Skip to content

میڈیکل ٹریننگ 1

پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم اگرچہ دوسرے ممالک سے کافی سستی اور اچھی ہے، مگر پھربہت مشکل اور کافی لمبے عرصے کے بعد مکمل ہوتی ہے ۔ عام طور پر 5 سال کی تعلیم اورایک سال ہاؤس جاب کے بعد ہی ایک ڈاکٹر اس قابل ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کا علاج کر سکے۔

بات شائد یہاں پر ختم ہوجاتی اگر میڈیکل کی تعلیم کا ذکر دس یا بیس برس قبل کے حالات کے تناظر میں ہوتا۔ مگر اب حالات بہت بدل گئے ہیں، بیماریوں کے بارے میں نئی معلومات روزانہ کے حساب سے منظر عام پر آرہی ہیں اور بہتر سے بہترین کی تلاش میں تو اکثر پرانی معلومات کو بھی دوبارہ پرکھا جا رہا ہے ۔یہ ریسرچ بہت تیزی سے ہو رہی ہے اوراس رفتار کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ڈاکٹروں کے لئے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنا اور بھی مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان میں میڈیکل تعلیم کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں میڈیکل تعلیم کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

ایک قسم تو وہ ہے جو ملک میں قائم مختلف نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں سے حاصل کی جاتی ہے۔

کچھ لوگ ملک سے باہر سے بھی یہ تعلیم حاصل کر کے آتے ہیں۔ اکثر اوقات یہ تعلیم روس، یوکرائن ، وسطی ایشیا کے دیگر ممالک، افغانستان، اور آج کل چین سے بھی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ دوسری قسم ہے۔

یہاں سے ڈاکٹروں کے ساتھ امتیازی سلوک شروع ہوجاتا ہے۔ جو لوگ ملک کے میڈیکل کالجز میں کسی بھی وجہ سے داخلہ سے رہ جاتے ہیں ، وہ اپنا شوق پورا کرنے کے لئے چین تک ہو آتے ہیں، اگرچہ آج کل ملک میں نجی میڈیکل کالجز کی ایک فصل اُگ آئی ہے، مگر پھر بھی لوگ باہر جاتے ہیں، ایسے ڈاکٹرز کو واپسی پر پاکستان میں اپنی قابلیت ثابت کرنے کے لئے ایک امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ امتحان پی ایم ڈی سی کی زیرِ نگرانی منعقد کیا جاتا ہے اور سال میں دو مرتبہ ہو تا ہے۔ بھلے وقتوں میں اس کا کوئی اچھا سا نام بھی رکھا گیا ہوگا مگر آج کل یہ پی ایم ڈی سی کے نام سےہی جانا جاتا ہے۔

یہ اوربات کہ ان سطور کے لکھے جانے کے وقت ، جب کہ میں ضروری معلومات کے لئے پی ایم ڈی سی کی ویب سائٹ کھولنے کی کوشش کرتا ہوں تو علم ہوتا ہے کہ ویب سائٹ کچھ وجوہات کی بنا پر ناقابل رسائی ہے۔

یہ ڈاکٹر حضرات پی ایم ڈی سی کا امتحان کئی دفعہ کوشش کرنے کے بعد پاس کرتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ اب ہاؤس جاب کے بعد ہی وہ کسی امتحان کے قابل ہوں گے۔

پاکستان سے فارغ التحصیل ڈاکٹرز اگرچہ پی ایم ڈی سی کے امتحان سے مستثنی ہیں مگر، ان کے سامنے کئی رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں۔

ہاؤس جاب کے بعدسب ڈاکٹرز کے سامنے کئی راستے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ پرائیویٹ پریکٹس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو کچھ لوگ سروسز کی طرف نکل جاتے ہیں ، مثلا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ ، یا آرمی یا اور کوئی ادارہ جہاں ڈاکٹر درکار ہوں۔

کچھ ڈاکٹر جو کہ آگے کسی شعبہ میں مزید پڑھنا چاہییں تو انھیں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کے متعارف کردہ طریقہ کار کے مطابق امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ سی پی ایس پی پاکستان میں ڈاکٹروں کی سپیشلائزڈ تعلیم کا واحد ادارہ ہے۔ کچھ ادارے متبادل کورس کروا رہے ہیں ، مثلا اسلام آباد میں قائد اعظم پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کالج ، اور لاہور میں شیخ زائد پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ اور پشاور یونیورسٹی شامل ہیں، ایم ڈی میڈیسن اور ایم ایس سرجری وغیرہ کر وا رہے ہیں، مگر ان کورسز کو اتنی پذیرائی نہیں ملی ہے جتنی کہ سی پی ایس پی کے متعارف کردہ نظام کو۔

سی پی ایس پی کا امتحان اپنے شوق اور دلچسپی کے مضمون میں دیا جا سکتا ہے۔ پہلے پرچے کے بعد جو ٹریننگ کا عرصہ ہوتا ہے، وہ چار سے پانچ سال کا ہوتا ہے۔ چار سے پانچ سال کی ٹریننگ کے بعد ہی ایک ڈاکٹر، اگر وہ خوش نصیب ہوا اور فائنل پرچہ پہلی مرتبہ ہی پاس کر گیا تو، ایک سپیشلسٹ کہلایا جا سکتا ہے۔

اب یہ تمہید میں نے اس لئے باندھی کہ، میرے خیال میں اس سارے سسٹم میں بہتری کی گنجائش ہے۔ انشاءاللہ اگلی مرتبہ اس پر تفصیل سے بات کروں گا۔ تب تک کے لئے خدا حافظ۔

6 thoughts on “میڈیکل ٹریننگ 1”

  1. خوب معلعوماتی تحریر ہے۔

    میں بھی میڈیکل کا طالبعلم ہوں اور چیں مین پڑھتا ہوں۔ ہمارے ہاں 4 سال تھیوری پڑھائی جاتی ہے اور 5ویں سال صرف انٹرنشپ کیلیے ہوتا ہے جو ہم لوگ عام طور پر پاکستان کے کسی ٹیچنگ ہسپتال میں کرتے ہیں۔ آجکل سنا ہے کہ فارن میڈیکل گریجوئٹ پاک انٹرن میں نہیں کر سکتے۔ کیا یہ خبر درست ہے۔ ؟

    کینکہ اگر ایسا ہی ہے تو یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہو جاءے گا کیونکہ جب تک چینی زبان پر مکمل عبور نا ہو، چیں مین انڑن شپ سے سیکھنا مشکل ہے/

  2. افتخار اجمل بھوپال

    میرا خیال ہے کہ اگر یونانی اور اسلامی طِب کو ضائع کرنے کی بجائے یوروپ والے انہیں محفوظ رکھتے اور ترجمہ کروا کر اس سے آگے کی تحقیق کرتے تو آج صحت کے راز کو پا چکے ہوتے ۔ دوسری بات جو ذہن میں رہنا چاہیئے یہ ہے کہ شفاء صرف پیدا کرنے والے کے ہاتھ میں ہے ۔ طبیب صرف ٹوٹکا کرتا ہے ۔ ایک بات جو میں نے اپنی زندگی کے تجربہ سے سیکھی ہے ۔ ایلوپیتھی علاج عام طور پر ردِعمل ہوتا ہے اور بیماری کی بنیاد کو پکڑنے کی کوشش نہیں کرتا ۔

    ایک عرضداشت
    میں نے سوائن فلو والی تحریر پر تبصرہ کیا تھا لیکن وہ گُم ہو گیا

  3. منیر عباسی

    محترم اجمل صاحب، آمد کا شکریہ،
    آپ کا تبصرہ مجھ تک شائد پہنچ نہیں پایا، ویسے بھی میں ماڈریشن کر نہیں رہا، اس لئے میں کچھ کہ نہیں سکتاتبصرے کے ساتھ کیا ہوا۔

    آپ کو زحمت ہوئی، معذرت چاہتا ہوں۔

    جہاں تک طب یونانی اور اسلامی کا تعلق ہے تو میرا خیال ہے کہ طب اسلامی در اصل طب یونانی سے ہی اخذ کی گئی ہے۔ اور طب یونانی وہی طب ہے جسے ہم ایلوپیتھی کہتے ہیں۔
    مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اپنی کتاب قصص القرآن میں لکھتے ہیں کہ ہر نبی کو اللہ نے اس کے زمانے اور قوم کے لحاظ سے معجزے عطا کئے، مثلا حضرت موسی کے زمانے اور علاقے میں جادو کا بہت رواج تھا، اس لئے ان کو ید بیضا اور عصا کا معجزہ دیا گیا۔ حضرت عیسی علہ السلام کے زمانے اور علاقے میں طب کا رواج تھا لہذا ان کو جو معجزے دئے گئے وہ طب سے متعلق ہیں۔

    اس سلسلے میں کافی بحث کی ہے مولانا نے ، مگر میں آگے جانا نہیں چاہتا۔

    اجمل صاحب، آپ یورپ کا ذکر کرتے ہیں، خود یہاں ہند و پاک کے معروپ طبیبوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے نسخے اپنے ساتھ قبر میں لے گئے۔ کچھ مستثنیات ہونگی، مگر کتنی؟

    میں اس وقت اس بارے میں کوئی مستند حوالہ تو دے نہیں سکتا مگر یہ بات میں نے کافی مرتبہ سنی ہے کہ اگر یہ معروف حکما اپنا علم دوسروں کے ساتھ شیئر کر دیتے تو آج بر صغیر میں ھکمت کا یہ حال نہ ہوتا کہ سو میں سے نوے فیصد حکیم مردانہ کمزوری کی ادویات پر ہی اپنی پریکٹس چلائے جا رہے ہیں۔

    جہاں تک آپ ایلوپیتھی علاج کے رد عمل پر مبنی ہونے کی بات کر رہے ہیں، جب تک میں یہ جان نہ پاؤں کہ آپ یہ بات کیوں کہ رہے ہیں، میں کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔

  4. DuFFeR - ڈفر

    میرے خیال میں تو پاکستانی تعلیمی نظام کے سارے مواد بشمول پرائمری سے لے کر ڈگری کورسز کو نظر ثانی اور اکملیت کی ضرورت ہے. میڈیکل کا پتا نہیں لیکن انجنئرنگ میں چند ایک اداروں کو چھوڑ کر باقیوں کو تو تحقیق کی کسی قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں. اور ڈگری پہ ڈگری جاری کئے جا رہے ہیں. نتیجتاً ہمارے طالبعلم محنتی اور ذہین ہونے کے باوجود مقابلے کے قابل نہیں ہو پاتے یا بے انتہا محنت اور مشکل کے بعد وہ مقام حاصل کرتے ہیں جس کے وہ بہت پہلے حقدار ہوتے ہیں.

  5. ڈاکٹر صاحب ۔۔۔ لمبے چکر میں پھس گئے یار آپ تو
    موج کرنے کی ساری عمر تو آپ کی پڑھتے گزر جائے گی
    ہمت ہے آپ لوگوں کی بھی
    ساری زندگی، ٹیکے، آپریشن تھیٹر، لاشیں

  6. تو کیا ڈاکٹر بننے کے لیے اتنی محنت کرنی پڑتی ہے میں تو سمجھا تھا بندہ ایویں ڈاکٹر بن جاتا ہے.

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں