Skip to content

کاروان کے دل سے۔۔

یہ جملے میں نے محفل میں محسن حجازی کے مراسلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہے:

 

افغانستان میں طالبان نے جب کنٹرول سنبھالا تو اس کے بعد ہمارے مذہبی سیاستدانوں اور علما ء نے بیانات دینا شروع کیئے کہ شریعت یہان بھی نافذ کی جائے گی۔ جتنا بھی شور و غل یہاں کیا گیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا جو پہلے محتاط تھی ، اب اورخائف ہو گئی۔

وہان جو کچھ بھی ہوا، اس کا اندازہ یہاں گھر بیٹھے کمپیوٹر کے سامنے نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان 1979 سے جنگ کا شکار ہے۔ ہم وہاں کے لوگوں کی سوچ کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ افغانستان 1839 سے گریٹ گیم کا شکار ہے، جب پہلی افغان جنگ ہوئی تھی۔

طالبان یا ظالمان، آپ جو بھی کہ لیں، آج ایک فیصلہ کن طاقت ہیں۔ انھیں کون اور کیوں استعمال کر رہا ہے، اس سے قطع نظر، یہ دیکھنا ہے کہ ان میں مقتدر عہدوں پر فائز لوگوں کی قوت فیصلہ کا انحصار کس چیز پر ہے۔ کیا وہ فیصلہ کرتے وقت پشتون رواج کے مطابق اسلام کو ڈھالتے ہیں یا اسلام کے مطابق پشتون رواج کو؟

یہ بات بھی محل نظر ہونی چاہئے کہ، ہمارے دینی مدرسوں میں زیر تعلیم طلباء کی اکثریت پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ حتی کہ، متوسط طبقہ بھی مدرسے کی تعلیم کو ثانوی درجے پر رکھتا ہے۔ ترجیح عصری علوم کو دی جاتی ہے، کیونکہ بعد میں زندگی کی تمام تر مصروفیات اور ذمہ داریوں کا انحصار عصری تعلیم پر ہوتا ہے۔ اب یہی لوگ، جو عام زندگی میں باقی لوگون سے مقابلہ نہیں کر سکتے، اپنی تمام تر محرومیوں کے ساتھ مدرسے میں زیر تعلیم رہتے ہیں۔ دس یا گیارہ سال کی عمر میں مدرسے میں آ کر، بلوغت کے بعد مدرسے سے نکلتے ہیں۔ اس تمام مدت میں ان کے والدین ان کی تعلیم کا خرچہ نہیں اُٹھا سکتے۔ کھانا مدرسے سے ملتا ہے۔ باقی دنیا سے رابط نہیں۔ باقی دنیا گمراہ ہے، ان سے رابطے میں رہے تو ایمان کمزور ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔

چنانچہ وہ تمام مدت جس میں آئندہ کی عملی زندگی کے خد و کال بنتے ہیں ایک خاص ماحول میں گزرتی ہے۔ مجھے اس پر بھی قطعا اعتراض نہیں ہے۔ یہ تو ایک ماحول میں رہنے کا فطری نتیجہ ہے۔

بات یہ ہے، کہ یہ لوگ ، جن کو اگر معاش کا غم نہ ہو، جن کو اگر اختیار دیا جائے تو، شائد یہ مدرسے نہ جائیں بلکہ ہماری طرح سکولوں کا رخ کریں، ایک خاص قسم کی ذہنیت بنا لیتے ہیں۔ یہ ذہنیت خالصتا مذہبی نہیں ہوتی۔ یہ ایک ملغوبہ ہوتی ہے ان کی معاشرتی سوچ اور مذہبی رجحانات کا۔ اور یہ محلوط ذہنیت نقصان دہ ہوتی ہے۔
یہ لوگ چونکہ عوام الناس میں گھل مل نہیں سکتے، چاہے جو بھی وجوہات ہوں ، لہذا یہ ادراک کر ہی نہیں سکتے کہ کہاں ان کی سوچ اور معاشرے کی سوچ میں تضاد آ گیا ہے، کہاں سے ان کی راہیں جدا ہونا شروع ہوئیں اور اب یہ کہاں پر کھڑے ہیں۔ مذہبی ماحول میں رہنا ان کے لئے افتخار کا باعث بن جاتا ہے، اور ہونا بھی چاہئے۔ کیونکہ چاہے جیسے بھی ہوں ، کم از کم قرآن تو یاد ہوتا ہے ان میں سے اکثر کو۔ بے شک عمل ان کا قرآن کے مطابق نہ ہو۔ ہم میں سے کتنوں کو قرآن یاد ہے؟

بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔۔
تو بات ذہنیت کی ہو رہی تھی۔ اب جب یہ لوگ فارغ التحصیل ہو کر عملی زندگی میں آتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ مثالی حالات کے بارے میں پڑھ رہے تھے۔
استثناء کے بارے میں تو پتہ ہی نہیں ان کو۔ معاشرے میں رائج انھی طور طریقوں سے لا علمی ان سے مذہبی جوش میں ایسے فیصلے کرواتی ہے کہ الامان الحفیظ۔

آپ خود سوچیں ، آپ کے گھر میں‌موجود خطرناک اسلحہ اگر آپ کے بچے کے ہاتھ میں آجائے تو آپ کی کیا حالت ہو گی!!
یہ لوگ، جو بنیادی طور پر مدرسوں میں اس لئے داخل ہوتے ہیں‌کہ ان کے والدین ان کی تعلیم کا خرچ اٹھا نہیں سکتے، بنیادی طور پر مسترد کئے گئے لوگ ہیں۔ ان میں ذہین لوگ بھی ہوں گے، ان میں وہ بھی ہوں گے جو اختیاری طور پر اس طرف آئے، وہ بھی ہیں جن کے باپ دادا کے زامنے سے یہ تعلیم چلی آ رہی ہے، مگر کتنے؟

میں‌کتنوں کو جانتا پوں جو تین تین چار چار مرتبہ ایف ایس سی کے امتحان میں فیل ہوئے، اور پاس ہونے کے بعد بھی جب اچھے نمبر نہیں آئے تو وہ مدرسے کی طرف چل نکلے۔
نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ ہم لوگ فقہی مسائل کو سمجھ نہیں سکتے، ہمیں ان کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے، یہ لوگ اس پس منظر کے ساتھ مسجدوں میں پائے جاتے ہیں ۔ ہم ان کے پاس جاتے ہیں اور ان کا کوئی بھی غلط فیصلہ بہت دور رس نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔

کیا آپ اپنی نئی گاڑی کسی بھی ایرے غیرے مکینک کے پاس لے جائیں گے؟ نہیں؟

ایک مثال کے بعد آپ کا اور وقت نہیں لون گا۔

کراچی میں ایک عالم صاحب نے لڑکیوں کے مدرسوں کے خلاف ایک علمی بحث شروع کی۔ بہت مدلل دلائل دیے۔ اس سے قطع نظر کے میں‌حق میں ہوں یا نہیں، مجھے ان کے انداز بیاں نے متاءثر کیا۔ لوگوں کو اختلاف ہوا۔ جس رسالے میں یہ مضمون قسط وار شائع ہو رہا تھا، اس کے مدیر کو مراسلے ملے، کچھ حق میں کچھ اختلافی۔

انھوں نے فیصلہ کیا کہ جن کو اختلاف ہے، وہ بھی مضمون لکھیں۔ بونیر سے ایک مولانا جو کہ اتفاق سے ایک مدرسۃ البنات کے مہتمم بھی تھے، کا مضمون شائع ہوا اور تین اقساط کے بعد بند ہو گیا۔

موصوف نے پرانی حرکتیں شروع کر دیں تھیں۔ مصنف کی ذات پر الزامات کی بہتات، ان کے مضمون میں کتابت کی غلطیوں کی نشان دہی، جو کہ کمپوزر کی غلطی بھی ہو سکتی تھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کو یہود و ہنود کا ایجنٹ قرار دیا جس کا واحد مقصد مسلمانوں میں قرآن حدیث سے دوری پیدا کرنا تھا۔

حال آنک
ہ، مصنف کا مقصد یہ تھا کہ لڑکیوں کے مدارس کی موجودہ شکل بہت سی خرابیاں چھپائے بیٹھی ہے اور اگر ان کی اصلاح نہ کی گئی تو شائد پھر کبھی موقع نہ ملے۔ موصوف نے دلائل سے ثابت کرنے کوشش کی کہ مدارس جہا ں لڑکیوں کی لئے ٹھہرنے کا بند بست بھی ہے، ہاسٹل کی شکل، میں، زیادہ خرابی کاسبب بن سکتے ہیں۔ مگر بجائے اس کے، کہ دلائل میں بات کی جاتی، اس بات کو اسلام اور کفر کی جنگ بنا دیا گیا۔

خلاصہ یہ کہ : یہ لوگ جتنی خرابی پیدا کر رہے ہیں ، اس میں اسلام، یا مدرسے سے زیادہ ان کی اپنی سوچ کا عمل دخل ہے، جو کہ بد قسمتی سے مدارس کی موجودہ فضا میں بدل نہیں سکتی۔

1996 کی بات ہے، مجھے جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں میں‌نے ایک ہال دیھا جس میں انتظامیہ نے 40 کمپیوٹر لگا رکھے تھے۔ ایک انسٹرکٹر کا بندوبست بھی تھا کہ طالب علم مدرسے کے خرچ پر کمپیوٹر سیکھیں۔ مگر کسی نے دلچسپی نہ لی، کیوں کہ ان کے خیال میں کمپیوٹر استعمال کرنا وقت کا ضیاع تھا اور یہ کہ کفار کی بنائی چیز میں خیر کہاں؟

اس حالت پر افسوس کا اظہار جامعہ کے ترقی پسند استاد کرتے پائے گئے، مگر افسوس

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔۔۔

پس نوشت: یہ دلائل اسلاف کے بارے میں نہیں ہیں جن کی اسلام کے لئے قابل قدر خدمات ہیں اور جن کی محنت کے باعث آج ہم صحیح اور غلط کے درمیان فرق کر سکتے ہیں۔

5 thoughts on “کاروان کے دل سے۔۔”

  1. خورشیدآزاد

    عباسی صاحب مجھے سمجھ نہیں آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔

  2. منیر عباسی

    محترم خورشید صاحب،
    یہ سطور ایسے دھاگے میں لکھی گئیں جہاں جاوید چوہدری کے کالم پر بحث ہو رہی تھی۔ بات چھڑی تھی کہ اب جب کہ ان لوگوں یعنی طالبان کے پاس ایک علاقہ آ چکا ہے، جہاں یہ لوگ اپنی مرضی کا نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں تو اب ان کو سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانا چاہئے۔ اب کوئی بھی غلط قدم ان کے لئے بالخصوص اور ہمارے لئے بالعموم مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔
    تو میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کو شش کی کہ طالبان کا اور ان لوگوں کا ایک عمومی تجزیہ کرتا چلوں جو اس نظا م کے حامی ہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ محفل میں جب بھی کوئی بحث چھڑی ہے، فریقین نے ہمیشہ انتہا پسندی دکھائی ہے۔ حامی لوگوں نے اگر ان کی کسی بشری کمزوری کے امکان کو مسترد کیا تو مخالفین نے ان سے کسی بھی قسم کی اچھائی کی امید نہ رکھی۔ دونوں انتہائیں ہمارے لئے نقصان دہ ہیں۔
    ہمیں اس بات کو مد نظر رکھنا ہو گا کہ ۱۸۵۷ کے غدر کے بعد، جسے ہم جنگ آ زادی بھی کہتے ہیں، ہندوستان کے مسلمانوں کی اشرافیہ جو کہ کسی بھی قسم کے حالات میں اس قوم کی رہنمائی کر سکتی تھی ، کو بالکل تباہ کر دیا گیا تھا۔ اب ان حالات میں علما ہی تھے جنھوں نے کسی نہ کسی شکل میں مسلمانوں کے وجود کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کی۔
    اگر ہم جذباتیت کا مظاہرہ کریں تو پھر ہمیں طالبان کی دشمنی میں اس حد تک آ گے جانا چاہئے کہ ان بزرگوں کی محنت کو بھی قابل نفرت قرار دے دیں۔ اور دُوسری جانب ان کی محبت میں طالبان کے ہر برے کام کا بھی جواز کسی نہ کسی شکل میں کہیں سے فراہم کر دینا چاہئے۔
    میں چاہتا ہوں کہ لوگ اس تحریک کو معاشرتی تناظر میں بھی دیکھیں۔ اکثریت جس پس منظر سے تعلق رکھتی ہے، میں نے کوشش کی کہ اس کو مختصر طور پر بیان کر دوں، اور بتانے کی کوشش کروں کہ اگر اب اس تحریک کی باگیں ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جو کہ جاہل ہیں اور جن کو سمجھ بوجھ دور سے بھی چھو کر نہیں گزری تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تمام لوگ بُرے ہیں جو مذہب سے لگاؤ رکھتے ہیں یا، جو شریعت پر مبنی ایک نظام کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔

  3. خورشیدآزاد

    عباسی صاحب تفصیلی جواب کا شکریہ۔

    طالبان کا مسلہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کو اپنے پشتون راوایات سے گڈمڈ کردیا ہے اور اب یہ پشتون اسلام کو دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں جو کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتا۔

  4. DuFFeR - ڈفر

    واہ جی واہ کیا کہنے
    پہلے ماڈرن اسلام آیا تھا
    اب پشتوں اسلام آ گیا
    کل کو صوفی اسلام آئے گا
    اور پھر محسود اسلام
    ایک کے بعد ایک نیا اسلام کا ورژن
    اتنی جلدی تو انٹیل کا نیا ماڈل بھی نہیں آتا
    🙂
    (سر جی اگر یہ ورڈ ویریفیکیشن کا سسٹم ختم کر دیں تو تبصرے میں مزید آسانی پہو جائے)

  5. منیر عباسی

    ڈفر بھیا،

    صوفی اسلام تو کب کا آچکا۔
    لعل شہباز قلندر، سچل سرمست، فرید الدین گنج شکر اور دوسرے صوفیا تو کب کے وفات بھی پا چکے۔

    اب توبس کسی نئے اور اچھوتے ورژن کا انتظار کیجیئے۔

    رہ گئی بات ویریفیکیشن سسٹم کی، تو سپیمرز سے بچنے کا یہی ایک طریقہ میرے ذہن میں آیا تھا۔

    امید ہے زحمت نظر انداز کر دی جائے گی۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں