Skip to content

نظریاتی تقسیم

روزنامہ دی نیوز میں شائع ہونےوالا ایاز امیر کا یہ کالم پڑھا تو اندازہ ہوا کہ جو ڈر مجھے ہے وہ اتنا بے بنیاد بھی نہیں۔ اس ملک میں نظریاتی تقسیم کی جو دراڑ بنی ہے وہ اب دن بہ دن ایک خلیج کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یہ خلیج پاٹی جا سکے گی بھی یا نہیں، یہ کہنا ابھی تو قبل از وقت ہی ہوگا۔ مگر اس خلیج کا ختم ہونا منحصر ہے فریقین کی ہٹ دھرمی پر۔ جتنا جلدی یہ دونوں فریق اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ دیں اتنا ہی ملک کے لئے اچھا ہے۔ ورنہ اس ملک میں غیر جانبدار لوگوں کا رہنا ناممکن ہو جائے گا۔

دائیں بازو والے خیالات کے لوگ جو کہ متشدد نہیں، اُن پر بھی اتنی بے جا تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ انتہائی مؤقف اپنانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یہی صورت حال بائیں بازو والے لوگوں کی ہے۔ معتدل یا نیم معدتل لوگوں پر فورا ہی لبرل سیکولر فاشسٹ کا لیبل لگا کر ان کو بالآخر فاشسٹوں کے کیمپ میں جانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ دونوں طرف کے دانشور فریق مخالف کو مکمل نیست نابود کرنے کے مطالبے کر رہے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک مکمل امن فریق مخالف کی مکمل تباہی کے بعد ہی قائم ہو سکتا ہے۔

یہ صورت حال بہت مخدوش ہے۔ آپ اور میرے جیسے غیر جانبدار یا معتدل سوچ کے حامیوں کو آج یا کل کسی ایک بازو کا انتخاب کرنا ہوگا۔ دونوں طرف تباہی ہے۔ نجات کسی طرف بھی نہیں۔ فتنوں کے اس دور میں شائد پہاڑوں پر چلے جانا ہی نجات کی ضمانت ہو، مگر ، جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں، ہر کوئی اصحاب کہف نہیں ہوتا۔

ملک میں یہ نظریاتی تقسیم ہمارے قائدین کے اعمال کا نتیجہ ہے۔ ہم ایک طرف تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، جسے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے بتائے گئے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنی ہے اور دوسری طرف ہمارا سیکولر آئین ہے جو کہ ایسے اقدامات کی مکمل حمایت کرتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے کھلی جنگ کےاعلان کہلائے جا سکتے ہیں۔ جیسا کہ مروجہ بینکینگ سسٹم۔ یہ سود پر مبنی ہے اور جیسا کہ اپ جانتے ہوں گے، وفاقی شریعت عدالت کے سود کو حرام یا ناجائز ٹھہرائے جانے کے فیصلے کے خلاف اور کوئی نہیں، حکومت وقت نے ہی سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی اور سپریم کورٹ نے ہی وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ ختم کر دیا تھا۔

یہ کیسا مسلمان ملک ہے جہاں شرعی قسم کے فیصلے ایک سیکولر عدالت ختم کر دیتی ہے اور کروڑوں مسلمانوں میں سے کسی ایک کے بھی کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ شائد اس لئے کہ سب گنجے ہیں۔۔۔

آپ اپنی زندگی میں کسی اور ضابطہ حیات پر عمل پیرا پوں، اور وہ دوسرے ضوابط حیات کے بر عکس ایک مکمل قسم کا ضابطہ بھی ہو جو کہ زندگی کے تمام تر پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہو تو آپ کیسے کچھ معاملات میں دوسری رائے اختیار کریں گے۔

اگر اپ اللہ اور رسول ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں تو ایک لمحہ کو ٹھہر کر آپ کو سوچنا ہوگا کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ اور آپ واقعی سوچیں گے بھی۔ یہی ایک لمھے کی سوچ اپ کو آپ کے مقام کا احساس دلائے گی اور آپ پھر اپنے ارد گرد پھیلی معاشرتی افراتفری کو دیکھ کر پریشان ہو جائیں گے۔ آپ فیصلہ نہیں کر پائیں گے کہ آپ کو کس طرف جانا ہے۔ انتہائی دائیں بازو والے آپ کے نقطہ نظر سے متفق نہ ہوں گے اور جیسے ہی آپ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا نام لے کر کوئی حوالہ دیں گے، آپ پر وطن سے غداری، طابان ، ظالمان اور نہ جانے کیسے کیسے الزامات لگ جائیں گے۔

ایسی صورت حال میں کیا کِیا جائے؟

حق بات کہنے کے بہت سے مضمرات ہیں۔ بہت نقصانات ہیں۔ اگر آپ کہہ سکتے ہیں تو اچھی بات۔ مگر آپ پھر اکیلے رہ جائیں گے۔ نہ اِس طرف کے نہ اُس طرف کے۔ دونوں فریق اپ کو ٹارگٹ کریں گے اور دونوں ہی آپ کی حمایت نہیں کریں گے۔ آپ ہر طرح سے دنیاوی نقصان میں رہیں گے۔

خاموش رہئے۔ بہت سے فائدے ہیں۔ اپ بیک وقت اَس طرف والوں سے بھی دوستی گانٹھ سکتے ہیں اور اُس طرف والوں سے بھی وفا کے پیمان باندھ سکتے ہیں۔ اپ محفوظ رہیں گے۔ مزے کریں گے مگر یہ مزے آخری فیصلہ کُن معرکے تک ہی ہوں گے۔ تب ، آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کِس طرف جانا ہے۔

تب بھی، اپ کو ایک بات مد نظر رکھنی ہوگی۔ اگر آپ مسلمان ہیں تو موجودہ بین الاقوامی معاشرتی نظریات جو کہ اکثر اوقات غلط ہوتے ہیں، کی جگہ آپ کو ہر حال میں اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی ماننی ہوگی۔ یہ اپ کے لئے اس وقت آسان ہوگا جب آپ آخرت پر یقین رکھتے ہوں گے۔ آپ کو علم ہوگا کہ کسی کو حساب بھی دینا ہے۔ عقیدے کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا دائمی زندگی کے مقام کا۔ اگر آپ ان تکلفات سے اپنے آپ کو مبرا سمجھتے ہیں تو پھر آپ کے لئے فیصلہ کرنا اور بھی آسان ہے۔ عارضی جغرافیائی حدوں کو مقدس سمجھئے اور مزے اٹھائیں۔۔ صرف اس دنیا کے۔

فیصلہ آپ نے کرنا ہے اور جلد کرنا ہے کیونکہ ملک میں موجود یہ نظریاتی تقسیم اب جلد ہی ایک گہری خلیج کی شکل اختیار کرنے والی ہے اور جلد ہی ایک قائد عوام ایک نعرہ بلند کرے گا۔

“اُدھر تُم؛ اِدھر ہم”۔

1 thought on “نظریاتی تقسیم”

  1. حضور ۔ ایسا بڑا خطرہ بھی نہیں ۔ یہ سارا معاملہ صرفپڑھے لکھے لوگوں کا ہے جن میں بہت کم ہیں جو دین کی اخلاقیات پر عمل کرتے ہیں ۔ ملک کی کم از 70 فیصد آبادی اس تُو تُو میں میں میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی جن میں میرے جیسے دو جماعت پاس ناتجربہ کار بھی شامل ہیں۔ بڑے بڑے آئے اور گذر گئے ۔ باقی رہا اللہ کا نام اور اس نام کو سمجھنے والےجو مت کر بھی نام چھوڑ جاتے ہیں

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں