Skip to content

موٹاپے کے بارے میں نئی تحقیق: ڈیٹا اور عید الاضحیٰ

An Image of a sacrificial lamb for Eid Al Azha in a Pakistani Street. موٹاپے کے بارے میں نئی تحقیق ، ڈیٹا اور عید الضحی

https://inspire.org.pk/

دی بوسٹن گلوب میں موٹاپے کے بارے میں نئی تحقیق سے متعلق ایک شائع شدہ تحریر نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کی تو میں نے ایک سے زیادہ مرتبہ اس کا مطالعہ کیا۔ یہ تحریر معاشرے میں رائج خیالات کے بر عکس کچھ اور نتائج کی طرف توجہ دلاتی موٹاپے کے بارے میں نئی تحقیق، اس کے مصنف یا
ریسرچر کے بارے میں تھی جو اپنی ہی تحقیق اور اس سے اخذ کردہ نتائج کے باعث گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے عواقب کا سامنا کر رہی تھی۔

موٹاپا ہے کیا؟

اس سے پہلے کہ آگے چلیں، کچھ ضمنی باتیں جو تحریر کو سمجھنے میں مدد دیں گی: موٹاپے یا اوبیسیٹی کو ماپنے کے لئے ایک فارمولا بہت عرصے سے رئج ہے جسے باڈی ماس انڈیکس کہتے ہیں۔ باڈی ماس انڈیکس میں انسان کا کلوگرام میں وزن اس کے قد سے ایک خاص شرح میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اس تقسیم کے نتیجے کو باڈی ماس انڈیکس کہا جاتا ہے۔ باڈی ماس انڈیکس کے مختلف درجات ہیں۔ اٹھارہ اعشاریہ پانچ سے کم باڈی ماس انڈیکس کو کم وزنی یا غذائیت کی کمی تصور کیا جاتا ہے۔ اٹھارہ اعشاریہ پانچ سے پچیس تک کا نتیجہ یہ باور کراتا ہے کہ انسان کے قد کے حساب سے اس کا وزن مناسب ہے۔ اس شخص کو وزن کم کرنے یا بڑھانے کی ضرورت نہیں۔ پچیس سے تیس تک کے باڈی ماس انڈیکس کو زائد الوزن تصور کیا جاتا ہے۔ تیس یا تیس سے زیادہ کے باڈی ماس انڈیکس کو موٹاپا تصور کیا جاتا ہے اور یہاں بھی ہر پانچ کے فرق سے موٹاپے کی شدت کی درجہ بندی کی گئی ہے۔

موٹاپے کے کیا نقصانات ہیں؟

موٹاپے کے نقصانات پہ بہت کچھ لکھا گیا ہے اور ہر معالج اپنے مریض کو وزن کم کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ وزن میں کمی بلند فشار خون، ذیابیطس نیند کے امراض اور دوسری بہت سی صورتوں میں مفید نتائج سامنے لاتی ہے۔ ماہرین صحت کی ایک غالب تعداد یہ سمجھتی اور مشورہ دیتی چلی آ رہی ہے کہ وزن کی زیادتی اور اس کے ساتھ ساتھ لاحق ہونے والے خطرات میں راست نتاسب پایا جاتا ہے۔ راست تناسب یعنی جیسے جیسے وزن بڑھتا جائے گا، وزن کی زیادتی کے ساتھ ہونے والے خطرات بڑھتے چلے جائیں گے۔ گویا پچیس تک باڈی ماس انڈیکس رکھنے والوں کو ان کے وزن سے متعلقہ خطرات کم سے کم لاحق ہونے چاہئییں۔ پچیس سے تیس تک کے باڈی ماس انڈیکس والوں کو ان سے ذرا زیادہ، تیس سے پینتیس کے باڈی ماس انڈیکس والوں کو ان سے زیادہ
اور یوں ۔۔ علی ہذا القیاس۔

موٹاپے کے بارے میں نئی تحقیق کیا ہے؟

ہوا یہ کہ ۲۰۰۵ میں موٹاپے کے بارے میں نئی تحقیق ایک رپورٹ کی صورت میں شائع ہوئی، جس میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی کہ کیا انسانی وزن کا موت کے اضافی رسک سے کوئی تعلق ہے؟ ریسرچرز کو علم ہوا اور انھوں نے جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں اپنے شائع شدہ اس ریسرچ پیپر میں ہمیں بتایا کہ غذائیت کی وجہ سے کم وزنی یعنی اٹھارہ اعشاریہ پانچ سے کم باڈی ماس انڈیکس اور موٹاپا، یعنی تیس سے زیادہ باڈی ماس انڈیکس میں ٹھیک وزن رکھنے والوں کی نسبت قبل از وقت موت کا رسک کافی زیادہ تھا۔ وہ افراد جن کا باڈی ماس انڈیکس پچیس سے تیس کے درمیان تھا ان میں یہ رسک کافی کم تھا۔ یا قبل از وقت موت اور وزن کا تعلق واضح نہ تھا۔
موٹاپے کے بارے میں نئی تحقیق نے ایک طوفان کھڑا کردیا۔ اس مقالے پر کافی اعتراضات اٹھائے گئے ، غلطیوں کی نشاندہی کی گئی اور کئی بار تو ریسرچر پر ذاتی حملے بھی کئے گئے۔ حال آنکہ ریسرچرز نے پہلے سے جمع شدہ امریکی حکومت کے ڈیٹا پر کام کر کے یہ نتائج اخذ کئے تھے۔ اس ریسرچ پر اٹھے طوفان پر ایک نظر دی بوسٹن گلوب کی اس خبر میں ہے جس کا ربط تحریر کے شروع میں دیا جا چکا۔ باقی تفصیل تو وہیں پڑھی جا سکتی کہ نقل کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ لیکن اس مقالے سے ایک نتیجہ یہ بھی اخذ کیا جاسکتا تھا کہ یہ زائد وزنی کی کیٹیگیری یعنی پچیس سے تیس کے درمیان باڈی ماس انڈیکس والی کیٹیگری اضافی ہی ہے۔ اس کا صحت کے حوالے سے کوئی خاص کردار نہیں اور یہ مقالہ اس سلسلے میں کوئی پہلا مقالہ نہ تھا، لیکن اس کی اشاعت نے طوفان کھڑا کردیا۔ اس کے بارے میں یہاں تک کہا گیا کہ یہ مقالہ گمراہ کن ہے اور اسے نظر انداز کردینا چاہئے۔

موٹاپے کے بارے میں نئی تحقیق کا فالو اپ اینالیسس

اسی ریسرچر نے آٹھ سال بعد اسی موضوع پر شائع ستانوے مقالوں کا ایک سسٹمیٹک ریویو اور میٹا اینالسس شائع کیا ۔ ان ستانوے مقالوں میں کُل تین ملین یعنی تیس لاکھ افراد کا مطالعہ کیا گیا تھا اور یہ ریسرچر اس نتیجے تک پہنچے کہ آٹھ سال قبل شائع ہونے والے موٹاپے کے بارے میں نئی تحقیق کےان کے اخذ کردہ نتائج درست تھے۔ اور یہ کہ زائد الوزن افراد کو (کم از کم ان کے وزن کی مناسبت سے- منیر)قبل از وقت موت کا سب سے کم خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ یوں ایک بار پھر طوفان کھڑا ہوگیا۔ اس نئے مقالے کو بھی رطب و یابس قرار دیا گیا۔ یہاں تک کہا گیا کہ اس بکواس کو پڑھنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
حال آنکہ ان دونوں مقالوں میں صرف پہلے سے موجود اعداد و شمار کا تجزیہ کر کے نتائج اخذ کئے گئے تھے اور کوئی بھی سائنسدان ان اعداد و شمار کا تجزیہ کر کے ان ریسرچرز کو غلط ثابت کرسکتا تھا، لیکن اس کے باجود ایسے عامیانہ حملے کر کے ریسرچ کو متنازعہ اور غلط بنانے کی کوشش کی گئی۔ کسی نے بھی اعداد و شمار کا تجزیہ کر کے موٹاپے کے بارے میں نئی تحقیق کے دعوی کو جھٹلانے کی کوشش نہ کی بلکہ ریسرچر کی ذات کو متنازعہ بنا کر ان نتائج کو غلط کہا گیا۔ یہ سب شائد اس لئے بھی ہوا کہ یہ نتائج معاشرے میں وزن سے متعلق رائج مشہور اور عام نظریات کی نفی کرتے تھے۔اور شائد اس لئے بھی ہوا کہ جو بات، نظریہ، عقیدہ وغیرہ ہم بچپن سے درست سمجھتے چلے آ رہے ہوں ،اسے چشم زدن میں غلط سمجھ لینا ہمارے لئے ہرگز ممکن نہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ دو ریسرچ ہی اس موضوع پر حرف آخر ہیں ، بہت سے ایسے مقالے بھی موجود ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ زائد الوزنی میں بھی صحت کو خطرات لاحق ہوتے ہیں اور یہ کہ وزن کم کرنا چاہئے۔ لیکن ایک میٹا اینالیسس سے بہتر ریسرچ کا طریقہ آج تک دریافت نہیں ہوا اور اگر ایک میٹا اینالیسس تین ملین لوگوں کے اعداد و شمار کے تجزیے کہ بعد کوئی نتیجہ اخذ کر رہا ہے تو اس نتیجے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔مگر ایسا نہ ہوا۔ بجائے اس کہ کہ میٹا اینالسس کے نتائج کو موضوع بحث بنا کر علمی و سائنسی تنقید کی جاتی اور حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی، الٹا مصنف اور ریسرچر پہ تنقید شروع ہوگئی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ ایسا کرنے میں کس کو فائدہ ہوا اور کس کو نقصان ۔ اس کا جواب تو اس تحریر میں دینا ممکن نہیں لیکن اس تذکرے کا مقصد اس امر کی طرف توجہ دلانا تھا کہ انسانی نفسیات عجیب سی ہے۔ جو چیز دل کو بھاتی ہے اس کے خلاف اگر کڑی سے کڑی اور مضبوط سے مضبوط دلیل بھی سامنے لاو تو انکار کی کوئی نہ کوئی وجہ بن ہی جاتی ہے

آمدم بر سر مطلب

آج کل عید الاضحیٰ پر ہونے والی قربانی کی حیثیت، یہ سنت ہے یا واجب، انفرادی قربانی کے وجوب پر اصرار و انکار کرنے والوں کے درمیان مباحثے سے یہ بات اور واضح ہو جاتی ہے کہ جس نے جس بات پہ یقین کرنا ہے وہ اسی پر یقین کرے گا۔ چاہے اعداد و شمار اسے غلط ہی کیوں نہ ثابت کر رہے ہوں. اب اگر ابی بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ سے یہ عمل ثابت ہے کہ آپ اصحاب بعض اوقات عید الاضحیٰ پر قربانی اس لئے نہیں کرتے تھے کہ لوگ کہیں اس قربانی کو واجب نہ سمجھ لیں تو ان حضرات کو یہ بات کون سمجھائے جو یہ کہتے ہیں کہ نہیں قربانی ہر فرد پر واجب ہے اور میں نے تو ایک مفتی ہیں انعام الحق قاسمی صاحب، ان سے منسوب قربانی کے انسائیکلوپیڈیا کی یہ تحریر پڑھی کہ اگر آپ صاحب نصاب ہیں اور نقد رقم نہیں تو آپ قرض لیں مگر قربانی کریں۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں