Skip to content

مجھے اُس شہر جانا ہے

کسی شطرنج کے مہرے کی صورت زندگانی ہے
تجھے کیسے بتاؤں کس طرح رسوا کہانی ہے

کہ میں بھی بیٹیوں کا باپ ہو کر درد سہتا ہوں
ہر اِک لمحہ صحن میں خوف کا منہ تکتے رہتا ہوں
اچانک ڈاکئے کے ہاتھ کی دستک جو سنتا ہوں

تو میں بھی بیتئوں کا باپ ہوں
دل میں
کئی قصے بھت سے وسوسے مسکن بناتے ہیں

مجھے بازار کے یک نوجوان کی یاد آتی ہے
جو میرے پاس آتا ہے
میری جھکی کمر کو دیکھ کر گٹھڑی اٹھاتا ہے
کوئی مشکل گھڑی آئے وہ میرے کام آتا ہے

میرا دل پھر بھی لیکن وسوسوں میں گھر سا جاتا ہے
کہ جیسے ڈاکیہ کے ہاتھ جو پیغام ہے گویا
کہیں نامہ وہ میری بیتیوں کے نام ہے گویا
کھیں یاس نوجواں کمبخت کا یہ کام ہے گویا

مگر وہ ڈاکیہ یک دوسرا پیغام لایا ہے
وہ خط مالک کی جانب سے مکیں کے نام آیا ہے
وہ میرے در بدر کے ہونے کے احکام لایا ہے

میں اپنی بیٹیوں کو ساتھ میں لے کر
ابھی کس سمت جاؤں کس طرف چھایا اجالا ہے
میرے آقا بتا شہرِ سکوں کا کیا حوالہ ہے

مجھے اُس شہر جانا ہے وہاں یک گھر ملا چاہے
نری یک چار دیواری کوئی چادر ملا چاہے

مجھے اُس شہر جانا ہے
جو مجھ کو راس اجائے
مجھے احساس آجائے
کہ میں محفوظ
میری بیٹیاں محفوظ
سب محفوظ ہوں جس میں
مجھے اُس شہر جانا ہے.

ارشاد علی

فائنل ایئر کی ڈائری سے

6 thoughts on “مجھے اُس شہر جانا ہے”

  1. تصحیح:-
    ۔
    کھیں یاس نوجواں کمبخت … کہیں اُس نوجواں کمبخت

    تو میں بھی بیتئوں کا باپ ہوں … تو میں بھی بیٹیوں کا باپ ہوں

  2. منیر عباسی صاحب !

    محترم!، صرف بیٹیوں کے باپ کو ہی نہیں۔ بلکہ بد نصیبی سے،پاکستان میں آجکل سب کو ہی ایسے “شہرِ امن” کی تلاش ہے۔

    تاریخ میں اکثر یہ پڑھنے میں آتا ہے کہ کون کونسے معاشروں نے تہذیب و تمدن میں بتدریج ترقی کرتے ہوئے تہذیب کی انتہاؤں کو چھولیا۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ارتقائی خامیوں کو درست کیا۔ مگر خدا جانے ہمارے ہاں کیوں ہم تہذیب کی بجائے جنگلی معاشرے کی طرف اتنی تیزی سے سفر کر رہے ہیں۔ بنی اسرائیل کے جو کرتُوت قرآنِ کریم نے بیان کئیے ہیں۔ مجھے تو سب کرتوت اپنے معاشرے میں نظر آتے ہیں۔ خدا ہمارے حال پہ رحم کرے۔ آمین

    نظم بہر حال بہت خوب ہے ۔ اور جوان بیٹیوں کے ایک باپ کے خدشات کے مطابق ہے۔

  3. اسماء پيرس

    بيٹيوں سے اتنا ڈرنے کی ضرورت نہيں کہ انہيں خوف اور بيچارگی کی علامت بنا کر پيش کيا جائے بس انکو تعليم کے ساتھ کانفيڈنس ديں تو نہ انکو بيچارگی کا احساس ہو نہ باپ کو ايسی نظميں لکھنی پڑيں

  4. جاوید گوندل صاحب نظم اور پوسث میری ہے بلاگ پر کوئی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے لکھاری کا نام پس پردہ چلا جاتا ہے۔ اور ہم جیسے نوواردوں کی چھ گھنٹوں کی محنت مفت مں ضائع ہو جاتی ہے۔ پسند کرنے کا شکریہ
    .
    اسماء نفسٍ مضمون بیٹیوں کی بیچارگی سے زیادہ باپ کی خدشات کا ترجمان ہے۔ آج سے چھ سال پہلے لکھی گئی نظم ہے۔ جب میں خود نوجوان تھا “کم بختی” کا علم نہیں۔

  5. محترم ارشاد علی صاحب!

    آپکی نظم بہت خوب ہے۔ دراصل میں نے منیر عباسی صاحب کو اسلئیے مخاطب کیا ہے کہ وہ یہاں بیٹھے ہوتے اپنا اسٹیتھسکوپ گلے میں ڈالے۔ تو اسلئیے انھیں مخاطب کیا تھا۔ ورنہ تعریف آپ کی نظم کی ہی کی تھی ۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں