Skip to content

نا مردی کا ماتم

حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذارکات کی گاڑی پٹری سے اترتی چڑھتی جا رہی ہے۔ میں ٹاک شوز وغیرہ دیکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا اس لئے مجھے علم نہیں کہ کیا ہو رہا ہے مگر، ٹویٹر پر پاکستانی لبرلوں کے ایسے ٹویٹ پڑھ کر کہ جن میں مولانا عبدالعزیز کی ایسے شوز میں شمولیت پر کچھ یوں اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس سے پاکستان میں ان ایکسٹریمسٹ عناصر کو کوریج دی جا رہی ہے، اندازہ ہوتا ہے کہ بہت کچھ ہو رہا ہے۔

ہمارا ٹی وی میڈیا، ٹی وی صحافی وغیرہ تو بے لگام گھوڑے ہیں۔ جس طرف کا رُخ کیا وہاں تباہی مچا دی۔ ان بے وقوفوں کویا تو اپنی طاقت کا اندازہ نہیں یا پھر یہ لوگ جان بوجھ کر ایسی احمقانہ حرکتیں کر رہے ہیں۔

آج تک میں توقع ہی کرتا رہا ہوں کہ ٹی وی جرنلسٹ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ بہر حال ۔۔

بہت کچھ ہو رہا ہے۔ پشاور میں پے در پے دھماکے اور ان کے بعد اقبال جہانگیر کے پروپیگنڈہ بلاگ نے حسب معمول یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ یہ تو ٹی ٹی پی ہی کی کارروائی ہے باوجود اس کے کہ اس تنظیم نے ان دھماکوں کی مذمت کی اور بقول اقبال جہانگیر کے، میں نہیں مانتا۔ :-ڈ

ابھی تازہ ترین وقعہ یہ ہوا کہ 23 ایف سی کے اہلکاروں کو ہلاک کر دیا گیا۔ جس بیان میں یہ اعتراف کیا گیا کہ مہمند ایجنسی میں طالبان کے قیدی 23 ایف سی اہلکاروں کو ہلاک کیا گیا وہیں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ یہ اہلکار 2010 سے ان کی قید میں تھے۔

میرے لئے یہ ایک سر پرائز تھا۔ ایف سی کے اہلکار تین سال سے ان کی قید میں ہوں اور حکومت کی طرف سے ان کی رہائی کے لئے ایک معمولی سا قدم بھی نہ اٹھایا جائے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ میدیا پر ان اہلکاروں کے قتل کی مذمت، جو کہ بجا ہے، پڑھتے پڑھتے مجھے یہ احساس ہوا کہ ابھی تک کو کسی نے بھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ یہ اہلکار تین سال سے ان کی قید میں کیوں تھے۔ حکومت نے ان کو چھڑانے کے لئے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا۔

شائد شیریں مزاری صاحبہ نے کل ایک ٹویٹ میں اس پہلو کو ہلکے سے چھیڑا تھا۔ مگر اس کے علاوہ سب صرف مذمت ہی کر رہے۔

جنگ کی باتیں ہو رہیں۔ قلع قمع کرنے کی باتیں ہو رہیں۔ صرف ایک ایجنسی میں بد امنی کی باتیں ہو رہیں۔ مگر جو پوچھنے کا سوال ہے وہ یہ ہے کہ ان بد قسمت اہلکاروں کو چھڑانے کے لئے کوئی کوشش کیوں نہ کی گئی۔

مجھے لگتا ہے، اب ہم سب کو اپنی نامردی کا ماتم کرنا چاہئے۔ یہ بہت ضروری ہو چکا ہے۔

5 thoughts on “نا مردی کا ماتم”

  1. ہمارا ٹی وی میڈیا، ٹی وی صحافی وغیرہ تو بے لگام گھوڑے ہیں۔ جس طرف کا رُخ کیا وہاں تباہی مچا دی۔
    اس جملے میں ہمارے ہر مسئلے کی روٹ کاز کا ذکر ہے

  2. عین ممکن ہے کہ ایف سی والا ایشو سوات میں کوڑے مارنے جیسا ہی ڈرامہ ہو مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان کو ایسی کیا موت آتی ہے کہ وہ ذمہ داری لینے کے لیے لپک پڑتے ہیں؟ منظرنامہ میں کوئی ایسا بنیادی نوعیت کا ٹیڑھا پن ہے جو دکھائی نہیں دے رہا۔ مگر میں اس بات سے اتفاق کروں گا کہ نامردیوں، حماقتوں اور گروہی مفادات کے لالچ پر ماتم ہی کیا جانا چائیے۔

  3. آپ نے بالکل درست کہا ہے کہ ان اہلکاروں کو رہا کرانے کی کوشش کیوں نہ کی گئی اور اگر وہ 2010ء سے قید تھے تو حکمران اور متعلقہ افسران مجرم ٹھہرتے ہیں ۔ یہ عمل بھی مجھے ہمیشہ سے کھٹکتا ہے کہ ادھر واقعہ ہوتا ہے اور ادھر طالبان نے ذمی دار قبول کرلی کی خبر آ جاتی ہے ۔ کیا طالبان اور صحافی پہلے سے ٹیلیفون ملائے بیٹھے ہوتے ہیں ؟ ٹویٹر اور فیس بُک کی بات نہ کیجئے ۔ وہاں تو تماش بین بیٹھے ہیں ۔ بہت سے اکاؤنٹ جعلی ہیں ۔ ایک طرف تو یہی ٹی وی والے بھارت سے دوستی کا راگ دن رات الاپتے ہیں اور دوسری طرف پاکستانی طالبان کو ختم کرو کا شور مچاتے ہیں

  4. اب تو ان باتوں اور کاموںکی عادت سی ہوگئی ہے۔
    اسلئے ایسے حالات پر صرف انا للہ ہی پڑھا جا سکتا ہے۔

    باقی تو ہمارے بس کی بات ہی نہین، ورنہ تو لوگ غائب کرنے کی دھمکیاں دینے لگتے ہیں۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں