند آئی ۔ میرا ماننا یہ ہے کہ ایسی فلمیں ضرور دیکھنی چاہییں۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں