Skip to content

نظر ثانی

وہ کافی دیر سے یہاں کھڑا تھا۔ وہ پچھلے ایک ماہ سے کسی موزون مقام کی تلاش میں تھا جہاں اس کو کوئی پہچان نہ سکے۔اور آج اپنی کامیاب کوششوں کے باعث اب وہ اس مقام پر کھڑا اپنے آپ کو داد دے رہا تھا۔

پہچانے جانے کا مسئلہ تو بعد کی بات تھی۔ اصل وجہ یہ تھی کہ اُس کو کسی کی مداخلت پسند نہ تھی۔ اور یہ کام جس کو پایہ ء تکمیل تک پہنچانا ضروری تھا ، کسی کی مداخلت کے بغیر کرنا ضروری تھا۔ اس نے ایک مرتبہ پھر دائیں کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھا۔ گھڑی کی بڑی سوئی کا سفر ایک دائرے میں اُسی طرح جاری تھا جس طرح روز مرہ کا معمول تھا۔ گھڑی کی چھوٹی سوئی کا سفر بڑی سوئی کی مشقت پر منحصر تھا۔ کچھ ہی دیر میں وہ ساعت آ جانی تھی جس کے لئے اس نے اتنا کشٹ اٹھایا تھا ۔ اس نے اپنے موبائل فون کو نکالا۔ میسجنگ کی ڈائرکٹری میں جا کر شیڈولڈ میسجز پر ایک نظر ڈالی۔ مرسل الیہان کی فہرست میں شامل ناموں کو دوبارہ غور سے دیکھا اورایک توقف کے بعد ایک نام مٹانے کے بعد اس کی جگہ ایک اور نام کا اضافہ کر دیا۔ شیڈولڈ پیغام کےارسال کے وقت اور تاریخ کو ایک مرتبہ پھر دیکھا اور تسلی کرنے کے بعد اپنا موبائل فون جیب میں ڈال دیا۔

اس کے جسم پر موجود لباس کسی خاص طبقے کی نشاندہی نہیں کر رہا تھا۔ ایک عدد آسمانی رنگ کی ٹی شرٹ اور سفید رنگ کی ٹراوزر گو کہ اس کے جسم پر بھلی لگ رہی تھیں مگر موسم کی خنکی کا مقابلہ نہ کر پارہی تھیں جس کی وجہ سے اسے بار بار اپنے ہاتھ رگڑنے یا اپنی بغل میں دے رکھنے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے ایک مرتبہ پھر ادھر اُدھر دیکھا اور یہ تسلی کرنے کے بعد کہ کسی کی توجہ اس کی طرف مبذول نہیں ہوئی سامنے کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کی پوری کوشش تھی کہ وہ نیچے اپنے قدموں کی طرف نہ دیکھے۔

اُس کی سوچیں اس بار اس ای میل کی طرف چلی گئیں جو اس کے کمپیوٹر میں ڈرافٹ کی صورت میں موجود تھی اور موبائل کے میسجز کی طرح ایک معین وقت پر بھیج دی جانی تھی۔ٹیکنالوجی نے یہ سب کچھ کتنا آسان کر دیا ہے، اس نے سوچا۔ اگر ٹیکنالوجی نہ ہوتی تو اس کو یہ سب کرنے کے لئے کئی خطوط لکھنے پڑتے۔ پھر ان کو پوسٹ کرنا پڑتا اور جب ان خطوط کو ارسال کرنے وہ ڈاکخانے جاتا تو شائد سب اس کو پاگل ہی سمجھتے۔ پاگل ٹھہرائے جانے کے خیال کے ساتھ ہی اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آ گئی۔ گزشتہ کئی دنوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ اس کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ آئی ہو۔

پاگل کیوں نہ ٹھہرایا جاتا، اس دور میں جب کہ سب کچھ کمپیوٹر اور موبائل پر منتقل ہو چکا تھا، کون خط لکھنے اور پھر ڈاکخانے جا کر رجسٹری کرنے کا بکھیڑا مول لیتا ہے، سوائے، آف کورس، پاگلوں کے۔ اتنے زیادہ خطوط تو اُ س کو شائد مشتبہ بھی قرار دلوا دیتے اور اگر پوسٹ ماسٹر یا ڈاکخانے کا کوئی متجسس اہلکار کسی بھی ایک خط کو کھول دیتا تو اس کا سارے کا سارا منصوبہ برباد ہو جاتا۔نہیں اس نے سر بے اختیار نفی میں ہلایا۔ میں ایسا کیسے ہونے دے سکتا تھا۔

پھر ڈاکخانے کا نظام بے اعتبار بھی تو ہے۔ کون جانے وقت سے پہلے کسی کو خط مل جائے۔ یا وقت کے بعد ملے؟ وقت کے بعد کی تو خیر تھی، مگر وقت سے پہلے ہی کسی کو خط ارسال ہوجانے کا خیال ایک روح فرسا خیال تھا۔

نو رسک۔ اس نے ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو ایک اچھے پلان پر مبارکباد دی۔

ایک دم اُس کی جیب سے الارم کی ٹون سنائی دی تو وہ خیالوں کی دنیا سے باہر آ گیا۔ اس نے موبائل نکالا، پیغام ارسال ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ڈرافٹ فولڈر سے ای میل اب بھیجی جانے والی ای میلز کے فولڈر میں منتقل ہو رہی تھی۔ ہر لحاظ سے بے داغ منصوبے پر عمل درآمد کا آخری مرحلہ اب شروع ہونے والا تھا۔ اپنے ماتھے پہر آئی پسینے کی چند بوندیں صاف کرنے کے بعد اس نے دل کی اچانک بے ترتیب ہوتی دھڑکنوں کو نظر انداز کرتے ہوئے قدم بڑھا دیا۔

وہ ایک خلا میں گر رہا رھا۔

اس کے دل میں اچانک ایک خواہش ابھری ،کاش میں واپس جا سکتا۔ “۔

اس نے ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کی، مگر کچھ نظر نہ آیا۔ اندھیرا کافی ہو چکا تھا۔ ہاتھ پاوں مارنے کی کوشش کی مگر اس کے ہاتھ پاوں بہت بھاری ہوچکے تھے۔ وہ ہلا نہ پا رہا تھا۔ اُس کے ذہن میں سب سے چھوٹی بیٹی کی شبیہ ابھر آئی۔ گھر لوٹ آنے پر جب وہ دوڑ کر پاپا کی ٹانگوں سے لپٹ جاتی تو کتنی خوشی محسوس ہوتی تھی۔ بیٹی کو اس بات کی ذرہ برابر پرواہ نہ ہوتی تھی کہ پاپا اس کے لئے کچھ لائے ہیں یا نہیں،بس وہ پاپا کے آمد پر ہی خوش ہو جاتی تھی۔ اُسے احساس ہوا کہ واقعی وہ لمحات ایسےتھے جب وہ بہت ریلیکس محسوس کرتا تھا۔ اس کے سر پر سے سارے بوجھ اتر جایا کرتے تھے۔

اچانک ایک آواز آئی، ظفر بیٹا یہ کیا کر رہے ہو؟

اس نے چونک کر دیکھا تو شاہد انکل کھڑے تھے۔ گلی میں سامنے کے رخ پر بائیں ہاتھ کی سمت چھے گھر چھوڑ کر ان کا چار مرلے کا مکان تھا اور وہ سب سے زیادہ خوش رہنے والے خاندان کے سربراہ تھے۔ اُسے کوئی بھی مسئلہ ہوتا تو شاہد انکل کی تسلیاں اور ان کا تجویز کردہ حل اس کے لئے مشکل سے نجات کا باعث بن جاتیں۔ اُس نے شاہد انکل کو جواب دینے کی کوشش کی مگر منہ سے لفظ نہ نکل پائے۔ اور وہ آگے نکل گیا۔

اب اس کے سامنے ایک پارک کا منظر تھا، اس پارک میں وہ اپنے بچوں کو کئی مرتبہ لے کر آیا تھا اور پھر خود ایک بنچ پر بیٹھ کر اپنے بچوں کو کھیلتا دیکھتا رہتا تھا۔ اس کو احساس ہوا کہ جب بھی اس نے اچھی نیند کی، اس دن وہ بچوں سمیت پارک آیا تھا۔ مگر یہ تو گنے چنے مواقع تھے!۔ ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکنے والے مواقع ۔

اس نے ایک دم سےاپنے قدم پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا۔ ” نہیں میں یہ سب نہیں ہونے دوں گا۔ میں نے ایک غلط فیصلہ کیا ہے اور میں اس فیصلے کو پلٹ سکتا ہوں۔ اپنا اٹھا ہوا قدم واپس لے سکتا ہوں۔ مجھے اپنی بیٹی کے پاس جانا ہے، وہ میرے غلط فیصلے کے مضر نتائج کیوں بھگتے؟”۔ اس نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا جو کہ تیزی سے دور ہوتا جا رہا تھا۔اس کےبازو تیزی سے شل ہوتے جا رہے تھے، اس کے حلق سے ایک چیخ نکلی اور پھر وہ ہوش و حواس سے بے گانہ ہوگیا۔

——

اگلے دن کے اخبار کے آخری صفحے پر ایک چار سطری خبر کچھ اس طرح سے شائع ہوئی کہ مقامی حکومت کے دفتر میں ملازم ایک کلرک نے ذہنی دباو سے تنگ آکر شہر کی سب سے اونچی عمارت سے چھلانگ لگا دی۔ متوفی موقع پر ہی ہلاک ہو گیا تھا۔

2 thoughts on “نظر ثانی”

  1. ” مایوسی گناہ ہے “۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے ۔ خود کُشی بھی گناہ ہے ۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے ۔
    اگر اللہ سُبحانُہُ کا سہارا نہ ہوتا اور میں مر کے زندہ ہوتا رہتا تو تین بار تو خود کُشی کر چکا ہوتا

  2. ہمارا اس تحریر پر یہی شکوہ نما تبصرہ ہے کہ آپ کم لکھتے ہیں-

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں