Skip to content

مذہب اور طب

عمر کی تیسری دہائی میں ابھی ابھی داخل ہونے والا مریض جب کلینکل سائیکالوجسٹ کے کمرے سے باہر آیا تو اس کے ہاتھ میں پکڑے ایک کاغذ پر قرآن مجید کی ایک سورۃ کی تلاوت کی تلقین بھی درج تھی۔

مریض بھی مسلمان تھا اور کلینکل سائیکالوجسٹ بھی مسلمان تھی۔ لہذا اس پس منظر میں یہ بات کچھ بری نہیں لگتی کہ قرآن کی آیات سے شفاء حاصل کی جائے۔
جب سائیکاٹرسٹ کے پاس وہ مریض دوبارہ آیا تو سائیکاٹرسٹ نے اس تلقین پر اعتراض کیا۔ اور کہا کہ ڈاکٹر یا کسی پروفیشنل کو اپنی پیشہ ورانہ حدود میں رہنا چاہئے اور دوسروں کے کاموں میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔
اس معاملے کو یہیں چھوڑتے ہیں۔

========================================

آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے سائیکاٹری وارڈ میں ایک پچیس سالہ ہندو نوجوان کو لایا گیا۔ یہ نوجوان کچھ عرصے سے اپنے گھر والوں سے لڑ جھگڑ رہا تھا۔ گھر والوں سے اس کے تعلقات ٹھیک نہیں رہے تھے۔ والدین پریشان ہو چکے تھے کہ اکلوتے بیٹے کا کیا کیا جائے۔ خاندان والوں نے معاشرتی بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ اور اس سب کی وجہ یہ تھی کہ لڑکے نے اسلام قبول کر لیا تھا۔

جن سائیکاٹرسٹ صاحب کو یہ کیس سونپا گیا، ان کے لئے یہ ایک بہت کڑا امتحان تھا۔
کیا لڑکا قبول اسلام کے بعد گھر والوں کے روئیے کی وجہ سے ڈپریشن میں چلا گیا تھا ؟
کیا لڑکے نے ڈپریشن کی وجہ سے اسلام قبول کیا تھا؟
یا اس سب معاملے کی کوئی اور وجہ تھی۔ یہ سب معلوم کرنے کے بعد اس کا علاج کرنا بھی تو تھا۔ بہر حال سائیکاٹرسٹ نے اس کیس کو لیا اور
بقول ان کے ، ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ ایک امتحان تھا۔ ان کے سامنے ایک مشکل سوال یہ تھا کہ اگر مریض اسلام چھوڑنا چاہے تو ان کا کیا رد عمل ہونا چاہئے؟
بہر حال ، 8-7 ماہ کی محنت کے بعد اتنا ہوا کہ مریض ڈپریشن سے باہر نکال آیا۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک، اس کی ڈپریشن کی علامات اُس کے قبول اسلام سے بہت پہلے نمودار ہو چکی تھیں، اس ایک دن اسی ڈپریشن میں اُس نے اسلام قبول کیا مگر اس کے حالات سنورنے کی بجائے بگڑتے چلے گئے۔ جب اس کی حالت بہتر ہونا شروع ہوئی تو اُسے اپنے قبول اسلام کے اقدام کی سنگینی کا اندازہ ہوا اور وہ واپس اپنے مذہب کی طرف چلا گیا۔

ان دو مثالوں کے بعد سب سے اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک ڈاکٹر کے لئے مذہب کی کیا اہمیت ہونی چاہئے؟
مذہب پر بہت عرصے سے بحث ہوتی چلی آ رہی ہے۔ آج کے یہ سوال بڑے زور شور سے اٹھایا جا رہا ہے کہ مذہب نے نسل انسانی کی بقا کے لئے کیا کردار ادا کیا ہے۔ بڑی جنگوں پر اکثر مذہبی رنگ چڑحا کر انھیں عوام کے لئے قابل قبول بنایا گیا۔ اور دہریے تو بڑھ چڑھ کر یہ اعلان کر رہے ہیں کہ نعوذباللہ خدا ہے ہی نہیں۔
برطانوی دہریے رچرڈ ڈاکنز نے تو اس سلسلے میں ایک کتاب لکھ بھی ڈالی ۔
کتاب کا نام ہے : THE GOD DELUSION

اس کتاب کی اب تک 15 لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔
بہر حال مذہب پر بہت سے ماہرین نفسیات نے کام کیا ہے، اور انسان کی مذہب سے وابستگی کو مختلف مفروضوں کی بنیاد پر بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
مذہب کی نفسیات ایک مفید خلاصہ ثابت ہو گا۔

موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے۔ کیا پہلی مثال میں کلینکل ساَئیکالوجسٹ کا طرز عمل مناسب تھا؟
اس کا جواب مشکل ہو سکتا ہے۔
ہماری تعلیم و تربیت اکثر مذہبی رنگ لئے ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں مذہب کا رنگ کافی گاڑھا ہے۔ لہذا اگر صحت کی سائنس پر بھی مذہب کا رنگ چڑھ جائے تو حیرانی کی کیا بات؟ اور ویسے بھی تو ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن میں لوگوں کے لئے شفاء موجود ہے تو پھر اس سے استفادہ کیوں نہ کیا جائے؟
یہاں پر ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا قرآن کی آیات کی تلاوت کی ترغیب ہر ایک مریض کو کی جائے جن میں غیر مسلم یا دہریے بھی ہو سکتے ہیں؟ اگر ہاں تو کیوں اور اگر نہ تو کیوں؟
اس سوال کا جواب جو لوگ ہاں میں دیں گے غالبا ان کی سب سے مضبوط دلیل یہ ہوگی کہ قرآن تو ساری انسانیت کے لئے اترا ہے صرف مسلمانوں کے لئے نہیں ، تو پھر کیا حرج ہے اگر مریضوں کو قرآن کی کچھ آیات کی تلاوت کی تلقین کی جائے۔
جو لوگ اس سوال کا جواب نفی میں دیں گے وہ غالبا یہ کہیں گے کہ اعتقاد ایک بہت اہم نفسیاتی عامل ہے جو کسی بھی علاج پر اثر انداز ہوتا ہے۔ مثلا لوگوں کا اعتقاد کسی خاص رنگ یا شکل کی گولی پر بن جاتا ہے، اور اگر ڈاکٹر دوا بدل دے تو حیرت انگیز طور پر ان کا علاج کنٹرول سے باہر ہو جاتا ہے۔ ایسی کئی مثالیں دیکھی گئی ہیں۔ لہذا قرآن کی آیات کا اثر ایک حد تک ان پہ ہی ہوگا جو اس پہ اعتقاد رکھتے ہیں۔

جو لوگ ڈاکٹرز کی طرف سے مریضوں کو قرآنی آیات کی تلاوت کی ترغیب دینے کی خلاف ہیں ان کے پاس سب سے مضبوط دلیل یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی سائنسی موجود نہیں ہے جس سے علم ہو سکے کہ قرآن کی مختلف آیات کا مختلف حالتون میں کیا اثر ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے جو علم حاصل کیا ہے وہ سب دلیل پر قائم ہے۔ ہم کسی مرض کی تشخیص اور پھر اس کے علاج کے لئے جو بھی قدم اٹھاتے ہیں اس کی کوئی واضح دلیل موجود ہوتی ہے کہ فلاں دوا کا فلاں مرض میں فائدہ ہے اور دوسرے مرض میں نہیں۔ تو جب ہم دنیاوی امراض میں دنیاوی علوم میں اتنی چھان پھٹک کرتے ہیں تو پھر قرآنی آیات کی تلقین تو ایک بہت اہم چیز ہونی چاہئے کیونکہ ہم مروجہ سائنسی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک مریض کو دوا سے محروم کر کے اسے ایک ایسی چیز پر یقین کرنے کا کہہ رہے ہیں جس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

پھر سب سے بڑی بات ، ہماری تعلیم اور اس کے بعد حاصل ہونے والی سند میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ ہم قرآنی آیات سے طریقہ علاج کے ماہر بھی ہیں۔ اگر یہ سب ہی کرنا ہے تو پھر تعویذ گنڈے کا کام شروع کردینا چاہئے ، ڈگری میں کیا رکھا ہے؟

دوسری مثال میں نے اس لئے دی کہ ایسے حالات بھی ہو سکتے ہیں جب ہمیں اپنے دین اور ایک انسان کی زندگی میں سے ایک چیز منتخب کرنی ہوگی۔ وہ سائیکاٹرسٹ صاحب کہتے ہیں کہ وہ مریض کو یہ مشورہ بھی دے سکتے تھے کہ چونکہ گھر میں حالات سازگار نہیں ہیں اور اس کشمکش میں شائد وہ کسی کو نقصان نہ پہنچا دے، اس لئے وہ تبلیغ پر نکل جائے، اس نے قبول اسلام کر کے بہت اچھا کیا ہے اور اچھائی کی راہ میں تو ایسے مرھلے آتے رہتے ہیں۔ دل چھوٹا نہ کرے ، اللہ کی راہ میں وقت لگائے ، انشاءاللہ اس کا ایمان مضبوط ہوگا۔

مگر کیا مذہب کی تلقین ڈاکٹر کے فرائض میں شامل ہے؟
انھوں نے مریض کو جاننے کو ترجیح دی اور اس کے مرض کا علاج شروع کردیا۔ مریض صحت یاب ہونے کے بعد کیا فیصلہ کرتا، انھوں نے اپنے آپ کو اس سے لاتعلق رکھا اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہ واپس اپنے مذہب کی طرف لوٹ گیا۔

میرا خیال ہے ہم مسلمان ڈاکٹروں کے لئے اس موضوع پر سوچنے کی بہت گنجائش موجود ہے۔.

9 thoughts on “مذہب اور طب”

  1. بہت ہی عمدہ موضوع.. محض ڈاکٹر ہی کیا اور بھی ہر پروفیشنل کو اس طرح کے مسائل کا سامنا رہتا ہے..

    ڈاکٹر کو تو پیشہ ورانہ طور پر محض اس چیز کا خیال رکھنا چاہیے کہ مریض کے علاج کے لیے کیا چیز سب سے بہتر ہے اور کون سی چیز اس کو طویل المدتی شفا دینے میں کارگر ہوگی.. یہ بات آپ بھی جانتے ہیں بلکہ ایسے مریض بھی آپ نے دیکھے ہوں گے جن کو کوئی بیماری لاحق نہیں ہوتی لیکن وہ محض شک کی بنیاد پر آپ کے پاس آتے ہیں اور ان کو وٹامن کی گولیاں دے کر بھی ان کا شک دور کیا جاسکتا ہے. آپ کا سوال کہ کیا بطور ڈاکٹر مذہب کی تلقین ڈاکٹر کے فرائض میں شامل ہے تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ “بطور ڈاکٹر” محض مریض کا ایمانداری سے علاج ہی ایک فرض ہے.

  2. بہت عمدہ۔۔۔ سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کرنے والی تحریر ہے۔۔۔
    ایسا ہی ایک مسئلے سے میرا بھی واسطہ ہے ان دنوں۔۔۔ لکھنے کی ہمت نہیں پاتا۔۔۔
    .-= جعفر´s last blog ..ایک انتخابی تقریر =-.

  3. وہ جی لکھنے میں تو مسئلہ نہیں۔۔۔ لیکن “انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو” والا معاملہ ہے۔۔۔ کیونکہ مسئلہ سنجیدہ ہے، اس لئے ہی ہی ہاہا کرکے بھی بیان نہیں ہوسکتا۔۔۔۔
    .-= جعفر´s last blog ..ایک انتخابی تقریر =-.

  4. آپ نے ایک اہم سوال اُٹھایا ہے ۔ اعلٰی تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ڈاکٹروں کی وساطت سے میرے علم جو کچھ آیا وہ یہ ہے کہ زیادہ تر مریض مخصوص ڈاکٹر یا دوائی کے طلبگار ہوتے ہیں ۔ اگر وہ حاصل ہو جائے تو جلد تندرست ہو جاتے ہیں
    مثال کے طور پر ایک مریض کا علاج بڑی محنت اور ذہانت کے ساتھ کیا جارہا تھا مگر اُسے انجیکشن نہیں لگایا گیا ۔ بجائے تندرست ہونے کے اس کی حالت بگڑتی گئی ۔ آخر اُسے کوئی ایسا انجیکشن لگایا گیا جو کسی بھی بیماری کے علاج کیلئے نہیں تو وہ مریض يکدم روبصحت ہونا شروع ہو گیا ۔
    اسی طرح ایک مریضہ کو کئی سپیشیالسٹ ڈاکٹروں نے دیکھا اور بہت اچھی طرح علاج کیا مگر اُس کی حالت بگڑتی گئی ۔ میری بڑی بہن جو اُن دنوں صرف ایم بی بی ایس تھیں چھٹی پر تھیں ۔ وہ ڈیوٹی پر حاضر ہوئیں تو ڈاکٹروں نے اپنی کانفرنس میں اس مریضہ کے عارضہ پر بحث کی ۔ ہسپتال کے سربراہ نے مسکرا کر میری بہن سے کہا”ڈاکٹر صاحب ۔ آپ ہی نماز کے بعد اس کیلئے دعا کریں” کانفرنس کے بعد میری بہن دو میڈیکل سپیشیالسٹس کے ساتھ اس مریضہ کے پاس گئیں تو مریضہ بول اُٹھی” اب میری ڈاکٹر جی آ گئیں ہیں ۔ اب میں ٹھیک ہو جاؤں گی” ۔ سپیشیالسٹ نے میری بہن کو اشارہ کیا تو اس نے مریضہ کا معائنہ کیا ۔ تجربے کی خاطر سب دوائیاں بند کرا کے وٹامنز دے دیئے گئے ۔ وہ مریضہ ایک ہفتہ بعد تندرست ہو کر گھر چلی گئی

    علاج سے قبل مریض کی نفسیات پرکھنا ضروری ہے ۔ نفسیات ہی میں دین یا مذہب کا حوالہ بھی آ جاتا ہے ۔ ہرچند کہ اسلام میں تعویذ گنڈا ممنوع ہے لیکن کمزور عقیدہ لوگ جن کی اکثریت ہے اس پر یقین رکھتے ہیں اور ڈاکٹر سے زیادہ اس پر یقین رکھتے ہیں ۔ ایسے لوگ پاکستان ہی نہیں ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں خواہ وہ عیسائی ہوں یا يہودی ۔

    پندرہ بیس سال پیچھے کی بات ہے کہ مجھے ایک واقفِ کار نے دوائی کھاتے دیکھا تو بولا “میں تو چھوٹی موٹی بیماری کیلئے دوائی نہیں کھاتا ۔ دوائی کھا کر بھی پانچ سات دن میں تندرست ہوتا ہوں اور نہ کھاؤں تب بھی ۔ دوائی کھانے کا فائدہ کیا”۔ میں نے اس دن کے بعد اس پر نظر رکھی واقعی وہ ایسے ہی کرتا تھا ۔ بیمار ہو جائے چاہے بخار ہو تو آرام کرتا تھا مگر دوائی نہیں کھاتا تھا اور ایک ہفتہ کے اندر تندرست ہو جاتا تھا

    خالی ڈگری سے کام نہیں چلتا اس ڈگری کیلئے پڑھی گئی کتابوں کو نہ صرف یاد رکھنا بلکہ دہراتے رہنا اور ہر موضوع پر اضافی علم حاصل کرنا ضروری ہے ورنہ ڈگری بیکار ثابت ہو گی ۔ اسی طرح اگر ایک الیکٹریکل انجنیئر کے گھر کا فیوز اُڑ جائے اور وقت ایسا ہو کہ کوئی الیکٹریشن نہ مل سکے اور اس انجنیئر کو فیوز لگانا نہ آتا ہو تو میرے نظریہ کے مطابق وہ انجيئر نہیں طوطا ہے جس نے رٹا لگا کر امتحان پاس کر لیا تھا VT4D
    .-= افتخار اجمل بھوپال´s last blog ..چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ تعلیم =-.

  5. مجھے ڈر ہے کہ اگر بات لمبی ہو گئی تو شائد موضوع سے ہی نہ نکل جائے. بہر حال آج کل کی پیشہ ورانہ دنیا میں اس بات کو دیکھا جاتا ہے کہ کسی بھی کام کے لئے بہترین آدمی کون ہوگا اور پھر اسی آدمی یا پروفیشنل سے اس کام کو مکمل کرنے کا کہا جاتا ہے.

    مثال کے طور پر حجامت کے لئے حجام بہترین انتخاب ہوگا نہ کہ ایک دھوبی. فتویٰ لینا ہے تو عالم کے پاس جانا ہے. ترکھان ہی لکڑی کا کام کرسکتا ہے اور علاج ایک طبیب کر سکتا ہے. یہاں طبیب سے میری مراد ہر وہ شخص ہو گا جس نے طبابت کا باقاعدہ علم حاصل کیا ہے.

    اب طبیبوں میں بھی اقسام ہیں. دل کے طبیب الگ، سانس کے الگ، زچہ و بچہ کے امور کے لئے الگ ..
    ہم ان کا انتخاب موقع کی مناسبت سے اس لئے کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس باقاعدہ اس شعبے کا علم حاصل کرنے کا ثبوت ہوتا ہے.
    مذہب روحانیت اور اس طرح کے تمام امور میڈیکل سائنس کی مادی تعلیم میں چنداں اہمیت نہیں رکھتے. کیونکہ سائنس کی مغربی بنیاد صرف ایک سوال پر ہے اور وہ سوال میرے خیال میں یہی ہے کہ

    اس بات کا کیا ثبوت ہے؟

    ایویڈنس بیسڈ میڈیسن پر آج کل بہت زور دیا جا رہا ہے اور وہ صرف یہی ہے کہ آپ کسی بھی مرض کی تشخیص یا علاج کے لئے جو قدم اٹھا رہے ہیں اس سے مریض کو کتنا فائدہ ہوگا اور کتنا نقصان.
    ظاہر ہے دل کے دورے میں مبتلا مریض کا سی ٹی سکین چیسٹ کروانا بے وقوفی ہو گی جبکہ ای سی جی اور دل کے انزائم کا ٹیسٹ زیادہ مؤثر ہو گا.
    اس تمہید کے بعد اصل بات جس پر میں آنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ، عقیدہ ، روحانیت اور مذہب کی اہمیت کو اپنی جگہ پر رکھتے ہوئے، ایک ڈاکٹر کو بالکل بھی اختیار حاصل نہین کہ وہ کسی کو قرآنی آیات کے ورد کا مشورہ دے. ہاں اگر ایک مریض کو کسی بے ضرر قسم کی عبادت سے سکون ملتا ہے تو وہ مریض کو اس عبادت کے جاری رکھنے کا مشورہ دے سکتا ہے . بس اتنا ہی ڈاکٹر کے اختیار میں ہے.

    سوچئے اگر ایک مفتی صاحب لوگوں کا علاج کریں تو ہم انھیں عطائی (یا اتائی) کہیں گے کیونکہ انھوں نے بغیر علم کے اس کام کو شروع کیا ہے. تو کیا اس اصول کی بنیاد پر ڈاکٹروں کوقرآنی آیات کے ورد کی تلقین سے منع نہیں کرنا چاہئے؟

  6. جعفر: بہت عمدہ۔۔۔ سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کرنے والی تحریر ہے۔۔۔
    ایسا ہی ایک مسئلے سے میرا بھی واسطہ ہے ان دنوں۔۔۔ لکھنے کی ہمت نہیں پاتا۔۔۔

    آپ ہمت تو کیجئے، اللہ خیر کرے گا.

  7. منیر آپ نے اپنی اس تحریر میں ایک نہیں کئ خیالات اٹھائے ہیں۔ یہ معلوم تھآ آپکو تو ان میں سے ایک موضوع ایسا ہے جس پہ میں کافی عرصے سے لکھنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہوں مگر وقت پکڑ میں نہیں آرہا تھآ۔ تو آپکی اس پر مغز تحریر کے کچھ حصوں کو میں اپنے بلاگ میں زیر گفتگو لانا چاہونگی۔ امید ہے آپ برا نہیں مانیں گے۔
    .-= عنیقہ ناز´s last blog ..تقلید اور جدیدیت =-.

  8. اسماء پيرس

    آپ کو اور آپکے اہل خانہ کو نيا سال مبارک

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں