Skip to content

مکمل ۔۔ قصہ پانچویں درویش کا ۔۔

‘صاحبو’ درویش نے قہوے کی پیالی سے ایک گھونٹ پینے کے بعد سر اٹھا کر کہا

‘ آج سردی واقعی کچھ زیادہ ہے، اور اگر مجھے آپ جیسے مہمان نوازوں کی رفاقت نصیب نہ ہوتی تو شائد میری قلفی بن جاتی جسے والز والے بازار میں بیچ ہی ڈالتے’۔

درویش کے پاس بیٹھے چاروں درویشوں کی ظاہری حالت میں کوئی فرق نہ آیا۔ دائیں ہاتھ والا درویش اسی طرح سگریٹ سے ‘راکٹ’ بنانے میں مصروف رہا۔ سامنے والا درویش اسی طرح اپنے موبائل فون کی سکرین کو دیکھتا رہا جیسے اسے کسی کی فون کال کا انتظار ہو۔ موبائل فون میں بیٹری نہ ہونے کے باوجود اس کے انہماک میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ بائیں ہاتھ والا درویش کبھی مسکراتا، کبھی اس کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہو کر غائب ہو جاتیں اور کبھی وہ ادھ بجھا سگریٹ منہ میں لے کر، ہاتھ سر کے پیچھے باندھ کر اپنی جگہ پر یوں ہولے ہولے جھولنے لگتا جیسے وہ کسی نیٹ کیفے میں چیٹنگ کر رہا ہو اور دوسری جانب سے کسی بات کے جواب کا انتظار کر رہا ہو۔ چوتھا اور آخری درویش بار بار اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھ کر دیوار پر ٹنگی گھڑی سے وقت کا موازنہ کرتا اور بڑبڑاتا ‘پتہ نہیں اس نے دس بجے نئے ٹائم کا کہا تھا یا پرانے ٹائم کا؟’۔

یہ پانچواں درویش اتنا بے حال تھا کہ اس نے سب سے پہلےتو قہوے کی پیالی پر ہاتھ صاف کیا اور پھر کمرے میں موجود پیزے کو بھی اپنا مال سمجھ کر ہڑپ کر گیا۔ اس پر دائیں ہاتھ والے درویش نے اِس کو گھورتے ہوئے کہا، ‘ یہ راکٹ نہ بنانا ہوتا تو اتنا فری نہ ہونے دیتا تمھیں۔ آرام سے بیٹھو۔’

چوتھے درویش نے گھڑیوں سے نظر ہٹا کر نو وارد کی طرف دیکھا اور کہا،‘ معاف کرنا بھائی، اس نئے اور پرانے ٹائم کے سیاپے میں تو ہم آپ کا پوری طرح خیر مقدم بھی نہ کر سکے، ویسے بھی وہ پیزا چار دن پرانا تھا، ہمارا تیسرا درویش چیٹنگ سےفارغ ہونے کے بعد کھانے کا ارادہ رکھتا تھا مگر اچھا ہوا آپ نے کھا لیا، اب ایک نیا پیزا آسکتا ہے۔ ہم چار درویش تو زمانے کے ستائے ہوئے اس کونے میں آ بیٹھے ہیں جہاں ہمیں بجلی، پانی اور گیس کے بلوں کا غم نہیں ہے، ہم سب نے تو دل کا بوجھ ایک دوسرے کو سنا کر ہلکا کر ڈالا ہے، آپ بتاؤ کس چکر میں یہاں تک آ پہنچے ہو؟ کو ئی بچی وچی ۔۔۔۔۔؟’

تِس پر پانچویں درویش کا چہرہ شرم سے اتنا لال ہوا کہ پہلے درویش نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا اور پوچھا ‘اوئے یہ کس نے سگریٹ لگا لیا ہے؟’ اور سامنے والے درویش نے فورا اپنے موبائل کو کان سے لگا کر کہا‘ ہیلو ہیلو، تم کچھ کہتی کیوں نہیں ہو، دیکھو میرا موبائل بھی غصے سے لال ہو چکا ہے’۔ اور بائیں ہاتھ والا درویش اسی طرح مصروف رہا۔۔۔

پانچویں درویش نے ایک ڈکار لی، اور دیوار سے ٹیک لگا نے کے بعد بولا ‘ بھائیو، اس حقیر پُر تقصیر کا قصہ بڑا غمناک ہے۔ سنو گے تو دل پھٹ جائے گا، جگر سے خون بہ نکلے گا اور پھیپھڑے سانس لینے کو ترسیں گے، ٹانگیں چلنے سے انکار کردیں گی اور آنکھیں اتنی پھیل جائیں گی کہ آپ کو اے ایف سی سے پیزا چرانے کا طریقہ سامنے نظر آئے گا۔ ’

بائیں ہاتھ والے درویش نے تخیلاتی لیپ ٹاپ کمپیوٹر کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہا ، ‘ لگتا ہے آپ کسی زمانے میں ڈاکٹر رہے ہو، تبھی اتنی باتیں کر رہے ہو’۔ اس پر پانچویں درویش نے سر جھکایا، ایک اتنی ٹھنڈی سانس لی کہ پہلا درویش کانپا اور اس کے ہاتھ سے وہ ‘راکٹ’ گر گیا جو ابھی تیاری کے مراحل میں تھا، اور باقی درویش کمرے کے کونوں کھدروں میں پناہ لینے کو بھاگے۔۔

کمپیوٹر والے درویش نےایک کونے سے چِلّا کر کہا، ‘کہیں تم خنزیر والی فلو تو ساتھ نہیں لے آئے؟ مروا نہ دینا بھائی’۔ پانچویں درویش نے سر اٹھایا،ایک مرتبہ پھر زور سے سانس لی اور گلا صاف کرنے کے بعد بولا، ‘صاحبو! میری داستان سُن لو، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ میرے کلینک پر آئے تو میں فیس نہیں لوں گا ، بلکہ صرف دوائیوں میں اپنا حصہ ہی وصول کروں گا، شفا تو ویسے بھی للللہ کے ہاتھ میں ہے’۔

اس پر باقی درویشوں کا خوف لالچ کی وجہ سے کم ہوا اور وہ گیس کے ہیٹر کے پاس آ بیٹھے اور پہلے درویش نے زمیں پر گرے راکٹ اور اس کے ایندھن کی تلاش دوبارہ شروع کر دی ۔۔۔

پانچواں درویش یوں گویا ہوا۔

‘ صاحبو !! اتنی درد ناک کہانی آپ نے اس سے پہلے طلسم ہوشرُبا میں بھی نہ پڑھی ہو گی۔۔ فدوی ایک عدد ڈگری کا مالک ہے، جس کے حصول کے بعد فدوی کو لوگوں کے علاج کے بہانے ان کو لوٹنے کی اجازت سرکار سے عطا ہوئی ہے۔ فدوی کافی عرصے سے ایک خوشحال زندگی گزار رہا تھا کہ لیڈری کے شوق نے اسے پھنسا دیا۔ ہوا یوں کہ محلے کی مسجد کی تعمیر نو کے بعد اہل محلہ کا اجلاس ہوا اور نئے امام کی تقرری کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی۔ اس حقیر پر تقصیر کی کمبختی آئی ہوئی تھی کہ یہ اس اجلاس میں شریک تھا۔ مسلکی اختلافات کی بنیاد پر پہلے والے امام صاحب کی جگہ قریشی صاحب کے تجویز کردہ امیدوار کو منتخب کر لیا گیا۔

نئے امام صاحب کے انتخاب کے موقع پر اس ناچیز کے اعتراضات اور پرانے شریف النفس امام صاحب کی حمایت میرے لئے کیا گُل کھلائے گی، اگر مجھے اس کا علم ہوتا تو آج میں یہاں آپ کے پاس نہ بیٹھا ہوا ہوتا، بلکہ اپنے کلینک میں بیٹھا نوٹ چھاپ رہا ہوتا۔۔

بہرحال، ساتھیو۔۔ ابا جی کی مذہبی سوچ اور اس ناچیز کی سستی کا نتیجہ یہ تھا کہ انہوں نے جو مکان رہنے کے لئے منتخب کیا وہ عین مسجد کے سامنے تھا۔ ’

‘سبحان اللہ’ پہلے درویش نے سگریٹ کو احتیاط سے تھام کر اپنی نظروں کے سامنے لا کر بڑی عقیدت سے کہا ، ‘ اس مرتبہ مال اچھا ملا ہے’۔ اس پر بائیں ہاتھ والے درویش نے پہلے تو پُر اشتیاق نظروں سے پہلے درویش کو دیکھا اور پھر پانچویں درویش کو مخاطب کر کے بول، ‘ معاف کیجئے گا، یہ تو ہے ہی مجذوب ٹائپ، اسے کیا پتہ محفل کے آداب کا، آپ اپنی بات جاری رکھئے’ ۔۔

پانچویں درویش نے ممنونیت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے سلسلہ کلام کو جاری رکھا اور بولا ‘ شروع میں تو مسجد کا قریب ہونا اچھا تھا، مگر جب سے قریشی صاحب کا منتخب کردہ امیدوار آیا، اس نے ہماری زندگی اجیرن کر کے رکھ دی۔ ملک کےایک آفت زدہ علاقے سے تعلق ہونے کے علاوہ اس میں کوئی ایک خاص خوبی نہ تھی۔ قرأت گزارہ لائق تھی اور دینی مسائل سے واجبی سی واقفیت کے علاوہ قریشی صاحب سے جان پہچان موصوف کی واحد قابلیت تھی۔ چونکہ اہل محلہ کسی نہ کسی انداز میں قریشی صاحب کے احسانات کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے، لہٰذا فدوی کا اختلاف رائے ایک بہت بڑی گستاخی سمجھا گیا اور فدوی کے اور قریشی صاحب کے درمیان اختلافات گہرے ہوتے چلے گئے۔

‘ افسوس’ سامنے والے درویش نے موبائل سے نظریں ہٹا کے سر تأسف سے ہلایا، ‘ ٹیلی نار اور موبی لنک نے عید کے دنوں میں ایس ایم ایس پیکج بند کرد ئے جس کی وجہ سے آج میں یہاں اس حال تک پہنچا ہوں۔ لعنت ہے اس لالچ اور منافع خوری پر۔ ویسے بھائی جی، یہ زونگ کیسا ہے؟ سنا ہے لوگ بڑے خوش ہیں اس سے؟ ’

پانچویں درویش نے پیزے کے ڈبے میں ہاتھ مارا کہ شائد کوئی بچا کھچا ٹکڑا مل جائے مگر ناکامی کا منہ دیکھنا نصیب ہوا، اس پر اُس نے سلسلہ کلام پھر جوڑا اور گویا ہوا ‘ ایک صبح، جب میں رات کی ڈیوٹی کے بعد تھکا ہارا گھر آ کر سونے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ ایک ہیبت ناک آواز نے مجھے جگا دیا، میں ہڑبڑا کر بستر سے گر پڑا اور میرے ذہن میں پہلا خیال صور اسرافیل کاآیا، پھر ایک دم اپنے کلینک کا خیال آیا، کہ آج تو جو دیہاڑی لگنی تھی، وہ بھی ضائع ہو جائے گی، کہ اس اثنا میں بیگم صاحبہ غصے سے اونچی آواز میں کچھ بولتے کمر ے میں آ دھمکیں۔ ‘ اچھا تو آرام فرمایا جا رہا ہے’ بیگم صاحبہ نے طنز کیا۔

‘نہیں بیگم میں تو تیاری کرنے لگا تھا’ فدوی نے ہکلا کر جواب دیا۔

‘کہاں کی’

اس میدان میں جانے کی جہاں آج سب کاحساب ہوگا’

‘کیا واہی تباہی بک رہے ہو؟ کیا ہو گیا ہے آج آپ کو؟ کہیں گردن توڑ بخار دماغ پر تو نہیں چڑھ گیا؟ ’

‘ نہیں نہیں بیگم، کیا آپ نے صور اسرافیل علیہ السلام نہیں سنا؟’ ہم نے بیگم کی توجہ اس بھیانک آواز کی طرف دلائی جو اب کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی تھی۔

اس بیگم نے ایک طنزیہ قہقہہ لگا کر بتایا کہ یہ صور اسرافیل نہیں بلکہ نئے امام صاحب ہیں جو اب ہر جمعہ کے دن صبح لاؤڈ سپیکر پر درس دیا کریں گے اور انھوں نے اب تلاوت کے بعد قصیدہ بردہ شریف کا ورد کرنا شروع کر دیا ہے۔۔ غور کیا تو بیگم کی بات درست معلوم ہوئی ۔

صاحبو، اپنا سر پکڑنے اور قریشی صاحب اور ان کے چمچے کو صلواتیں سنتے جو دن گزرا، اس دن واقعی کلینک میں بھی دیہاڑی نہ لگ سکی۔’

‘ آہ’ پہلے درویش نے ایک گہری سانس لی اور کمرہ ایک مانوس سی خوشبو سے بھر گیا۔

بائیں ہاتھ والے درویش نے لپک کر پہلے درویش سے سگریٹ لیا اور ایک گہرا کش لے کر بولا، ‘ مہمان نوازی کے آداب یہ ہیں کہ مہمان کی آپ بیتی سنو، اب یہ سیگریٹ بحق سرکار ضبط ہو چکا ہے’ اور یہ کہتے ہی سیگریٹ سمیت اپنی جگہ پر واپس چلا گیا۔

سامنے والے درویش نے چوتھے درویش سے پوچھا، ‘ کیا خیال ہے گھنٹہ پیکج کا ٹائم شروع ہو گیا ہوگا؟ ’ جس پر چوتھے درویش نے اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے پانچویں درویش کو مسکراتے ہوئے بات جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔

پانچویں درویش نے اپنی جیب سے ایک ڈائری نکالی، اور کچھ صفحات پلٹنے کے بعد بولا ‘ ایک دن ہوتا تو بات تھی، انسان نظر انداز کر دیتا ہے، مگر قریشی صاحب نے تو گویا مجھے زِچ کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ ہر دوسرے دن کسی نہ کسی بہانے لاؤڈ سپیکر پر پوری طاقت سے کوئی نہ کوئی مذہبی محفل پورے محلے کو سنائی جاتی۔ ایک دن فدوی نے فیصلہ کیا کہ اب بزور طاقت ہی بات منوانی ہو گی، اور جب حسب معمول جمعرات کی شام مغرب کی نماز کے بعد لاؤڈ سپیکر پر درس حدیث اور اس کی تشریح شروع ہوئی تو اس حقیر نے اپنے بیٹے کا کرکٹ کا بَلّااٹھایا اور مسجد کی جانب چل نکلا۔ وجہ صرف اتنی تھی کہ ایک دور پار کے عزیز گھر پر ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد آئے تھے اور ڈاکٹر صاحب نے شدید تاکید کی تھی کہ ان کو شور سے بچایا جائے، ورنہ ان کا درد شقیقہ بگڑ بھی سکتا ہے۔ اور ہوا بھی وہی۔’

‘ اوئے یہ کیا تماشہ لگایا ہوا ہے!’ پہلے درویش نے بگڑ کر کہا، ‘ساری محنت میں نے کی اور مزہ تم لے رہے ہو؟’ اور اس نے اُٹھ کر تیسرے درویش سے راکٹ چھین لیا۔

‘ میری دلی خواہش تھی کہ دونوں میں سے کسی ایک کا سر پھوڑ دوں، مگر جب میں مسجد کے دروازے پر پہنچا تو وہاں قریشی صاحب دوسرے معززین محلہ کے ہمراہ غالبا میرے ہی ا نتظار میں کھڑے تھے اور فاتحانہ نظروں سے میری جانب دیکھ رہے تھے۔

‘اس دن کی ذلت آمیز پسپائی میرے ذہن پر بوجھ بن کر رہ گئی اور میری سوچ کا محور صرف انتقام ہی رہ گیا۔ قریشی اور اس کے چمچے سے انتقام۔ ’

سامنے والے درویش نے پہلی مرتبہ اس روداد میں دلچسپی لیتے ہوئے کہا، ‘ اگر قریشی صاحب کا نمبر ہے آپ کے پاس تو ذرا دیں، میں ان کا دماغ ٹھیک کر سکتا ہوں یہاں بیٹھے بیٹھے، مگر نمبر میرے نیٹ ورک کا ہونا چاہئے’

پانچویں درویش نے اس فراخدلانہ پیش کش کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی روداد جاری رکھی۔

‘ صاحبو، اس دن کے بعد فدوی نے اپنی کتابیں کھولیں اور قریشی کو جہنم رسید کرنے کے ایسے طریقے ڈھونڈنا شروع کئے جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔’

‘سانپ !! سانپ !! ’ اچانک پہلے درویش نے اچھلنا کودنا شروع کر دیا ، وہ کافی دیر سے سگریٹ کے گہرے کش لے رہا تھا اور اس حرکت کی وجہ سے کمرے میں ہل چل سی مچ گئی۔ چوتھا درویش سانپ سے بچنے کے لئے دروازے کی جانب بھاگا مگر دوسرے درویش کو پھلانگ نہ سکا اور اس کے اوپر جا گرا۔ بائیں ہاتھ والے درویش نے اپنی ٹانگیں یوں اٹھا لیں جیسے کرسی پر اس طرح بیٹھنے سے وہ سانپ سے محفوظ ہو جائیگا۔ پانچواں درویش کچھ دیر تک تو حیران و پریشان کھڑا اس ہڑبونگ کو دیکھتا رہا،پھر اس نے گلا پھاڑ کر کہا، ‘ رک جاؤ، یہ کیا ہنگامہ ہے؟ ’

اس پر چوتھے درویش نے کہا، ‘ کمرے میں سانپ گھس آیا ہے’

‘کہاں ہے سانپ؟’ پانچویں درویش نے غصے سے کہا،‘ وہ تو میں نے محاورہ استعمال کیا تھا’

اس پر سب درویش کھسیانی سی ہنسی ہنستے ہوئے اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئے ۔ بائیں ہاتھ والے درویش نے اپنا تخیلاتی لیپ ٹاپ کمپیوٹر بند کیا اور پانچویں درویش سے مخاطب ہوا، ‘ میرا خیال ہے ، برادر،آ پ اپنے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد اب احساس گناہ کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہو، تبھی اس ویرانے میں آ پہنچے ہو۔ ’

اس پر پانچویں درویش نے اپنا سر نفی میں ہلایا اور بولا، ‘ اگر میں عمل کر گزرتا تو بات ہی کیا تھی۔ یہ تو میری بے عملی ہے جس نے مجھے اس حال تک پہنچایا ہے۔ ’

‘ ہوا یوں کہ میں نے سب سے پہلے قریشی صاحب سے انتقام کا جو طریقہ منتخب کیا وہ یہ تھا کہ میں منہ پر نقاب ڈال کر ان کے گھر کود جاؤں او ر ان کو قتل کر ڈالوں، لگے ہاتھوں جو مال غنیمت ہاتھ آئے اسے اپنے کلینک کی آرائش کے لئے استعمال کر لوں’

‘اتنا مشکل طریقہ ڈھونڈنے کی کیا ضرورت تھی ’ سامنے والے درویش نے کہا‘ ڈاکٹر صاحب، اس کا علاج شروع کر دیتے، اللہ اللہ خیر صلا۔’

‘بات تو تمھاری ٹھیک ہے،’ پانچویں درویش نے کہا، ‘ اور اس وقت اچھی لگی جب مجھے یا د آیا کہ قریشی صاحب کے گھر کے کتے رات کو کھلے ہوتے ہیں، میں ٹھہرا شریف آدمی، اور کتوں سے مجھے طبعی کر اہت محسوس ہوتی ہے’

سلسلہ کلام جوڑتے ہوئے پانچواں درویش گویا ہوا ‘ پھر علاج والی بات اس لئے بھی ناممکن تھی، کہ قریشی صاحب نے کھلے عام مجھے شہر کے قبرستان کے گورکن کا بزنس پارٹنر ٹھہرایا تھا اور جواب میں میں نے انھیں کفن چوری اور مردوں کے سونے کے دانت چوری کرنے سمیت نہ جانے کِن کِن دھندوں میں ملوث قرار دیا تھا، لہٰذا ان کا مجھ سے علاج کرانا تو ناممکن ٹھہرا، ورنہ دوا بدل دینا تو ۔۔۔ خیر اپنے منہ میاں مٹھو بننا نہیں چاہتا۔’

‘ ایک دن خیال آیا کہ کیوں نہ شہر کے نامی گرامی غنڈے سے کسی اجرتی قاتل کی مدد حاصل کی جائے، تھوڑا پیسہ خرچ تو ہوگا مگر کام پکا ہوگا، اس لئیے ایک دن جی کڑا کے غنڈے کے اڈے پر جا پہنچا۔ اُس نے حیرانی سے مجھے دیکھا، مگر کچھ کہنے سے پہلے چائے منگوا لی۔ خاموشی سے چائے پی رہا تھا کہ غنڈے کو ایک فون آگیا، کسی نے اپنے بیٹے کے ختم قرآن کی تقریب میں اسے مدعو کیا تھا، فون رکھنے کے بعد جب اس نے مجھے بتایا کہ یہ فون قریشی صاحب کا تھا تو میں کچھ کہے بغیر واپس آگیا’

‘افسوس’، پہلے درویش نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کے کہا، تمام جیبیں ٹٹولنے کے باوجود بھی اسے دوسرے راکٹ کا ایندھن نہیں مل پایا تھا۔

‘ بہر حال ’ پانچویں درویش کو اب بات کرنے میں آسانی محسوس ہو رہی تھی، ‘ میں نے ہمت نہیں ہاری اور ایک دن ٹیلیفون کی پرانی تار کا ایک ٹکڑا نکالا اور ارادہ کیا کہ صبح جب قریشی صاحب نماز کے لئے آئیں گے تو اندھیرے میں ان کا گلہ اس تار سے دبا ڈالوں گا۔ سردیاں شروع ہو چکی تھیں اور مجھے ایک ہفتہ مسلسل سردی میں انتظار کے بعد علم ہوا کہ قریشی صاحب تو فجر کی نماز پڑھتے ہی نہیں، اور پھر غصہ اس بات پر آیا کہ کس طرح فجر کی نماز کے فضائل بیان کرتے وقت قریشی صاحب اپنا روئے سخن میری جانب موڑ لیا کرتے ہیں۔ میرے تن من میں آگ سی لگ گئی اور یہ عزم اور پختہ ہو گیا۔

‘ ایک دن جی کڑا کے ایک افغانی سے ایک عدد پستول خرید لیا کہ اب آر یا پار ، تخت یا تختہ کے مصداق لاؤڈ سپیکر کے اس عذاب سے جان چھڑانے کے لئے ایک عدد بڑا قدم اٹھانا ہی ہوگا۔ مگر اس سے پہلے کہ اس پر عمل ہوتا،‘صاحبو!! کل ہی کی بات ہے، بیگم نے وہ پستول میرے ہاتھ میں دیکھ لیا اور اس کے بعد بیگم کو ہنسی کا وہ دورہ پڑا کہ الاماں الحفیظ۔ ‘ کہنے لگیں کہ مجھ جیسا آدمی جو مکڑی سے ڈرتا ہے، اب پستول بھی چلائے گا؟ ’ صاحبو جب بیگم ہنستے ہنستے بے ہوش ہوئیں تو دل کو اس تذلیل کے بعد یک گونہ سی خوشی ہوئی کہ چلو، قریشی نہ سہی، بیگم ہی سہی، مگر افسوس۔۔۔ دونوں زندہ ہیں اور دن دھاڑے میرے جگر کا خون جلا رہے ہیں’۔

صاحبو اپنی یہ عزت افزائی برداشت نہ ہو سکی مجھ سے، کافی دیر تک سوچتا رہا کہ اب کیا کروں اور پھر جو حل سمجھ میں آیا وہ یہی نکلا کہ اس ویرانے میں نکل آؤں اور اپنی باقی زندگی گزار لوں۔۔

اور اب میں آپ کے سامنے ہوں۔ ’

یہ کہہ کر پانچویں درویش نے دیوار سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں اور خاموش ہو گیا۔۔

چاروں درویش کچھ دیر تو خاموش رہے ، پھر چوتھا درویش آگے بڑھا اور پانچویں درویش کے پاؤں چھو کر بولا، ‘ آپ تو مہان ہو، آپ نے تو ہم سے زیادہ اذیتیں سہی ہیں ،آج سے آپ ہمارے گرو ہو، اگر آپ ہمارے ساتھ رہو گے تو ہمیں خوشی ہو گی۔۔۔ ’

‘ دَم مارو دَم ’ پہلے درویش نے نعرہ لگایا اور جھومنے لگا ‘ مِٹ جائیں سارے غم’ ۔۔۔

9 thoughts on “مکمل ۔۔ قصہ پانچویں درویش کا ۔۔”

  1. تو گویا بات یہ ثابت ہوئی کہ کچھ کم علم اور جاہل نما مولوی نما لوگوں نے لوگوں کا جینا اجیرن کر رکھاہے۔ بات کسی حد تک درست بھی ہے خاصکر نہائت طاقتور لاؤڈ اسپیکرز پہ گلا پھاڑ کر بغیر کسی الحان اور اسلامی حکم کے ہر وقت بے وقت اہل محلہ اور بستی کو اپنے وعظِ مبارک سے یہ ثابت کرنا کہ ان سے بڑھ کر کوئی بڑا عالم فاضل اس زمانے میں نہیں ہے۔ درست ۔ اور کس کی مجال کہ وہ انگلی اٹھانا تو کُجا نرم لفظوں میں ہی سہی ایسا نہ کرنے کی مولوی صاحب سے التجاء کرے۔ اسی وقت کفر اور الحاد کے فتوے جاری ہوجائیں گے۔ اور صاحبِ التجاء ہر ایک سے منہ چھپاتا پھرے گا۔ اسے کہتے ہیں چوری اور سینہ زوری۔ یعنی باالفاظِ دیگر مذہبی بلیک میلنگ۔

    میری ذاتی رائے میں نئی نسل کو دین سے برگشتہ کرنے میں ایسے مولویوں کا بھی بہت عمل دخل ہے، جو محض اپنے پیٹ کو پالنے کے لئیے مساجد پہ قبضہ کئیے بیٹھے ہیں۔

    میری رائے میں محلے کی جامع مسجد کو چھوڑ کر باقی سب مساجد میں اذان بغیر لاؤ اسپیکر ز کے چھت یا میانر پہ چڑھ کر مؤذن بغیر لاؤڈ اسپیکرز کے اپنی اصل آواز پہ ازان دے۔ جیسے اسلام میں شروع دن سے ہوتا آیا ہے۔ البتہ شہر کی آبدی کے حساب اور جغرافیائی حدود کے حاسب سے ہر چند کلومیٹرز کے بعد ایک جامع مسجد کو اسپیکر پہ اذان دینے کی اجازت ہونی چاہئیے۔ اور واعظ اور درس کے بھی کچھ ضابطے مقرر کئیے جائیں۔ تانکہ گھروں میں بیمار پڑے لوگ اور چھوٹے بچوں وغیرہ پریشان نہ ہوں۔ کیونکہ یہاں تو یہ عالم ہوتا ہے کہ ایک ہی محلے میں کئی ایک مولوی حضرات اپنی اپنی مساجد میں اپنے آپ کو ایک دوسرے سے بڑا عالم ثابت کرنے کے لئیے گھنٹوں کے حساب سے ایک ہی وقت میں سب مولوی اہل محلہ کی جان ؑزاب کئیے رکھتے ہیں اور طاقتور اسپیکرز کی وجہ سے کان پڑی آواز سانئی نہیں دیتی۔

    بہر حال یہ میری ذاتی رائے ہے۔ اور ضروری نہیں کہ دین کی رُو سے درست ہو۔ اس بارے میں حکومت کو علماء سے مشاورت اور رضا مندی سے کوئی قاعدہ قانون بنانا چاہئیے۔ یاد رہے علماء سے پوچھنے کاکہا ہے۔ مولوی حضرات سے پوچھنے کا نہیں کہا۔

    منیر عباسی صاحب!
    بہر حال۔ آپکی تحریر عمدہ کوشش ہے اور معاشرے کے ایک سنگین مسئلے کی نشاندھی کرتی ہے۔

  2. مجھے اس کہانی کا مرکزی خیال اور بیان کا طریقہ بے حد پسند آیا۔ لیکن کچھ چیزیں اسکی ایک بہت معیاری اور موڈرن کہانی بننے میں حائل ہیں۔ جیسے کرداروں کا ٹون اور انکی زبان میں پوری کہانی کے اندر تسلسل نہیں ہے۔ اور ربط ٹوٹ جاتا ہے۔کچھ الفاظ اگر بدل دیں تو شاید صورتحال بہت اچھی ہوجائے۔ ایک مثال اگر یہاں پر آپ بیگم کی جگہ زوجہ کا لفظ استعمال کر کے دیکھیں تو میراخیال ہے کہ اس سے فرق پڑیگا۔
    مکالمات کے اندر تسلسل ڈالیں اور کچھ اور الفاظ پہ کام کریں تو یہ موجودہ زمانے کے تضادات کو بیان کرنے والی ایک بہترین کہانی بن جائے گی۔ اچھی تو یہ ہے ہی۔
    🙂
    .-= عنیقہ ناز´s last blog ..جوتوں کے بھوت =-.

  3. پہلے تو معذرت کے اتنی تاخیر سے یہ تحریر پڑھی لیکن عمدگی سے لکھی ہے اور نسبتا طویل ہے اس لیے خاصا وقت درکار تھا۔

    اور موضوع سخن پر تو بس یہ کہنا ہے کہ۔ ۔

    خاک کرنے والوں کی کیا عجیب خواہش ہے
    خاک ہونے والوں کو خاک بھی نا سمجھاجائے۔

    یعنی اس صورت حال میں‌انسان ایمان بچا لے یا کان۔

  4. میں نے تو قصیدہ بردہ شریف تک پڑھا ہے اس سے آکے مجھے پتہ ہے کیا لکھا ہو گا۔ اس لیے نہیں پڑھا قصیدہ بردہ شریف سے پہلے کی تحریر ایک اچھی تحریر ہے لکھنے کا انداز بہت اچھا ہے

  5. بہت اچھے، عنیقہ ناز صاحبہ سے متفق ہوں، غالباً پچھلی پوسٹ پر تبصرہ آپ کی نظر سے گذرا ہو گا۔
    میں سمجھ گیا ڈاکٹر صاحب، ایبٹ آباد کے ٹینکی محلے کی کہانی ہے یہ p:

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں