Skip to content

کیا جنرل ریٹائرڈ مشرف کو واقعی سزا ملے گی؟

آج ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ بروز جمعۃالمبارک سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اور تاریخی فیصلہ سنا دیا ہے۔ اس  سے قبل جولائی ہی کے مہینے میں اور جمعہ ہی کے دن ، یعنی ۲۰ جولائی کو ایک تاریخی فیصلہ سنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں چیف جسٹس آف پاکستان کو بحال کر دیا گیا تھا۔

پاکستان کی تاریخ میں یہ انوکھے فیصلے ہو رہے ہیں، ہم کب ان باتوں کے عادی تھے۔ ہم تو دیکھتے چلے آئے تھے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے مقولے پر جی جان سے عمل ہو رہا تھا۔ ہم نے قانون کی پاسداری صرف غربا کے لئے لازم دیکھی۔  ہم نے کسی طاقت ور کے احتساب کے لئے قانون کو حرکت  میں آتے نہیں دیکھا تھا ۔ ہم یہی دیکھتے چلے آ رہے تھے کہ اس ملک میں بڑے سے بڑا مجرم جرم کر کے بچ جاتا ہے اور عام آدمی قانون کے ہتھے اگر چڑھ جائے تو پھر کہیں کا نہیں رہتا۔

مگر یہ ساری صورت حال ۹ مارچ ۲۰۰۷ کو چیف جسٹس کی معزولی سے بدلی۔ اس معزولی اور پھر چیف جسٹس کے ساتھ بد سلوکی نے ساری قوم کو بالعموم اور وکلا کو بالخصوص چیف کے دفاع میں کھڑا کر دیا۔ وکلا کے احتجاج میں شدت ، اس وقت کے ابن الوقت وزرا کے بیانات، اور پھر ۲۰ جولائ ۲۰۰۷ کے تاریخی فیصلے  کو پاکستان کی تاریخ میں بہت اہمیت  حاصل ہو چکی ہے۔  یہ اہمیت اس وقت دوچند ہو جاتی ہے جب ہم  نے دیکھا کہ انھی ججوں کو ہٹانے کے لئے  تین نومبر ۲۰۰۷ کو ایک غیر آئینی قدم اٹھایا گیا۔  میں ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنھوں آمر کے سامنے کلمہ حق کہا اور پھر اپنے اوپر پڑنے والی آزمائشوں پرثابت قدم بھی رہے۔ یہ وہ وقت تھا جس نے سفید کو سیاہ اور بھورے سے ممیز کر دیا۔

عوام اور وکلا کی یہ جدوجہد اور میں سمجھتا ہوں معزول ججوں کے ساتھ کی جانے والی نا انصافی تھی  جس نے آخر موجودہ حکومت کو ان کی بحالی پر مجبور کردیا تھا ورنہ موجودہ حکومت تو کسی طرف سے بھی ان کو بحال کرنے پر رضامند نظر نہ آتی تھی۔

اب جب کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تین نومبر ۲۰۰۷ کا قدم غیر آئینی اور غیر قانونی تھا تو پھر امید رکھنی چاہئے کہ حکومت اس سلسلسے میں اور اقدامات بھی اٹھائے گی تاکہ ماضی کی آلائشوں کا بوجھ اس قوم کے ضمیر سے ہلکا کیا جاسکے۔ میری تو دلی خواہش ہو گی کہ اس غیر آئینی قدم کے اٹھانے والے اور اس کی مدد کرنے والے تمام کرداروں کو،چاہے وہ وکیل ہوں، سیاست دان ہوں فوجی ہوں، یا اسٹیبلشمنٹ کے ہرکارے، سب کو،  عبرت ناک سزا دی جائے تا کہ آئندہ اس قسم کا کوئی قدم اٹھانے سے  پہلے ایک مرتبہ  سوچ ضرور لے۔

مگر حکومت کی نیم دلی اور سُستی دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ شائد اس اہم موڑ پر کسی کی بزدلی ساری محنت ضائع نہ کر دے۔

16 thoughts on “کیا جنرل ریٹائرڈ مشرف کو واقعی سزا ملے گی؟”

  1. لیکن یہ بہی ایک افسوسناک امر ہے کہ مجہ جیسا ایک آدمی 30 سال کے بعد سمجہ گیا کہ ھمارے اصل مسایل دراصل بد امنی، دہشت گردی، مھنگایی، نھیں بلکہ سیاسی انتقام عوام کی اولین خواہش ھے

  2. ارشاد علی: لیکن یہ بہی ایک افسوسناک امر ہے کہ مجہ جیسا ایک آدمی 30 سال کے بعد سمجہ گیا کہ ھمارے اصل مسایل دراصل بد امنی، دہشت گردی، مھنگایی، نھیں بلکہ سیاسی انتقام عوام کی اولین خواہش ھے

    سیاسی انتقام؟

    جومسائل آپ نے نشان زد کیئے ہیں وہ آپ کے ممدوحین کو تین نومبر کو کیوں یاد نہ رہے؟ کیا اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش اتنی شدید تھی کہ انھیں یہ سب کرنا پڑا؟

    اپنی مرضی کی عدلیہ لانے کے بعد بھی تو ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہوئے۔۔ بلکہ ملک میں سب سے زیادہ خون ان دنوں میں بہا جب آپ کے پسندیدہ ڈوگر صاحب چیف جسٹس تھے۔

  3. جناب ہم تو کہیں‌گے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ اس سارے قضیے کی سمجھ مجھ کم عقل کو کم ہی ہز، لیکن ایک چیز جو ہر کوئی باآسانی سمجھ سکتا ہے، وہ یہ کہ جو جو چیز حکومت کے لیے سہولت ہوے، چیف صاحب فرماتے ہیں‌کہ علیحدہ کر لیں‌تا کہ کچھ پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
    یہ کیسا قانون ہے کہ جو موم کی ناک جیسے، اپنی مرضی کے مطابق موڑ لو۔ ہو نہہ، امید ہی رکھیں‌صاحب ایسی جو پوری نہ ہو سکے، دنیاوی عدالتیں‌کیا خاک انصاف کریں‌گی۔

    نوٹ؛؛؛‌آپکے بلاگ میں‌ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر بار تبصرہ کرنے کو نام، ای میل اور ویب ایڈریس نئے سرے سے دینا پڑتا ہے، جبکہ ایسا ہونا نہیں‌چاہیے، اس کی یاداشت کو بہتر بنائیں‌جناب، اب یہ ہو گا کیسسے یہ مجھے نہیں‌پتہ، ہاں‌یہ ضرور پتہ ہے کہ ایسا ممکن ہے۔

  4. عمر احمد بنگش: نوٹ؛؛؛‌آپکے بلاگ میں‌ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر بار تبصرہ کرنے کو نام، ای میل اور ویب ایڈریس نئے سرے سے دینا پڑتا ہے، جبکہ ایسا ہونا نہیں‌چاہیے، اس کی یاداشت کو بہتر بنائیں‌جناب، اب یہ ہو گا کیسسے یہ مجھے نہیں‌پتہ، ہاں‌یہ ضرور پتہ ہے کہ ایسا ممکن ہے۔

    انشا ٕ اللہ اب جب آپ تبصرہ فرمانے کی زحمت کریں گے تو آپ کو مسئلہ نہیں ہوگا۔ آپ کا پہلا تبصرہ ماڈریشن سے نکلا نہیں تھا اس لئے آپ کو زحمت اٹھانی پڑی۔اب یہ آپ کو دوبارہ نہیں پوچھے گا۔ میرا مطلب ہے، آپ سے دوبارہ نہیں پوچھے گا ۔۔

  5. ڈاکٹر صاحب۔۔ ہم لوگوں میں جی بے صبری بہت ہے۔ آئیڈیلزم اور یوٹوپیا کے بہت مداح ہیں ہم۔
    پچھلے دوسال میں جو ہوا ہے وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا انقلاب ہے جس کی مثال آپ کو نہیں‌ ملے گی۔ سیاست کا طالبعلم ہونے کی حیثیت سے میری سمجھ میں‌ یہ بات آتی ہے کہ جو ہو رہا ہے اسے اب پلٹایا نہیں جاسکتا۔ جسٹس چوہدری اور یہ سپریم کورٹ کوئی مثالی ادارہ اور لوگ نہیں ہیں۔ لیکن کم ازکم ایک راستے کا تعین انہوں نے ضرور کردیا ہے۔ اور باقی جناب، امید تو بندے کو رب سے ہی ہونی چاہئے، بندوں سے امیدیں تو نقش برآب ہی ہوتی ہیں۔
    لالے عمر بنگش کے لئے بھی مضمون واحد ہے!

  6. جانے کس آستیں سے پکارے میرا لہو
    منصف عدالتوں میں ہیں بیٹھے چھپا کے ہاتھ

    سوال یہ ہے کہ جس فیصلے کا پہلے سے معلوم تھا، اَس کے انتظار میں قوم نے تین گھنتے کا قیمتی وقت کیوں ضائع کیا؟ انتخابات، مقننہ اورانتظامیہ کو رعایت دے کر ایک بار پھر نظریہء ضرورت کی افادیت کو تسلیم کیا گیا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار نظریہء ضرورت کو ایک آمر کی بجائے ایک قاضی بروئے کار لایا۔ فرق صاف ظاہر ہے۔

  7. ارشاد علی: جانے کسآستیںسےپکارےمیرالہو
    منصف عدالتوں میں ہیں بیٹھے چھپا کے ہاتھسوال یہ ہے کہ جس فیصلے کا پہلے سے معلوم تھا، اَس کے انتظار میں قوم نے تین گھنتے کا قیمتی وقت کیوں ضائع کیا؟ انتخابات، مقننہ اورانتظامیہ کو رعایت دے کر ایک بار پھر نظریہء ضرورت کی افادیت کو تسلیم کیا گیا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار نظریہء ضرورت کوایک آمر کی بجائے ایک قاضی بروئے کار لایا۔ فرق صاف ظاہر ہے۔

    مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی،آپ کو اعتراض کس بات پر ہے؟ اس فیصلے پر، حکومت اور صدر کے بچنے پر، جسٹس ڈوگر کے جانے پر یا مشرف کے متوقع انجام پر؟

  8. منیر عباسی نے لکھا ہے: مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی،آپ کو اعتراض کس بات پر ہے؟ اس فیصلے پر، حکومت اور صدر کے بچنے پر، جسٹس ڈوگر کے جانے پر یا مشرف کے متوقع انجام پر؟

    میں کوئی چیف جسٹس نہیں ہوں کہ کسی بات پر اعتراض کروں اور نہ ھی کوئی وکیل۔ تاہم پہلی دو باتیں میری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ ابھی تک سوچ رہا ہوں، اس فیصلے پر، حکومت اور صدر کے بچنے پر۔

  9. نہیں
    بالکل بھی نہیں
    جو مشرف کو تختہ پر لٹکا کر ڈنڈا کھینچے گا کل مشرف کی جگہ ہو گا
    یہ سب جانتے ہیں، ہمارے علاوہ

  10. مبارکباد ڈاکٹر صاحب شکر ہے یہ خوشگوار تبدیلی آئی مجھے پہلے والے طریقے سے تبصرہ کرنے میں بہت دقت ہوتی تھی اب تو کافی سہل ہو گیا ہے ۔
    ایک گزارش ہے اگر اس اردو ایڈیٹر کو انسٹال کرنے کا طریقہ کسی پوسٹ میں لکھ دین تو مجھ سمیت بہت سارے نئے اور پرانے بلاگرز کا بھلا ہو جائے گا ۔
    مشرف کو سزا ہو گی کی نہیں یہ تو جوئے والی بات ہو گی میں کہتا ہوں یہ بھی ایک ڈرامہ ہے قوم کو مصروف رکھنے کا کیوں کہ اس ملک میں سب سے طاقت ور یہ قوم ہی ہے جس کو مصروف رکھ کر ہی یہ حکمران اپنا کا نکال سکتے ہیں ویسے اگر سزا ہو جائے کبھی کسی سال میں تو میں شکرانے کے نفل پڑھوں گا ۔
    ڈاکٹر صاحب پوسٹ لکھنا پڑھوانا تبصرے حاصل کرنا ہی سب کچھ نہیں انکا جواب بھی دینا ضروری ہے۔

  11. بہت شکریہ کامی آپ کا کہ آپ یہاں تشریف لائے، میں نے جو کچھ بھی سیکھا ہے، آپ جیسے “بزرگواران” سے ہی سیکھا ہے۔

    بہت مشکل سوال پوچھا ہے آپ نے ، جواب پوچھ کر بتا دوں گا۔
    ہا ہا

    میرا جواب یہ ہے کہ اسے سزا نہیں ہو گی۔ اس کا تفصیلی جواب ذرا سازشی تھیوری پر مشتمل ہے اور وہ یہ ہے کہ پرویز مشرف کے جانے میں عوام اور وکلا ٕ کی تحریک سے زیادہ ان گارنٹرز کا ہاتھ تھا جنھوں نے انتقال اقتدار کو آسان کر دیا۔

    انھی گارنٹرز میں ایک پاک فوج بھی شامل ہے۔ مثال کے طور پر آپ اعتزاز احسن کی جنرل کیانی سے ملاقات سے پہلے اور بعد میں چیف جسٹس کے بیانات کا لہجہ دیکھ لیں۔
    غالبا آج ہی قمر الزمان کائرہ کا بیان آیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ عدلیہ پرویز مشرف کا احتساب کر سکتی ہے، حکومت نہیں۔ جب کہ حقائق کچھ اور کہتے ہیں، انصار عباسی کی آج یا گزشتہ کل شائع ہونے والی ایک رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ حکومت سزا دے سکتی ہے، مگر دے گی نہیں۔

  12. مشرف کو یہاں سزا نہ بھی ملی تو روزِ آخرت اپنے اعمال کا بدلہ ضرور پائے گا۔ بہت ستایا اور ظلم کیا ہے اس نے مخلوقِ خدا پر۔

  13. او ہو ڈاکٹر صاحب میں اتنا بزرگ نہیں ہوں ابھی تو میں جوان ہوں لگتا ہے مجھے بھی تصویر لگانی پڑے گی ویسے آپ کی تصویر کہاں گئی کہیں قائد کی تصویر والا حشر تو نہیں کیا

  14. سیدھا سا حساب کا سوال ہے۔

    افتخار چوہدری کا دشمن مشرف
    افتخار چوہدری کا پروموٹر نواز شریف
    نوازشریف کا دشمن مشرف
    اقتدار میں شامل نواز شریف و افتخار چوہدری
    اقتدار سے باہر مشرف
    زرداری و شریفوں کو ملک میں لانے والا امریکہ
    تمام معاملات کا ضامن امریکہ

    اوپر دی گئی مساوات کو حل کیجئے اور جواب نکال لیجئے۔

    باقی یہ چیف جسٹس اگر نواز و شہباز و زرداری کے خلاف آئیں کی شق 62 کے تحت از خود کاروائی کرسکتا ہے تو پھر تو عدلیہ آزاد ہے وگرنہ صرف حصے پانی اور ذاتی انتقام کا چکر ہے۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں