Skip to content

ڈرامے کی اگلی قسط آنے والی ہے

گزشتہ کچھ دنوں میں بہت اہم واقعات ہوئے ہیں اور ان واقعات کے نتائج اس خطے کے مستقبل پر بہت گہرا اثر ڈالیں گے۔

کراچی میں ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم ایک عدد خودکش دھماکے میں ہلاک ہو گئے۔ کافی وقت تو تو متضاد رپورٹس آتی تہیں، ایک عدد ٹیکسی ڈرائیور کے مطابق یہ دھماکہ ایک عدد سوزوکی کیری کے پھٹنے سے ہوا جو وہیں قریب ہی جیک پر کھڑی کی گئی تھی۔

کچھ پولیس افسران نے کہا کہ یہ خود کش دھماکہ تھا، ایک عدد ہاتھ ملا اور حسب معمول ایک ایسے خاندان تک پولیس پہنچ گئی جس کو ہم ” یوژول سسپیکٹس” والی کہانی کہہ سکتے ہیں۔

کہیں کسی جگہ سے غلغلہ بلند ہوا کہ طالبان نے ذمہ داری قبول کر لی اور پورے ملک کے میڈیا، سوشل میڈیا اور جو جو شخص اظہار خیال کر سکتا تھا ، ظالمان پر نفرین کے ڈونگرے برسانے لگا۔

کل کا دن ذرا بھاری تھا۔ ضلع مانسہرہ میں تھاکوٹ کے مقام پر، بلکہ دریا پار تو شانگلہ ضلع ہے، دو عدد ریموٹ کنٹرول دھماکے ہوئے۔ جتنا مجھے علم ہوا، پولیس ہی ان دھماکوں کا ٹارگٹ تھی۔ اور دونوں دھماکوں میں پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔

اس سے قبل انجینئر امیر مقام کے قافلے کو بھی ریموٹ کنٹرل بم سے نشانہ بنایا گیا اور اُس سانحے میں کئی افراد ہلاک بھی ہوئے۔

اس کے ساتھ ساتھ کل پشاور کے سخی چشمہ تبلیغی مرکز میں ایک بم پھٹا اور 10 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تین چار اور بم ملے جو کہ ناکارہ بنا دئے گئے اور نوشہرہ میں بھی تبلیغی مرکز کے بہر ایک بم ملا جو کہ پھٹنے سے پہلے ناکارہ کر دیا گیا۔

تبلیغی مرکز والے دھماکوں سے تو ٹی ٹی پی نے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے مگر تھاکوٹ والے واقعات کو قبول کیا ہے۔

حسب معمول، انٹرنیٹ اور دوسرے میڈیا پر ایک عدد لہر چل پڑی ہے۔ اور یہ لہر چوہدری اسلم کی ہلاکت کے بعد زیادہ شدت سے نمودار ہوئی تھی۔

چوہدری اسلم ایک تنخواہ دار پولیس افسر تھے۔ ان کو حکومت نے ان کی خدمات کے عوض تنخوا اور دیگر مراعات بھی دی تھیں جو کہ وہ کسی دوسرے پولیس افسر کی طرح وصول کرتے رہے۔

اس ملک میں ایسے کتنے پولیس افسر ہوں گے جو اے ایس آئی بھرتی ہوں، ایس ایس پی تک جا پہنچیں اور ایک مہنگے علاقے میں رہائیش خریدنے کی استطاعت بھی رکھتے ہوں۔

مرحوم کو بہت گلیمرائز کیا گیا۔ اب جب کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں، ان کا معامل اللہ تعالیٰ کی ذات کے پاس ہے، وہ چاہے تو مرحوم کو بخش دے، وہ نہ چاہے تو کون اُس کو مجبور کر سکتا ہے۔

بہر حال مجھے چوہدری اسلم کی ہلاکت کے بعد ان کی ہلاکت کو اس طرح پبلی سائز کرنا بہت عجیب لگا۔ وہ اس ملک کے پہلے پولیس افسر نہیں تھے جو قانون شکن عناصر یا ملک دشمن گروہوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے ہوں۔

ان سے پہلے، ہمارے صوبہ میں جناب صفوت غیور، جناب ملک سعد، جناب عابد علی اور اسی طرح دوسرے پولیس اہلکار جیسے اجمیر شاہ اور ہلال حیدر شامل ہیں باقی صوبوں میں بھی ہلاک ہوئے۔ کسی کی ہلاکت پر کسی ارمی چیف نے گلدستہ نہیں بھیجا۔ میرے خیال میں اگر بھیجنا چاہئے تھا تو پہلے مستحق تو ایف سی کے کمانڈنٹ صفوت غیور شہید تھے، کسی نے پوچھا تک نہیں۔ بنوں کے مرحوم آئی جی، عابد علی جن کا بنیادی تعلق فیصل آباد سے تھا، بڑے نڈر انسان تھے، وہ بھی کسی فون کال کو سن کر پشاور میٹنگ کے لئے آ رہے تھے کہ کوہاٹ کے آس پاس ایک ایمبش میں جان جان آفرین کے سپرد کر گئے۔ کسی نے پوچھا تک نہیں اور ایک متنازعہ پولیس آفیسر کو گلیمرائز کیا گیا جو کہ ماورائے عدالت قتل کے سلسلے میں کافی بد نام تھا۔ یہ سب چیزیں سوچنے کے لئے کافی تھیں، مگر بد قسمتی سے جس کسی نے ان نکات کو اٹھایا، اس کا طالبان کا حامی قرار دے کر اس کی بات کی ان سُنی کر دی گئی۔

ظاہر ہے، ہمارے معاشرے کی پولائریزیشن ہی ایسی ہے کہ جو آپ کی بات سے متفق نہیں وہ خامخا آپ کے دشمن کا حامی ہوگا۔

یہ سب باتیں ایک طرف۔ یہ سب واقعات اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اب کچھ ہونے والا ہے۔ شائد حکومت بھی مذاکرات مذاکرات کے کھیل سے اکتا چکی ہے اور اب شائد فوج کچھ کرنا چاہے۔ شائد اب ایک دو واقعت کچھ ایسے ہو ہی جائیں کہ جن کے نتیجے میں حکومت اور فوج پر “عوامی دباؤ” اتنا شدید ہوجائے کہ حکومت کو اپنے عوام کی :حفاظت” کی خاطر مذاکرات کو ایک طرف رکھنا پڑے۔

مجھے لگتا ہے کہ کسی عملی قدم کے سلسلے میں یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے تاکہ رائے عامہ ہموار ہو سکے اور حکومت کو کسی طرف سے مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ڈرامے کی اگلی قسط آنے والی ہے۔

جمیعت علمائے اسلام فضل کو کابینہ میں شامل کرنا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہو سکتا ہے۔ پھر دو ہی شودر رہ جائیں گے اس ملک میں۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی اور باقی پورے ملک کے دانشور حضرات مل کر ان دونوں شودروں پہ تھو تھو کریں گے۔

رہے نام اللہ کا۔

پس نوشت: جو مجھے جانتے ہیں وہ اس سب کچھ کو، جو کہ میں نے لکھا ہے، کانسپیریسی تھہوری سمجھ کر پڑھیں گے۔ ہامری حکومت واقعی اس سارے معاملے میں کوئی ڈبل گیم نہیں کھیل رہی۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں