Skip to content

نا انصافی

ماضی کے معاشروں پہ نظر ڈالنی ہو، ماضی کے مشہور واقعات کو سمجھنا ہو یا ماضی کے ایام کی راہنمائی میں حال کو سمجھنا یا مستقبل کی پیش گوئی کرنا ہو تو ہمیں تاریخ، شائع شدہ تاریخ پہ انحصار کرنا پڑتا ہے۔

اور اکثر و بیشتر یہ شائع شدہ تاریخ مسخ شدہ ہوتی ہے۔

شائع شدہ حرف، لفظ، جملہ، تبصرہ، مضمون کتاب یا کئی جلدوں پر مشتمل ایک فن پارہ محض حال کی عکاسی نہیں کرتا، محض آج سے پہلے وقوع پذیر واقعات پر مصنف، یا پبلشر کی محض ایک عام سے رائے نہیں، یہ مستقبل کے قاری کے لئے ایک ایسی کھڑکی کی صورت اختیار کر جاتا ہے جس سے صرف وہی نظر آئے گا جو آپ دیکھ رہے ہیں یا سمجھ رہے ہیں، یا دکھانا / سمجھانا چاہ رہے ہیں۔

اس بات کو سمجھئے۔

جب تک یہ بات سمجھ نہ آئے براہ مہربانی اگلی سطور کا مطالعہ مت کیجئے۔

زمانہ حال میں شائع شدہ آپ کا کوئی بھی تبصرہ، جملہ، لفظ ، حرف ، امر ہوجاتا ہے۔ تحریر آپ کو امر کرجاتی ہے۔ آپ کی گواہی کو امر کر جاتی ہے۔ تحریر میں ناانصافی مت کیجئے۔
تقریر میں آپ جو کرنا چاہتے ہیں کیجئے۔ تحریر میں مستقبل کے قاری کے ساتھ نا انصافی مت کیجئے۔ اس کو سچ جاننے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ آپ کو سچ بولنے یا لکھنے کا۔ لیکن سچ ، کیا وہی ہے جو آپ تحریر کر رہے ہیں؟ اس کے علاوہ کوئی امکان نہیں۔ صرف یہی زاویہ نگاہ مستند ہے جو آپ کی تحریر کا باعث بنا؟

اے مصنف، ایک لمحے کو ٹھہر جا۔ لکھنے سے پہلے سوچ لے کہ ترا لکھا ایک ایک حرف، لفظ، جملہ، تبصرہ، مضمون ، کتاب، تنقید ، تعریف امر ہوجائے گی۔ اور ایک دو نسل کے بعد آنے والی نسل آج کی بابت لکھے گئے حرف کی سچائی کو جانچنے سے محروم ہوجائے گی۔

مستقبل کے قاری کے ساتھ ہونے والی اس نا انصافی کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر مصنف خود احتسابی کرے اور تحریر لکھنے سے پہلے سوچے کہ کیا اس کی تحریر مستقبل کے قاری کو آج کے معاشرے کی سچی تصویر دکھاتی ہے؟؟؟ یہ سوال خوش کن مگر انتہائی مشکل سوال ہے۔ کیونکہ سچ وہی ہوتا ہے جو حکمران کو بھائے۔ باقی سب کانسپیریسی تھیوریاں ۔

کیا ہم ایک دوسرے کو، اپنے سے چھوٹوں کو، نئی نسل کو سچ لکھنے، بولنے اور شائع کرنے کے ترغیب دے بھی رہے ہیں؟ اگر ہاں تو یہ سچ تحاریر میں نظر کیوں نہیں آتا۔ اور اگر نہیں، تو۔۔ کیوں نہیں؟

پس نوشت: عزیزم علامہ باطل نڈھال نے اپنے والد محترم، اللہ ان کی زندگی میں برکت اور نور پیدا فرمائے، کی زمانہ میٹرک کی اردو کی کاپی کا ایک عکس شئیر کیا تھا۔ آپ سے درخواست ہے کہ نمبر شمار سولہ اور نمبر شمار سترہ پہ ایک نظر ڈال لیں۔ اور دونوں کے درمیاں صفحات کے فرق کو دیکھیں۔

135594127 3925294484147478 4878784774738152294 n

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں