Skip to content

پاولو کے کتے اور ریسرچ

اس بات کو بہت وقت گزر گیا، میرے ایک دوست کاشف نے جسے غیر تدریسی کتب پڑھنے کا شوق تھا مجھے سائیکالوجی اور اس قبیل کے موضوعات سے متعارف کرایا۔ ایک ایسا انسان جس نے غیر تدریسی کتب کے زمرے میں عمران سیریز، نسیم حجازی کے ناول اور فردوس بریں وغیرہ پڑھ رکھے تھے یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ سائیکالوجی کی کچھ کتب لائیبریری سے نکلوائیں تو مجھے اندازہ ہوا کہ سوشل سائیکالوجی کا مطالعہ مجھے پسند ہے۔ بہر حال اس دوران اور بھی بہت سی کتب آتی گئیں اور میں سمجھے بغیر ان کو پڑھتا چلا گیا۔

اسی دوران کاشف نے مجھے ایبنارمل سائیکالوجی نام کی ایک کتاب دی۔ یہ سائیکاٹرک موضوعات پر زیادہ مرتکز تھی۔ بہر حال، اس کو بھی میں پڑھتا چلا گیا۔

اس کتاب میں کچھ دلچسپ واقعات درج تھے۔ جس جس طرح نفسیاتی عوارض کے علاج میں تبدیلیاں آتی گئیں، وہ تاریخ بہت دلچسپ ہے۔ کسی زمانے میں ان عوارض کا علاج دماغی آپریشن کر کے کیا جاتا تھا۔ جن قارئین نے فلم شٹر آئیلینڈ دیکھ رکھی ہے ان کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ دواوں کے متعارف ہونے سے پہلے نفسیاتی مریضوں کے ساتھ کس قسم کا رویہ رکھا جاتا تھا۔

بہر حال، یہ ان دنوں کی بات ہے کہ ایک معالج کو یہ بات سوجھی کہ کیوں نہ آپریشن کی جگہ شیزو فرینیا کے مریضوں کو سائیکو اینالیسس کے ذریعے صحت یابی کی طرف لایا جائے۔ اس نے ایک عدد پروگرام کا آغاز کیا جس میں مریضوں کے رویے اور ان کے شعور کی تربییت کر کے ان کو احساس دلایا جاتا تھا کہ وہ غلط سوچ رہے ہیں اور درست سوچ کی طرف ان کو متوجہ کیا جاتا تھا۔ اس پروگرام کے مثبت نتائج نے سب کو حیران کر دیا۔ اور اس زمانے میں، غالبا یہ پچاس کی دہائی کی بات ہے، اس معالج کے طریقے کی دھوم مچ گئی۔

پروگرام کی ایک جھلک یوں ملاحظہ کیجئے کہ شیزوفرینیا کے مریضوں کو سگریٹس کی بہت طلب ہوتی ہے، چنانچہ وہ مریض جو کہ شیزوفرینیا میں مبتلا تھے یا وہ تمام نفسیاتی مریض جن میں حقیقت کا ادراک متاثر ہوا تھا ان کو سگریٹ کی سپلائی اس وقت تک معطل رہتی تھی جب تک وہ یہ بات تسلیم نہ کر لیتے کہ وہ غلط کہہ رہے ہیں اور معالج درست کہہ رہا ہے۔

اس طریقے سے بہت سے مریض “درست طرز” پر سوچنے اور عمل کرتے نظر آنے لگے۔ ظاہر ہے اس بات کی دھوم تو مچنی تھی۔ ایک اور ڈاکٹر صاحب کو یہ بات ہضم نہ ہوئی اور وہ ایک ایسے پاگل خانے میں جا داخل ہوئے جس میں یہ پروگرام نافذ تھا۔

وہیں انھوں نے اس پروگرام کے شرکاء سے واقفیت بنائی ۔ ایک شریک کو یہ خلل تھا کہ وہ ریاست ہائے متحدہ کی حکومت ہے۔ وہ بات بات میں اپنے لئے جمع کا صیغہ استعمال کرتا تھا یعنی “ہم تمھیں جیل میں ڈال دیں گے، تمھاری تنخواہ بند کرادیں گے وغیرہ وغیرہ۔”

اس کے علاج کے لئے بہت کوششیں کی گئی تھیں مگر وہ ناکام ہوئیں۔ جب اس کو اس پروگرام میں ڈالا گیا تو وہ حیران کن طور پر درست ہوگیا اور اس نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ وہ ریاست ہائے متحدہ کی حکومت نہیں بلکہ جان (جوکچھ بھی اسکا نام تھا ) تھا۔ اور یہ کہ وہ ایک مریض تھا اور اس کو علاج کی ضرورت تھی۔ ظاہر ہے یہ ایک حیران کن بات تھی اور اسی بات کی تحقیق کے لئے یہ ڈاکٹر صاحب وہاں پاگل بن کر داخل ہوئے۔

انھوں نے اسی مریض کے ساتھ دوستی گانٹھی اور رفتہ رفتہ بے تکلف ہو گئے۔ ایک دن انھوں نے اس مریض سے پوچھ ہی لیا کہ کیا واقعی وہ سمجھتا ہے کہ اسے علاج کی ضرورت ہے؟ اس پر اُس مریض نے ان کو بتایا کہ دراصل اس کو سگریٹس کی طلب رہتی ہے اور اگر وہ حکام کو وہ کچھ نہ بتائے جو وہ سننا چاہتے ہیں تو اس کو سگرٹ نہ ملیں۔ ورنہ وہ ریاست ہائے متحدہ کی حکومت ہے اور وقت آنے پر ان سب کو سزا دے گا۔

ظاہر ہے یہ ایک چونکا دینے والا انکشاف تھا۔ وہ ڈاکٹر صاحب پاگل خانے سے نکلے اور انھوں نے اس پر ایک رپورٹ لکھی۔ مزید تحقیق کے بعداور ثبوت ملے جنھوں نے بیہےویورل طریقہ علاج کو ناکام قرار دیا۔

پاولو کے کتوں کے بارے میں تقریبا ہر سائنس کا طالب علم جانتا ہے۔ پاولو نے ان کی کنڈیشننگ کی اور ان سے جو نتائج اخذ کئے، وہ مجھے متذکرہ بالا تجربہ میں محرک نظر آئے۔

اب میں دیکھتا ہوں تو لگتا ہے ہمارے اکثر رویے اسی طرح ہوتے ہیں۔ “اگر ہم فلاں کام نہ کریں تو ہمیں فلاں نتیجہ نہ ملے” ۔ یہ نتیجہ کسی کا اظہار پسندیدگی بھی ہوسکتا ہے، کسی من پسند عنصر کا حصول یا کچھ اور۔

ہمارے ہاں تدریسی ماحول میں تدریس اور ریسرچ کو دلچسپ بنانے کے لئے بہت سے اصول و قواعد وضع کئے گئے ہیں۔ در حقیقت ان کا مقصد جو کچھ بھی ہو، ان ضوابط کو ترقی کی سیڑھی پر چڑھنے کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ “اگر ہم وہ کام نہ کریں تو ہماری ترقی نہ ہو”۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ پاولو کے کتے صرف وہ کام شو کرتے ہیں۔ ریسرچ ورک میں نام شامل کروانے کی دوڑ لگی ہوتی ہے۔ فرسٹ آتھر، سیکنڈ آتھر،تھرڈ آتھر وغیرہ کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ سب کو علم ہے کہ اگر نام شو کردیا گیا تو ترقی ہوجانی ہے، کسی نے نہیں پوچھنا کہ بھائی آپ کی ریسرچ کا ملک و قوم کو کیا فائدہ ہونا ہے۔  جو بابو سلیکشن و پروموشن بورڈز میں بیٹھے ہوتے ہیں وہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ ریسرچ کیسی ہوئی ہے، کیا یہ کو متعلقہ سپیشلٹی سے تعلق رکھتی ہے ؟ اور کیا یہ محض خانہ پری کے لئے تو نہیں کی گئی؟ دوسری طرف یونیورسٹیوں کو ریسرچ کے نام پر کچھ گرانٹ نہیں ملتی۔ اور اکثر ریسرچرز صرف اخراجات کے ڈرسے ریسرچ نہیں کر پاتے۔پھر اس ماحول میں وہی ہوتا ہے، پانی سے گاڑی چلانے والے سائنسدان سامنے آتے ہیں اور مجمع تالیاں بجانے لگ جاتا ہے۔

 

دریں اثناء، پاولو کے کتے اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں۔

6 thoughts on “پاولو کے کتے اور ریسرچ”

  1. مجھے علمِ نفسیات کا مطالعہ کرنے کا شوق انجنیئرنگ کالج لاہور فرسٹ ایئر میں ایک ہم جماعت جو جلد ہی میرا دوست بن گیا تھا کی وجہ سے ہوا کیونکہ وہ نفسیات کا مطالعہ کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ اُس کے ساتھ کوئی بحث اور تبادلہ خیال کرنے والا ہو جس کیلئے اُس نے پورے ہوسٹل میں سے مجھے چُنا تھا ۔ مطالعہ کے ساتھ ساتھ ہم دونوں دوسروں پر عملی تجربات بھی کرنے لگے اور بعض اوقات ہم ایک دوسرے کو بھی تختہ مشق بنا ڈالتے تھے ۔ ملازمت کے دوران منیجمنٹ میں اس علم اور تجربہ نے مجھے بہت فائدہ پہنچایا ۔ دوسرے لوگ اب تک مجھے پہچاننے میں دھوکہ کھا جاتے ہیں ۔ نفسیاتی مریضوں کا علاج کافی محنت طلب ہے اور اس کیلئے کسی طرح مریض کے دل میں اپنی دوستی کا احساس پیدا کرنا ضروری ہوتاہے۔ میں تو پاگل آدمی رہا ہوں نفسیات کے ساتھ ساتھ کئی اور خُشک مضامین پڑھتا رہا ہوں

  2. بہت اعلیٰ ۔۔۔ ایک عرصہ کے بعد عمدہ چیز پڑھنے کو ملی ہے۔
    ہمارا نظام تعلیم یا کوئی سا بھی نظام پرفارمنس بیسڈ نہیں ہے اور نا ہی رزلٹ اورینٹڈ ہے ۔ یہ صرف مکھی پر مکھی بٹھانے کے کام آتا ہے۔ اردو ٹیکسٹ بک بورڈ سے متعلق ایک ماہر تعلیم سے میں نے یہی بات کہی اور یہ تجویز دی کہ آپ اردو کے پچھتر فیصد نمبروں کو درسی کتب اور پچیس فیصد نمبروں کو اسکی غیر نصابی اور ادبی کتب پر دسترس سے مشروط کردیجیے۔ جسے انہوں نے یکسر مسترد کردیا وجہ یہی دی کہ ہمارا نظام ابھی اتنا صاف ستھرا نہیں ہوا کہ اس قسم کے تجربات کا فروغ دیا جاسکے۔۔

    1. میرا خیال ہے کہ جہاں کہیں بھی کوالٹی کنٹرول کا یہ طریقہ اپنایا گیا ہے وہاں ایسے مسائل ضرور پیدا ہوئے ہیں۔
      امتحانات اصل ہونے چاہئیں، ڈگریاں نہیں۔ ہمارے ہاں ڈگریوں کو اصل سمجھ لیا گیا ہے۔
      میں اس سے پہلے بھی اسی بات پر تنقید کر چکا ہوں اور وہ پیرایہ وفاق المدارس کے تحت ہونے والے امتحانات کا تھا۔ وہاں بھی اب خلاصے، گیس پیپرز اور امتحانی سوالات، حل شدہ ہوں یا غیر حل شدہ، کے مجموعے اب نظر آنے لگے ہیں۔ خود میرے ایک کزن نے طلبہ کی سہولت کے لئے ایک عربی شاعری کے دیوان کا خلاصہ لکھا تھا۔

      کوالٹی کنٹرول کا یہ طریقہ مضمرات لئے ہوئے ہے اور ہمیں کوئی اور طریقہ دھونڈنا ہوگا ورنہ ہمارے آس پاس پڑھے لکھے جاہلوں کی اکثریت ہوگی۔ ڈگری والے جاہل۔

  3. برادرم محمد بلال خان کے توجہ دلانے پر آپ کے بلاگ پر آنے کا موقع ملا۔ بلاشبہ ایک معیاری تحریرپڑھنے کو ملی
    اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ

  4. بہت خوب، نفسیات کے بارے میں ایک عمدہ تحریر پڑھنے کو ملی، ہمارے روئیے ہمارے ذہنی عمل کی عکاسی کرتے ہیں۔
    نفسیات کے بارے میں مزید پڑھنا یقیناََ اچھا لگے گا
    سدا خوش رہیں۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں