Skip to content

موت العالم، موت العالم۔ مولانا وحید الدین خان صاحب

گزشتہ دنوں مولانا وحید الدین خان صاحب کی رحلت ہوئی۔ آں جناب ایک ایسے عالم دین تھے جن کے تجزئے، تبصرے اور نقد کا تفرد اپنی جگہ آپ تھا۔ آں جناب کا نقطہ نظر اچھا تھا، برا تھا، اسلامی تھا یا غیر اسلامی ، مجھے تو کچھ علم نہیں۔ میں نے ان کا ذکر کبھی کبھار ہی سنا، مگر یہ کہ ان کے رائے کہ منفرد ہونے کے پیرائے میں ان کا ذکر ہوا تھا۔ زندگی کی چکی کی مشقت میں پسے ہوئے اب یہ بھی یاد نہیں کہ وہ کیا موضوعات تھے کہ جب مولانا کا ذکر ہوا، کہ وہ باتیں، وہ محفلیں اب ماضی بعید کا حصہ بن چکیں۔
بقول کسے، دل ڈھونڈتا ہے پھر فرصت کے وہ رات دن۔
شائد متذکرہ بالا مصرع بھی غلط لکھ چکا میں۔ بہر حال مولانا مرحوم کا ذکر میں اس لئے نہیں کر رہا کہ مولانا کی رائے پر میں نقد کا اہل ہوں، یا میں مولانا سے مخالف رائے رکھتا ہوں ۔ میں تو ان کی وفات کے بعد سے سوشل میڈیا پہ گھومتے مضامین کو دیکھ کر حیران ہو رہا ہوں کہ یہ لوگ، جو مولانا کی وفات کے بعد سے اچانک نمودار ہو کر ہمیں اپنے فکری اختلاف کی اہمیت سے آگاہ کر رہے ہیں، اب تک کہاں تھے؟ یہ ایسے گمنام ہیرے اب تک ہماری نگاہ سے اوجھل کیوں رہے، جب کہ ان کی رائے کے مطابق، مولانا جیسا اللہ معاف کرے، غلط عقائد رکھنے والا شخص تقریبا ہر ایک کے لئے معروف تھا؟
ایسا نہیں کہ یہ سب لوگ جو اب مولانا کی فکری غلطیوں کی نشاندہی کو سامنے آئے ہیں سب کے سب غلط ہیں، یہ بھی نہیں کہ سب کے سب درست ہیں۔
مولانا کہیں تو درست رہے ہوں گے، کہیں تو غلط رہے ہوں گے۔ آخر کو انسان تھے وہ۔ لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ تفرد ہر بار کفریہ و غیر اسلامی لیبل کا حقدار ہی کیوں ٹھہرتا ہے؟

میں سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں نے جو مین سٹریم علماء ہیں، جو تفرد اور اجنبی رائے کو فورا سے پیشتر کفر اور اسلام کے میزان میں تولتے ہیں، ابھی تک وہ روش نہیں چھوڑی ہے جو پاکستان کے قیام سے پہلے تھی، جس کا بنیادی مصدر انگریز کی حکومت پر شک تھا۔ معاشرہ بدل چکا ہے، معاشرتی روایات بد چکی ہیں، ہماری معاشرتی اقدار معاشی اقدار کی مرہون منت ہو چکی ہیں، جس بارٹر سسٹم پر مبنی معاشرے میں مساجد و مدارس پھل پھول رہے تھے وہ بارٹر سسٹم اب تقریبا ناپید ہے۔
یہ لوگ، ایک ایسے جزیرے پہ رہ رہے ہیں جو آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہے، مگر انھوں نے ضد کی ہوئی ہے کہ تیرنا سیکھنا ہے، نہ کشتی بنانا۔ یہ ہر اس رائے کو جو ان کے رائے سے متصادم ہے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کا مسلسل اس بات پہ اصرار ہے کہ جو یہ سمجھتے ہیں، وہ درست ہے۔ ایسا نہیں کہ مجھے ان سب سے زیادہ جاننے کا دعوی ہے مگر میں اپنوں کی گزشتہ پیڑھیوں اور آنے والی پیڑھیوں کے درمیاں ایسے منفرد مقام پہ موجود ہوں کہ مجھے دونوں دنیاوں سے استفادہ آسان و ممکن لگتا ہے، اور میں حیران ہوں کہ اپنی بات ان تک کیسے پہنچائی جائے۔ ان کو کیسے بتایا جائے کہ دنیا اس کی طرز معاشرت اور معیشت بدل چکے ہیں، یہ وہ دنیا نہیں جو مدرسہ دیوبند کے قیام کے وقت تھی۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ ہستیاں اس دنیا سے مکمل کٹی وہئی ہوں۔ یہ ہستیاں ہم میں موجود ہیں ، اس دنیا کے تمام وسائل سے کما حقھم مستفید بھی ہو رہی ہیں مگر جہاں تک الدین کو یسر بنانے کی مہم ہے ان کی رائے وہیں کی وہیں ہے۔ آج نہیں تو کل، خود نہیں تو کسی اور کی معضی سے، بدلنا تو ہوگا۔ فیصلہ ان کے ہاتھ میں۔

ہم جیسے عامیوں اور ان مقدس ہستیوں کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج حائل ہوچکی ہے اور یہ خلیج روز بروز وسیع اور گہری ہوتی جا رہی ہے، مگر ان ہستیوں نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ نہیں۔ انھوں نے اپنی دنیا میں مگن رہنا ہے، جہاں ان کے اپنے دلائل ہیں، اچھائی برائی کے اپنے میزان ہیں، اور اس پہ مستزاد یہ کہ نئی رائے، یا پہلے سے موجود آرا ء پہ نظر ثانی اور ان سے رجوع ایک ٹابو بن چکے ہیں۔ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے، اب سب کچھ ہر ایک کے ہاتھ میں ہوتا ہے، آپ اب کتابوں اورآراء کے پیچھے چھپ نہیں سکتے۔ لیکن ، کیا کیا جائے کہ ہمارے اثھے خاصے پڑھے طبقہ کے ہاں تعصب و ضد و ہٹ دھرمی جیسی انسانی خصوصیات کامل آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ شائد یہ معیشت کا تقاضہ ہو، کہ ان کے ہاں تبدیلی و نظر ثانی کی ہر آواز دشمنوں کی ایجنٹ قرار دے دی جاتی ہے۔ ضروری نہیں ہر ایک دشمن ہو،۔ کسی نہ کسی کو تو ابتدا کرنی ہوگی۔ اب کفر کے فتووں سے بات نہیں دبنے والی۔
بہر حال، منفرد رائے رکھنے والے علماء آہستہ آہستہ اس دنیا سے جا رہے ہیں، اور جو زندہ ہیں ان میں سے اکثریت درس نظامی میں جید، ممتاز کے چکر میں پڑی ہوئے ہے، گیس پیپرز اور خلاصوں کی مدد سے عالم بنے یہ لوگ اور ان کا فہم دین بھلا کتنا قابل وثوق ہوگا۔

سچ کہا تھا کسی عرب نے کہ موت العالم، موت العالم۔

انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللھم اغفر لہُ وارحمھہُ ولا تُعذبہُ و اکرمھہُ۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں