Skip to content

میڈیکل ٹریننگ 2

بات ہو رہی تھی میڈیکل ٹریننگ کی۔ اور ہم ذکر کر رہے تھے ایف سی پی ایس کا۔

مگر ٹھہریے، اس سے پہلے ایک اہم پہلو کی طرف اشارہ ہو جائے جس کی جانب غفران نے یہاں اشارہ کیا۔ غفران چین میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور وہ جس مخمصے سے دوچار ہیں، آج کل تقریبا ہر پاکستانی طالب علم ،جو بیرون ملک پڑھ رہا ہے، اس کا شکار ہے۔ حکومت پنجاب نے بیرون ملک سے ڈگری لے کر آنے والے ڈاکٹرز اور پرائیویٹ میڈیکل کالجز سے فارغ التحصیل ڈاکٹرز کے لئے سرکاری ہسپتالوں میں ہاؤس جاب اور انٹرن شپ پر پابندی لگا دی تھی۔ گو متاءثرہ ڈاکٹروں نے احتجاج کیا تھا مگر حکومت کا پلا بھاری رہا اور یہ پابندی اب تک قائم ہے – حکومت کا مؤقف ہے کہ پرائیویٹ میڈیکل کالج اپنے طلباء سے بھاری فیسیں لیتے ہیں، اب یہ ہاؤس جاب کی ذمہ داری بھی ان کی ہونی چاہئے۔ ہر کالج کے ساتھ ٹیچنگ ہسپتال تو پی ایم ڈی سی کے مطلوبہ معیارات میں سے ایک ہے۔ اب اگر ان کالجز نے اپنے ہسپتال قائم نہیں کئے تو سرکاری کالجز میں پڑھنے والے ڈاکٹر کیوں متاءثر ہوں؟ ایک لحاظ سے میں اس دلیل سے متفق ہوں۔

یہاں تک تو ٹھیک تھا، مگر حکومت نے بیرون ملک سےآنے والے ڈاکٹروں پر بھی پابندی لگا دی۔ اب قصہ یہ ہوا کہ وہ انٹرن شپ یہاں کرنہیں سکتے، اور ڈگری انھیں وہاں ملے گی نہیں۔ مگر میری اطلاعات کے مطابق کم از کم انٹرن شپ کی حد تک مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ چین سے آنے والے ڈاکٹر اب ہسپتال کو مقررہ فیس کی ادائیگی کے بعد اپنی مطلوبہ انٹرن شپ کر سکتےہیں۔ ہاں وہ تنخواہ والی پوسٹ کی امید نہ رکھیں۔

اپنے موضوع کی طرف آتے ہوئے۔

گریجویشن کے بعدکچھ لوگ ایف سی پی ایس کی لئے کمر باندھتے ہیں اور پانچ سے سات سال کا جوگ اختیار کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایم سی پی ایس کرتے ہیں اور کچھ ایم ڈی یا ایم ایس کی جانب نکل جاتے ہیں۔ تدریس کی طرف میلان رکھنے والوں کے لئے ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے راستے کھلے ہیں۔ اب تو سی پی ایس پی نے بھی ایسے ڈاکٹرز کے لئے ڈی ایچ پی ای شروع کر دیا ہے۔ تفصیلات سی پی ایس پی کی ویب سائٹ پر دیکھیں۔

یہ سارا عمل نا ہموار ہے، اس عمل میں بہت سے شارٹ کٹ ہیں، بہت دشواریاں ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ جب ایک ڈاکٹر تعلیم سے فارغ ہوتا ہے تو وہ عمر کی تیسری دہائی کے نصف تک جا چکا ہوتا ہے، اور اس کے بعد زندگی سے لطف اندوزی؟ دل جلانے کی بات ہے۔ اپنا خاندان بنانا، اور پھر اس کی کفالت کے لئے معاش کے رستے اختیار کرنا، اور سیٹ ہوتے ہوتے ایک ڈاکٹر سٹھیا جاتا ہے۔ ۔۔۔

اب اس سارے عمل کے ساتھ کیا کِیا جائے؟ سب میڈیکل کالج بند؟ طالبان سٹائل؟ میر ا نہیں خیال کہ ایسا ممکن ہے۔۔

اس سارے معاملے پر میں نے سوچا، اپنے دوستوں سے بات کی، مگر یہ بات ، بات چیت تک ہی محدود رہی، کیونکہ اربابانِ اختیار تک ہماری پہنچ کہاں۔

میں نے دیکھا ہے کہ جو ڈاکٹر ملک سے باہر جاتے ہیں ، کسی بھی ملک میں پریکٹس کرنے کے لئے انھیں مقامی امتحانات پھر سے پاس کرنے ہوتے ہیں۔ یعنی ایک اور امتحان۔ خواہ یہ ملک کینیڈا ہو، ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہو، برطانیہ، آسٹریلیا ہو یا ہماری دوست خلیجی ریاستیں۔ یہ امتحان لائسنس کی لئے ضروری ہے۔ پاکستان میں باہر سے آنے والوں کے لئے یہ امتحان لازمی ہے۔

میں سوچتا ہوں :

کتنا اچھا ہو کہ ہمارے ملک میں بھی یو ایس ایم ایل ای کی طرز کا امتحان رائج ہو جائے۔ اسے پی ایم ایل ای کا نام دیا جائے اور ٹریننگ پوسٹ اس امتحان یعنی پی ایم ایل ای میں حاصل کر دہ نمبروں کی بنیاد پر ملے۔

پی ایم ایل ای = پاکستان میڈیکل لائسنسنگ ایگزام

میرٹ لسٹ پورے ملک کے امیدواروں کی بنیاد پر بنے ۔ اس امتحان میں شرکت سب کے لئے لازمی ہو، خواہ وہ بیرون ملک سے آیا ہوا ڈاکٹر ہو یا آغا خان یونیورسٹی سے پڑھا ہوا ہو۔

اس امتحان کے بعد جو بھی شعبہ ایک ڈاکٹر اپنے لئے منتخب کرے، اس میں تین سال بعد ایک عدد سپیشلسٹ ڈگری اسے عطا کر دی جائے۔ اور اگر آگے پڑھنے کا شوق ابھی بھی ہے تو وہ مواقع بھی میسر ہوں۔

اس امتحان سے استثنا ء بالکل نہ ہو۔ یعنی اگر کوئی آگے پڑھنا نہیں چاہتا اورآرمی میں جانا چاہتا ہے، یا اپنی یریکٹس بنانا چاہتا ہے تو بھی اس امتحان میں کامیابی ایک لازمی شرط ہو ڈگری کے لئے۔

< span style=”font-style:italic;”>جو لوگ اب ڈاکٹر بن چکے ہیں ان کے لئے ہر تین سے پانچ سال بعد ایک امتحان ہو ، تا کہ وہ جدید معلومات سے آگاہ رہیں اور مقابلے کےمیدان میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ اسی دوسرےامتحان کی بنیاد پر ان کے لائسنس کی تجدید کا فیصلہ کیا جائے۔

اور بھی بہت باتیں ہیں میرے ذہن میں مگر وہ مستقبل کے لئے اُٹھا رکھتا ہوں۔ آپ کے تبصروں کا منتظر رہوں گا۔ اللہ حافظ۔

4 thoughts on “میڈیکل ٹریننگ 2”

  1. میرا پاکستان

    ڈاکٹر صاحب
    آپ کا بلاگ معلوماتی ہے اور امید ہے اپنے تجربے سے سب کو مستفید کرتے رہیں گے. ہم آپ کی رائے سے سو فیصد اتفاق کرتے ہیں اور آپ کی تجویز کو مفید مانتے ہیں. لیکن وہی بات ہے اشرافیہ اس طرح کے امتحان کی پابندی لگا کر کبھی بھی اپنے ہاتھ کٹنے نہیں دے گی. جس طرح انہوں نے داخلہ ٹیسٹ سے اپنے کام نکلوائے ہیں اسی طرح وہ اپنے عزیزواقارب کو کبھی بھی مقابلے کے امتحان میں بٹھا کر ان کا مستقل تاریک نہیں ہونے دیں گے.

  2. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    منیر صاحب!
    زیرِ نظر الفاظ میں نے انگریزی زبان کے متعلق محترم فیصل صاحب ! کے بلاگ پر ٍ فیصلیات پہ February 10, 2009 کو

    http://shahfaisal.wordpress.com/2009/01/30/%d8%a7%d8%b1%d8%af%d9%88-%d8%a8%d9%84%d8%a7%da%af-%d8%a7%d9%86%da%af%d8%b1%db%8c%d8%b2%db%8c-%d8%a8%d9%84%d8%a7%da%af/

    پہ اپنی رائے کی صورت میں لکھے تھے۔ دوبارہ سے کچھ حصہ نقل کر رہا ہوں ۔ کیونکہ میری رائے میں اس بارے کوءی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور اس لئیے آپ کی رائے پی ایم ڈی سی کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں ۔

    یار لوگوں نے اس استحصال کو جاری و ساری رکھنے کے لیے قسم قسم کے ادرارے بنا رکھے ہیں جس کی ایک ادنٰی سی مثال پی ایم ڈی سی یعنی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹنل کونسل ہے جو اسلام آباد میں واقع ہے اور پورے پاکستان میں صرف یہ ادراہ پاکستانی و غیر پاکستانی ادروں سے بننے والے ڈینٹیسٹ اور ڈاکٹروں کو پاکستان میں پریکٹس کرنے کو ریگولر کرتی ہے ۔ اجازت دیتی ہے۔انگلینڈ اور غالباً آئر لینڈ چھوڑ کر آپ دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی یا انسٹیوٹ سے ایم بی بی ایس کر لیں یہ حضرات آپ کو پریکٹس کی اجازت نہیں دیں گے خواہ آپ نے امریکہ ،جاپان یا چین سے ڈاکٹر فزیشن وغیرہ کی ڈگری لی ہو ۔ ایک تو یہ قسم قسم کے امتحان لیں گے جس میں تھیوری ، پریکٹیکل اور وائِوا وغیرہ شامل ہیں اور یہاں یہ وضاحت ضروری نہیں کہ آپ نے ڈگری جاپان سے لی ہے روس سے مگر آپ کے تمام ایگزام انگریزی میں ہونگے اور کتنے بے چارے نئے ڈاکٹر کئی کئی سال انگریزی میں مغز ماری کرنے کے بعد ڈاکٹر کی ملازمت یا پریکٹس کی مطلوبہ اجازت حاصل کر پاتے ہیں ۔ جبکہ اس ادارے کی ایک ذمہ داری یہ ہونی چاہیے تھی کہ وہ دوسرے ممالک سے پاکستان میں بنے ڈاکٹرز کی ڈگری منوائے اور پاکستان میں ان ممالک کے اداروں سے بنے ڈاکٹرز کی ڈگری کو بغیر کسی امتحان کے پاکستان میں قابلِ قبول بنوائے۔ جبکہ یہ کونسل جو کہ پاکستان میں ڈاکٹری ملازمت اور پریکٹس کو ریگولر کرنے کا اختیار رکھتی ہے بیرون ممالک سے اپنے وسائل سے بنے قابل ترین ڈاکٹروں کو امتحانوں کے چکر میں ڈال کر اس دوران عوام کو عطائیوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ رکھتی ہے۔جبکہ دے دلا کر بہت سے نئے ڈاکٹرز مطلوبہ پی ایم ڈی سی نمبر حاصل کر لیتے ہیں۔

    امید کرتا ہوں کہ آپ اس پہ بھی کبھی وضاحت سے لکھیں ۔ اور ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ پی ایم ڈی سی کے منظور شدہ اداروں کے ڈاکٹرز ھضرات کے تعلیمی اور پیشہ وارانہ معیار کے بارے میں آپ بھی جانتے ہوں گے اور ہم بھی ہم تو ضد براءے غیر ممالک سے پاس یا تیار ہوئے ڈاکٹرز کو اتنے لمبے امتحانوں میں ڈالتے ہیں ۔ جبکہ دوسرے بہت سے ممالک ہماری اہلیت کو خوب سمجھتے ہیں اور اس لئیے انہوں نے کچھ ایسے ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہیں وہاں سے پاس یا بنے ڈاکٹرز حضرات کے لئیے اتنے ٹیسٹ ا امتحان اور بعض صورتوں میں سال ڈیڑھ سال اپنے سنئیر ڈاکٹرز کی نگرانی میں جاب وغیرہ کرنے کی پابندی لگا رکھی ہے ۔کیا پی ایم ڈی سی ایسے ادروں کا کام صرف اپنا وجود ثابت کرنا ہے۔ ؟ کیا یہ ادراے پاکستانی ڈاکٹرز کی تعلیم و تربیت کو عالمی معیار کا نہیں کر سکتے۔ ؟ اور چور دروازے بند نہیں کر سکتے۔؟ کہ دنیا میں ہمارے ڈاکٹرز کا ( پی ایم ڈی سی کے منظور شدہ اداروں سے فارغ التحصیل ڈاکٹرز) وقار تسلیم کیا جائے۔

    خیر اندیش
    جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

  3. ڈاکڑ منیر عباسی صاحب : بہت شکریہ آپ کے تفصیلی جواب کا، جان کر تسلی ہوءی کہ پاک میں انٹرن کی جا سکتی ہے۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں