Skip to content

میرا جسم میری مرضی

صدیق جان کے وی لاگ سے تو یہ بات واضح ہوئی کہ ماروی سرمد کے خلیل الرحمان قمر کی بات کے دوران لقمہ دینے سے بات بگڑی اور خلیل الرحمان نے وہ کچھ کہہ دیا جو شائد عام حالات میں وہ نہ کہہ پاتے۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ میرا جسم میری مرضی جس سلوگن کا اردو ترجمہ ہے وہ مغرب میں اسقاط حمل کی حامی تنظیموں کا سلوگن ہے، اور خواتین کے ساتھ ہونے والے جرائم کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے، یہ بات البتہ واضح نہیں۔
خواتین کو ہراساں کرنا، ان کو جائداد میں حصہ نہ دینا، زنا بالجبر، اور اس قبیل کے دوسرے جرائم کے لئے شائد مناسب قانون سازی ہو چکی ہے، اور تعزیرات پاکستان کے تحت ان میں سے کافی کچھ قابل سزا ہے۔ اس سب کے ہوتے ہوئے اس نعرے کو ان جرائم سے نتھی کر کے شکایت کرنا کچھ سمجھ نہیں آتا۔

اس سلوگن کی حمایت میں فیس بک پر عزیر سالار نے کچھ یوں لکھا:

جب ایک ریپسٹ ایک پانچ سال کی بچی کا ریپ کرتا ہے تو دراصل وہ یہ کہتا ہے کہ تیرا جسم میری مرضی۔۔
جب مذہب کے لبادے میں لپٹا ایک شیطان مدرسے میں کسی بچے کی شلوار اتارتا ہے تو دراصل وہ یہ کہتا ہے کہ تیرا جسم میری مرضی۔۔
جب ایک باپ اپنی 12 سالہ بچی اپنے زانی یا قاتل بیٹے کی ضمانت میں ونی کر دیتا ہے تو دراصل وہ یہ کہتا ہے کہ تیرا جسم میری مرضی۔۔
جب کوئی آوارہ شخص اپنی محبوبہ کے روٹھ جانے پر اسکے منہ پر تیزاب پھینکتا ہے تو دراصل وہ یہ کہتا ہے کہ تیرا جسم میری مرضی۔۔
جب ایک آدمی اپنی بیوی کی مرضی کے خلاف اسکے قریب آتا ہے تو دراصل وہ یہ کہتا ہے کہ تیرا جسم میری مرضی۔۔
جب محکمہ تعلیم کا ہیڈ ملکی قوانین کو روند کر طالبات کو یہ حکم دیتا ہے تم یہ پہنو یہ مت پہنو تو دراصل وہ یہ کہتا ہے کہ تیرا جسم میری مرضی۔۔
جب ایک نفسیاتی مریض قبر کھود کر کسی لاش کی بے حرمتی کرتا ہے تو دراصل وہ یہ کہتا ہے کہ تیرا جسم میری مرضی۔۔
جب ایک ٹیچر بچے کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بناتا ہے تو دراصل وہ یہ کہتا ہے کہ تیرا جسم میری مرضی۔۔
جب ایک ڈاکٹر مقدس پیشے کی آڑ میں اپنی پیشنٹ کی بیہوشی کا فائدہ اٹھاتا ہے تو دراصل وہ یہ کہتا ہے کہ تیرا جسم میری مرضی۔۔
جب ایک جج اپنی مرضی سے شادی کے لیے آنے والی کلائنٹ کو اپنی طاقت کے استعمال سے حاملہ کر دیتا ہے تو دراصل وہ یہ کہتا ہے کہ تیرا جسم میری مرضی۔۔
جب گومل یونی ورسٹی کا باریش پرہیزگار ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ یتیم لڑکی کو نوکری دینے سے پہلے کہتا ہے کہ میری ایک کمزوری ہے اسے پورا کرو تو دراصل وہ یہ کہتا ہے کہ تیرا جسم میری مرضی۔۔
جب ایک مہذب نظر آنے والا شہری ہجوم میں کسی عورت یا بچے کے جنسی اعضاء کو ٹچ کرتا ہے تو دراصل وہ یہ کہتا ہے کہ تیرا جسم میری مرضی۔۔

میرا جسم میری مرضی کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے کپڑے اتارنے کی اجازت چاہیے، میرا جسم میری مرضی کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مجھے ملکی قوانین کو پامال کرنے کی اجازت چاہیے۔
میرا جسم میری مرضی کا مطلب صرف یہ ہے کہ جیسے مردوں کو اپنے جسم پر اختیار دیا ہے ویسے ہی عورت کو بھی اپنے جسم پر اختیار دیا جائے، میرا جسم میری مرضی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی میری اجازت کے بغیر میرے جسم سے فائدہ نا اٹھاۓ، میرا جسم میری مرضی کا مطلب ہے کہ طاقتور ہو تو بھی اپنی حد میں رہو، میرا جسم میری مرضی کا مطلب ہے کہ میرے جسم کے بارے میں فیصلے اگر کوئی انسان کرے گا تو وہ کوئی اور نہیں میں خود ہوں، لیکن اس بے ضرر اور انصاف پر مبنی نعرے کی جس شد و مد سے مخالفت ہو رہی ہے تو پورا معاشرہ جنسی مریضوں اور ظالموں کا کڑھ لگ رہا ہے۔

چنانچہ میں تو اس لڑائی میں صحتمند اذہان کے ساتھ کھڑا ہوں۔

تو اور زور سے بولو میرا جسم میری مرضی۔۔
جس کا جسم اس کی مرضی ۔۔۔

عزیر سالار


لیکن اگر آپ غیر جانبداری سے عزیر سالار کی تحریر کا تجزیہ کریں تو ان تمام افعال کا اس نعرے سے کوئی تعلق نکلتا نہیں اور یوں قاری حنیف ڈار نے ان کا یوں جواب دیا کہ

میرا جسم میری مرضی کے نعرے کو ثابت کرنے کے غلط مثالیں دی ہیں عزیر سالار نے اور اسی کے کچھ اور خواتین و حضرات نے کہ دس سالہ بچیوں یا بچوں کا مدارس یا دیگر جگہوں پر جنسی استحصال کا شکار ہونا وغیرہ ۔ ان تمام جرائم کے خلاف قوانین اور سزائیں موجود ہیں ۔ ان کو جواز نہیں بنایا جا سکتا نہ ہی عورتوں کے اس مارچ سے یہ جرائم ختم ہونگے ۔ مزید پیچیدگیاں پیدا ہونگی، جن ملکوں کی ریس کرتے ہوئے یہ سب کچھ کیا جا رھا ھے وہاں سوشل سیکورٹی دستیاب ہے، کوئی بھوکا نہیں مرتا، ہمارے یہاں باپ اور بھائی ہی ایک سہارا ہیں ورنہ قحبہ گری ہی بچتی ہے پیٹ پالنے کا ذریعہ ۔
اس نعرے کے پیچھے اصلا وہ جرائم ہیں ہی نہیں جن کی فہرست گنوائی گئ ہے، یعنی بچوں اور بچوں کا ریپ یا اپنی رشتے دار خواتین کا جنسی یا معاشی استحصال، بلکہ یہ یورپ جیسی ازادی کا نعرہ ہے گویا وادئ نیلم میں آم کا پیڑ لگا کر پھل کھانے کی سعی ہے ۔ ہر پودے کا اپنا وطن اور اپنی آب و ہوا ہوتی ہے ۔ یورپ کے قوانین کے مطابق آپ اپنی بیوی کی خواہش کے بغیر اس کے ساتھ سو نہیں سکتے ۔ اپنے یہاں میاں بیوی کا تعلق ہی سونے کا ہے، اس میں انکار پر بےجھجھک طلاق دے دی جاتی ہے، اب ماروی سرمد اینڈ کمپنی اس کی دوسری شادی یا بوائے فرینڈز ارینج کریں گی؟ تو پھر اس کے لئے قانون سازی کرنی پڑے گی جو ہر مرد اور عورت کو بغیر شادی اکٹھا رھنے کی اجازت دے ۔ پھر بات طلاق یافتہ عورتوں تک نہیں رھے گی ہر بالغ عورت پر اس کا اطلاق ھو گا اور آپکی بیٹی 18 سال کی ہوتے ہی کسی بوائے فرینڈ کے ساتھ کوچ کر جائے گی جو اس کو مار پیٹ سمیت وہ سب سلوک کرے گا جس کے خلاف یہ نعرہ ایجاد کیا گیا ہے، وہ اس بوائے فرینڈ کو چھوڑ کر نیا یا پورا ریوڑ جوائن کر لے گی، اس کے پیچھے باپ ، بھائی اور برادری کا بیک اپ نہیں ہو گا لہذا کوئی اس کے ساتھ زیادتی کرنے سے نہیں ڈرے گا ۔ اور ایک دن وہ نشے کی حالت میں ادھڑی ہوئی کسی سڑک کنارے ملے گی، آپ صرف گھریلو غریب والدین کی بےسہارہ ملازمہ کے ساتھ خود عورتوں کا سلوک دیکھ لیں جن کے والدین غربت کی وجہ سے چونکہ سزا دلانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے لہذا استریوں سے سینکی اور ٹوٹی ہوئی ھڈیوں کے ساتھ ججز وکلاء اور ڈاکٹروں کے گھروں سے ملتی ہیں ۔ بات مزید بڑھے گی ایسی بوائے فرینڈز والی لڑکیاں جو بچے پیدا کریں گی وہ کون سنبھالے گا؟ ظاھر ہے قانون سازی کے ذریعے ریاست کو ہی مجبور کیا جائے گا کہ ماروی اور عزیر سالار کی نسل کو ریاست پالے اور اس کے اخراجات قاری حنیف اور عمار خان ناصر کے ٹیکس سے پورے کئے جائیں ورنہ وہ لڑکیاں پیدا کرنے کی بجائے بچے ضائع کرا کر کتوں کی خوراک کا بندوبست کریں گی ۔
یاد رکھیں سب سے خوبصورت اور معصوم و دلفریب پھول پوپی کراپ یعنی افیم کے پودے کا ہوتا ہے جسے دیکھ کر انسان مبہوت ہو جاتا ہے مگر اس کی تباہ کاریاں قومیں بانجھ کر دیتی ہیں اور نسلیں مفلوج، اس لئے کسی بھی ایسے نعرے کی تصوراتی خوبصورتی کا شکار بن کر معاشرتی و سماجی تانے بانے کو تتر بتر کرنے کی کسی سازش کا حصہ مت بنئے ۔
قاری حنیف ڈار بقلم خود


بہر حال، یہ عورت مارچ ، جس نے یوم خواتین کو ہائی جیک کرلیا ہے اب ہر سال ہوتا رہے گا، غیر متوازن رد عمل کو اچھال کر اس مارچ کے منتظمین جو شہرت اور لیوریج حاصل کریں گے اس کے فوائد و نقصانات کا اندازہ لگانا میرے لئے تو شائد ناممکن ہے، آپ ہی کوشش کرلیں۔
اگلی باری گے پرائڈ کے جلوس کی ہے، دیکھئے وہ کب نکلنا شروع ہوتا ہے۔

یہ بھی یاد رکھئے کہ “عالمگیریت کے سمندر میں کوئی جزیرہ نہیں ہوتا”۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں