Skip to content

مہذب دنیا اور ڈگری

وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ایک بیان پر سعد نے جو تبصرہ کیا ہے وہ اپنی جگہ پر، مگر میں خود حیران ہوں کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔

اگر ڈگری یا بالفاظ دیگر تعلیم کی اتنی بھی اہمیت نہیں‌ہے کہ اسے حکمرانی کے لئے لازمی قرار دیا جائے تو پھر کس چیز کے لئے یہ ضروری ہے؟ میرا خیال ہے یہ بیان دیتے وقت وزیر اّظم کے ذہن میں ماضی کے بہت سے مسلم یا غیر مسلم ان پڑھ بادشاہ تھے۔

اگر تعلیم حکمرانی کے لئے ضروری نہیں تو پھر میری ارباب بست و کشاد سے درخواست ہے کہ

پولیس
عدلیہ
میڈیکل پریکٹس
اساتذہ
انجینئرز
پاک فوج
پٹوار خانہ
صحافت
اور بہت سے ایسے شعبوں‌کو، ‌جن کی بنیاد تعلیم پر ہے اور ان میں تخصص کی بنیاد ڈگری پر ہے، ڈگری کی شرط سے مستثنٰی قرار دیا جائے۔

اوروں کا تو نہیں، کم از کم میرا بھلا ہو جائے گا کہ سپیشلسٹ کہلانے کے لئے کم از کم تین برس کی تعلیم اور پھر امتحان سے تو جان چھوٹ جائے گی۔

11 thoughts on “مہذب دنیا اور ڈگری”

  1. فيس بک چھوڑنے کا يہ اثر ہوا ہے کہ جہاں سال ميں ايک بلاگ آتا تھا وہاں دن ميں تين آ رہے ہيں اس پڑھائی کا کيا ہوا جو کرنی تھی
    .-= پھپھے کٹنی´s last blog ..حسن انتخاب _ 1 =-.

  2. ہمارے یہاں عطائیوں کا راج صرف میڈیکل کے شعبے تک محدود نہیں۔ تقریباَ تمام ہی شعبوں میں عطائیت رائج ہے۔

    یہ اچھا کہ سیاستدان بننا ہو تو کچھ نہ پڑھو، اور اگر کوئی دوسرا شعبہ اختیار کرنا ہو تو امتحانات سے گزرو۔

    اس موضوع پر جاوید چودھری کا مضمون بھی پڑھنے کے لائق ہے۔
    .-= محمداسد´s last blog ..گوگل ٹرانسلیشن میں اردو کی شمولیت =-.

  3. ہممم، مجھے بھی لگتا ہے کہ تعلیم کی وجہ سے فرق بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے اسکی ایک وجہ اور بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ دودھ کے گھڑے میں سے بالائ چاٹ کر نکلنے کے بجائے تعلیم کی وجہ سے ویکیوم کلینر ٹائپ کی چیزیں بنانے کا خیال آجاتا ہے جس سے کہ توانائ کا بحران پیدا ہوتا ہے اور زمین کا ماحولیاتی توازن خراب ہوتا ہے۔ اب آپکے اسپیشلسٹ ڈاکٹر بننے کا کیا فائدہ ہوگا۔ ادھر عطائ ، حکیموں کی وجہ سے جو آبادی میں قدرتی توازن موجود تھا وہ آپکی وجہ سے قائم نہیں رہے گا۔ نتیجے میں آبادی کو قابو میں رکھنے کے لئے بہبود آبادی والوں کی خدمات حاصل کرنی پڑیں گی جو کہ ناجائز ہے۔ اور محض آپکی وجہ سے ڈاکٹر صاحب معرکہ ء حق و باطل بپا ہو جائے گا۔ جس میں فتح عطائیوں کی ہوگی کیونہ انکے پاس ایسے دیسی نسخے ہیں جو——
    لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، سب ہی اپنے کاموں سے لگے ہوئے ہیں۔ آپکو بھی اپنے حصے کی دہی بلونے کے لئے مل جائے گی۔
    .-= عنیقہ ناز´s last blog ..کاربن کی تیسری بہروپی شکل =-.

  4. سارا معاملہ اس چیز پر آکر اٹک جاتا ہے کہ دراصل ہم کسی چیز کا اطلاق کس وجہ سے کررہے ہیں۔ ہمارے یہاں ڈگری کی شرط اور ڈگری نا ہونے کی شرط کا مقصد نظام کی بہتری کے بجائے مخصوص افراد کو انتخابات سے دور رکھنا یا پھر انکی شمولیت یقینی بنانا ہے۔
    بہت ممکن ہے کہ کوئی ایسا قابل انسان بھی موجود ہو جس کے پاس رائج تعلیمی اسناد نا ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اکثر جمہوری ملکوں میں بھی اسطرح کی شرط نا ہو لیکن یہ فیصلہ تو عوام ہی کرتی ہے آیا یہ شخص خواندہ یا ناخواندہ ہمارے معاملات حل کرنے کا اہل ہے یا نہیں۔ ہاں وزارت اور سفارت کے لیے اگر امریکہ کی تقلید کرلی جائے تو کوئی حرج نہیں تاکہ جس شخص کو اہم عہدے دیے جارہے ہیں ان کی ساری چیزیں عہدہ ملنے سے پہلے سامنے آجائیں۔۔ لیکن بات وہی کہ اطلاق کا مقصد عموم کی بہتری ہے یا مخصوص نوازی۔

  5. اصل مسئلہ انتخابات ميں سند کی شرط ہونا يا نہ ہونا نہيں ہے بلکہ جعلی سند رکھنا جرم ہے اور مجرم کو منتخب کرنا يا کروانا بھی جرم ہی بنتا ہے جو ہمارے وزير اعظم صاحب نے کيا ہے مگر يہ کوئی نئی بات نہيں سب سياستدان ايسا ہی کرتے ہيں ۔ عوام ميں سے اور تعليم يافتہ ہونے کا سب سے زيادہ دعوی کرنے والے اور اپنے آپ کو حق پرست کہنے والے کل آمر کی حکومت ميں شامل تھے آج لُٹيروں کی حکومت ميں شامل ہيں ۔ تين سال قبل 12 مئی کو جب کراچی جل رہا تھا تو يہ حق پرست آمر کے حق ميں نعرے لگا رہے تھے ۔ آپ دين کی بات کريں گے تو سب سياستدان مل کر آپ کو مُلا جاہل انتہاء پسند کہيں گے ۔ آپ محنت کريں اور چُپ چاپ اپنی تعليم مکمل کريں اور جو اچھا کام آپ کر سکيں کرتے جائيں باقی اللہ پر چھوڑ ديں
    .-= افتخار اجمل بھوپال´s last blog ..چالاک مگر بيوقوف شخص =-.

  6. پیپلز پارٹی کے حوالے سے عباس اطہر کے تعصب اور جانبداری کا تو میں‌پہلے سے قائل تھا، آج کا کاکم پڑھنے کے بعد تو دل کرتا ہے اس متعصب انسان کا مرید بنا جائے۔
    http://express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1100940946&Issue=NP_LHE&Date=20100515

    پھپھے کٹنی صاحبہ:: اتائی ڈاکٹر تو کسی صؤرت میں نہیں، کہ باقاعدہ طور پر شب و روز کی محنت کے بعد ایک سند حاصل کی ہے میں‌نے۔

    محمد اسد صاحب:: آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ سیاست دان کا کام کیا ہے۔ اگر یہ کام روز مرہ زندگی کے ایک مخصوص‌شعبے کو متاثر کرتا ہے تو شائد تعلیم کی اتنی ضرورت نہیں، کہ آپ کو بڑے بڑے شہروں میں‌بہت قابل اور مہنگے درزی یا حجام تعلیم کے بغیر بھی اچھا خاصا کماتے نظر آ جائیں گے، مگر سیاست دان تو پارلیمنٹ کا رخ کرتے ہیں جہاں سے وہ ایسے فیصلے کرتے نظر آئیں گے جو ملک و قوم کی قسمت پہ اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ کیا آپ اپنے بچوں کو اسلامیات کی تعلیم ایسے استاد سے دلوانا پسند کریں‌گے جو ان پڑھ ہو ، یا جعلی اسناد کا حامل ہو؟

    عنیقہ صاحبہ:: وہ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

    وائے ناکامی متاع کاروان جاتا رہا
    کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

    راشد کامران:: عربی کا ایک مقولہ ہے کہ العوام کالانعام۔ یعنی عوام کی مثال ایسے ہے جیسے مویشی۔ اور اس مقولے کی بنیاد بھی یہ تھیوری ہے کہ آپ ملک و قوم کے مسائل عوام کے لئے حل کرنے کو نہیں‌چھوڑ سکتے۔

    مشرف نے ڈگری کی شرط بے شک کچھ مخصوص افراد کو باہر رکھنے کے لئے عائد کی ہوگی، مگر کیا یہ شرط اتنی ہی بری ہے کہ اس کو یکسر بھلا دیا جائے؟
    کیا بغض مشرف میں اتنا آگے بڑھ جایا جائے کہ تعلیم کی اہمیت کو سر عام گھٹانا شروع کر دیا جائے؟ میں اپنا سوال دوبارہ دہراتا ہون:: کیا تعلیم کی اتنی بھی اہمیت نہیں‌کہ یہ ملک و قوم کے انتظامات کو چلانے کے لئے ضروری قرار دی جائے؟

    اور جمشید دستی صاحب نے تو باقاعدہ اعتراف کیا ہے۔ جعلی ڈگری رکھنے کے الزام کا جواب نہ دے سکنے کے باعث انھیں‌استعفیٰ دینا پڑا۔ یہ وہ بات ہے جو افتخار اجمل صاحب نے بھی کی ہے۔

  7. پاکستان میں ڈگری نہ ہونے کی رعایت صرف اس لئے دی جا سکتی ہے کہ ہماری تعلیمی شرح شرمناک حد تک کم ہے اسکی جہاں اور بہت سی وجوہات ہیں وہاں عوامی سطح پہ غیر تعلیم یافتہ لوگوں کی محبت اور تعلیم یافتہ لوگوں کی راہ کی دیوار بننا بھی ایک وجہ ہے۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے پیدا پونے والی شرمندگی کو اس طرح سے ڈھانک کر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس طرح سے اندھا کانوں میں راجہ بنا رہتا ہے۔ اسکے ارد گرد لوگ چونکہ اس سے بھی کم ہوتے ہیں اس لئے اسکی چاپلوسی اسکی جے جے کار میں لگے رہتے ہیں۔
    اکبر ایک ان پڑھ بادشاہ تھا۔ زبر دست تھا کہل اس بات کا اہتمام رکھتا تھا کہ پڑھنا نہیں آتا تو کیا ہوا پڑحوا کر سن لے۔ اس نے اپنی زندگی میں سینکڑوں کتابیں پڑھوا کر سنیں۔ اسکے باوجود اگر اسے جس جگہ ناکامی ہوئ وہ اسکی ان جگہوں پہ مداخلت تھی جسکا اسے علم نہ تھا۔
    ایک ایسے زمانے میں جب کمپیوٹر لٹریسی ایک عام شخص کے لئے ضروری ہوتی جا رہی ہے یہ کہنا کہ ایک غیر تعلیم یافتہ شخص بھی اپنے علاقے کی خدمت انجام دے سکتا ہے کوئ معنی نہیں رکھتا۔ کل تک انلگلش آنا ضروری سمجھا جاتا تھآ اور وہ دن دور نہیں جب کمپیوٹر کی بنیادی زبان سمجھنا ضروری ہوگا۔ کیا کریں گے یہ لوگ اس وقت۔ کون سے عوامی مسئلے حل کریں گے۔ گلی کی گٹر لائن بھی صحیح کروانے کے لائق نہیں رہیں گے۔
    یہ جہالت ہی ہے جو عوام کے اپنے دشمنوں کو اپنے ووٹوں سے منتخب کر کے لاتے ہیں۔
    ادھر جہالت نے طالبان جیسے عناصر کو جتنی زرخیزی سے پھلنے پھولنے میں مدد دی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
    پورے ملک کو جنگ کی آگ میں بھسم کرنے والے نظر نہیں آتے البتہ سوئ بارہ مئ پہ اآٹکی رہتی ہے۔ جہالت کی سرپرستی کر کے کیا ملے گا۔ لیکن سلام ہے انکی ثابت قدمی پہ۔ اے جہالت زندہ باد، اے جہالت پائندہ باد۔
    یہ سوال ضرور پوچھنا چاہوبگی کہ ان حق پرستوں کوحال ہی میں پنجاب میں ایک ہی وقت میں تین جگہوں پہ کنونشن کرنے میں کیسے کامیابی ہو گئ۔ اسکی کیا وجوہات ہیں۔ ایسا نہ ہو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گذر جائے اور آپ کہیں ہمیں خبر ہی نہ ہوئ۔
    .-= عنیقہ ناز´s last blog ..کاربن کی تیسری بہروپی شکل =-.

  8. ہمارے مسائل کی ایک بڑی وجہ ہمارا انتخابی نظام ہے اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتیں ۔ جنہوں نے عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کی بجائے ذاتی مفادات کے بعد پارٹی مفادات کا خیال رکھا ہے ۔ جب معاشرہ ہی دولت کے حصول کے لئے جائز و نا جائز میں تمیز کھو دیتا ہے تو پھر گنجائش کیا رہ جاتی ہے ۔ لیڈر بھی اسی معاشرے کے شہری ہیں ۔ ووٹ انہیں دئے جاتے ہیں جو جیتنے کی اہلیت رکھتے ہوں نہ کہ ڈگریوں سے اہلیت ثابت کریں ۔ میرا ذاتی تجربہ ہے دہہی علاقوں میں ان پڑھ ووٹر امید وار کی طاقت سے مرعوبیت پر ووٹ دیتا ہے ۔ پڑھا لکھا تو صرف ماسٹر ہی کہلانے کا حقدار ہے ۔
    .-= محمودالحق´s last blog ..زنجیرِ عدل کی گونج سوزِ گدا میں ہوں =-.

  9. یہ بات بالکل سمجھ میں آتی ہے کہ مشرف دور حکومت میں بعض صاحبان کو باہر رکھنے کے لیے ڈگری کی شرط لگائی گئی۔ اس کے علاوہ مدارس کی اسناد کو قبول کیا جانے والا بھی شکوک سے خالی نہیں۔

    لیکن اس قانون سے دراصل فائدہ تعلیمی نظام کو ہونا چاہیے تھا جو کہ جعل سازوں اور نقل مافیاء کی وجہ سے نا ہوسکا۔ اگر کوئی صاحب عقل شخص اسمبلی کا رکن بننے کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے دو چار سال محنت کرکے کسی بھی شعبہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ جہاں ہمارے ان پڑھ سیاستدان اتنی ساری سرگرمیاں کرتے ہیں، وہیں تھوڑا ٹائم تعلیم کے لئے بھی نکالیں تو کوئی حرج بھی نہیں۔ اور جب تک کوئی خود تعلیم سے آراستہ نہ ہو، وہ بھلا کیسے تعلیم کی اہمیت اور افادیت کو جان سکتا ہے۔
    .-= محمداسد´s last blog ..گوگل ٹرانسلیشن میں اردو کی شمولیت =-.

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں