گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا
تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا
مل رہی ہو بڑ ے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا
یاد ہیں اب بھی اپنے خواب تمہیں
مجھ سے مل کر اداس بھی ہو کیا
بس مجھے یوں ہی اک خیال آیا
سوچتی ہو ، تو سوچتی ہو کیا
اب مری کوئی زندگی ہی نہیں
اب بھی تم میری زندگی ہو کیا
کیا کہا عشق جاودانی ہے
آخری بار مل رہی ہو کیا
جون ایلیا
jجون ایلیا کی کیا بات ہے. آپ واھد شاعر ہیں جن کی تمام کتب میں نے خریدی
.-= لفنگا ´s last blog ..زمانے کے انداز بدلے گئے =-.
غزل سے لطف اندوز ہونے کے بعد تبصرہ کئے بغیر بھاگنے کا ارادہ تھا، لیکن شاعر کا نام نہ دیکھ کر آپ کی کلاس لینے کا خیال آگیا۔۔۔
پیارے ڈاکٹر صاحب۔۔۔ شاعر کا نام ضرور لکھ دیا کریں ورنہ مجھے اختلاج ہونے لگتا ہے
راشد اور عنیقہ کے اندازے پر میں بھی صاد کرتا ہوں۔۔۔
.-= جعفر´s last blog ..دودھ کا جلا =-.
واہ واہ ۔۔ امید ہے کہ جان ایلیا کی ہی غزل ہوگی۔۔
عشق میں کالا جادو ھوتا ھے
ھر حال میں انسان کو ھرا ھرا سوجتا ھے
کچھ لوگ اس مرض کو لاعلاج خیال کرتے ھیں
کچھ لوگ اسے بھوت کہتے ھیں
شاعر لوگ دیوان کے دیوان بھر دیتے ھیں
مگر دنیا کا کوئ ڈاکٹر اس کا علاج دریافت نہیں کر سکا
ڈاکٹروں کے لیے سوچنے کا مقام ھے
.-= sadia saher´s last blog ..وہ زخم آج بھی رستا ھے =-.
ہم جسے چھو نہ سکیں اسکو خدا کہتے ہیں، اسی طرح کچھ عشق جاودانی لگتا ہے۔
لیکن خوب ہے۔ راشد کامران ٹھیک کہتے ہیں، اس میں ذائقہ تو جون ایلیا کا لگ رہا ہے۔
.-= عنیقہ ناز´s last blog ..ترغیب، تقلید اورنتائج =-.
ميرا خيال ہے منیر كی اپنی تخلیق ہے
پیارےڈاکٹر صاحب!(اگرچہ پیارا کی صفت موصوف کے نہ کبھی سابق ہو سکتی ہے اور نہ انہیںلاحق ہو سكتی ہے).. اپ شاعر كا نام ضرور لکھا كریں ورنہ سرق كا شبہ ہوتا ہے 🙂
جناب قدر دان حضرات :: یہ جون ایلیا مرحوم ہی کی ملکیت ہے. میری کیا مجال کہ میں جناب کے کلام پر ہاتھ صاف کر سکوں. ہاتھ صاف کرنے کے لئے مریضوں کی جیبیں ہی کا فی ہیں. 🙂
در اصل اس کے پبلش ہوتے ہی ہماری بجلی ایک غیر سرکاری دورے پر روانہ ہو گئی. اور مجھے ترمیم کا وقت نہ مل سکا. اب واپس آ کے دیکھتا ہوں تو جعفر نے تو میری کلاس ہی لے لی ہے.
آوارہ گرد بھائی، آپ کو بخوبی علم ہے کہ اتنی اچھی شاعری میرے بس کی بات نہیں. وہ اور لوگ ہوتے ہیں جو شیزو فرینیا پر لکھ ڈالتے ہیں ایک نظم. 🙂
آئندہ احتیاط کروں گا. 🙂
لو جی آج ڈاکٹر صاحب نے اقبال جرم کر لیا کہ “ہاتھ صاف کرنے کے لیے مریضوں کی جیبیں ہی کافی ہیں”۔ ڈاکٹر صاحب کچھ ہم جیسے غریبوں پر رحم کر لیا کریں۔ ویسے آپ اچھے ڈاکٹر لگتے ہیں صرف جیبوں پر ہی ہاتھ صاف کرتے ہيں ورنہ ایسے بھی دیکھے ہیں جن کے پاس مریض جائے تو کبھی بھی پورا واپس نہیں آتا، کوئی نہ کوئی عضو انہی کے پاس رہ جاتا ہے 🙂
Comments are closed.