Skip to content

لکھے موسیٰ پڑھے خدا

اک عرصہ ہوا ، سکول میں  انگریزی کی کلاس کے دوران ، کاپیاں چیک کرتے ہوئے استاد محترم نے  اچانک تختہ ء سیاہ پر یہ جملہ لکھا ور پوری کلاس سے تشریح مانگی۔ ظاہر ہے جماعت ہشتم کے طلبا ء کو کیا علم ہو سکتا تھا کہ اس جملے کے کیا معانی ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ یہ جملہ دراصل غلط العام ہے۔

درست جملہ دراصل یہ ہے۔

لکھے مو سا پڑھے خود آ

اس  تمہید کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ گزشتہ دنوں ایف ایس سی کے ایک طالبعلم کی اردو املا دیکھنے کا موقع ملا۔ اور املا دیکھنے کے بعد شدت سے احساس ہوا کہ ہمارے معاشرے کا شائد ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جو زوال پذیر نہ ہو۔ سیاست کاحال این آر او کی شکل میں ؤپ کے سامنے ہے، طب کا حال پچھلے دنوں ایمانے ملک کی ہلاکت کی شکل میں آپ کے سامنے آیا۔ اللہ مرحومہ کے والدین کو صبر عطا فرمائے اور معصوم بچی کی ہلاکت کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ ان کے علاوہ ایک تعلیم کا شعبہ ہی بچا تھا، اور میرا خیال تھا، کہ مہنگائی کے باوجود تعلیمی اداروں نے اپنا معیار برقرار رکھا ہوگا ، مگرایف ایس سی کے طلبا ء کی اردو املا دیکھنے  کے بعد اب مجھے اپنا خیال بدلنا پڑ رہا ہے۔

اس  طالبعلم کے معاملے میں میں طالب علم سے زیادہ اساتذہ کو ذمہ دار سمجھتا ہوں، کیونکہ مشکل الفاظ اور بالخصوص وہ الفاظ جن کی ادائیگی اور تلفظ سے ان کی املا کا اندازہ نہ ہوتا ہو ، یا وہ الفاظ جو مشکل ہوں، وہ سب طُلبا کے سامنے تختہ سیاہ یا سکرین پر لکھ دئے جانے چاہئیں، تاکہ وہ الفاظ ذہن نشین ہو جائیں۔ پھر طلبا کا باقاعدہ ایک املا کا امتحان ہونا چائے جس مین ان کو زبانی  کچھ الفاظ دے کر لکھنے کو کہا جائے۔ لگتا ہے یہ سب نہیں ہو پا رہا اور اس لئے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے

دیکھئے اور سر دُھنئے:

11 thoughts on “لکھے موسیٰ پڑھے خدا”

  1. بات تو آپ نے اچھی لکھی ہے لیکن فیروزاللغات میں یہ جملہ بالکل اسی طرح لکھا ہے یعنی لکھے موسی پڑھے خدا اور اسے غلط العام بھی نہیں لکھا۔ میراخیال ہے کہ بات کچھ پرانی ہو گئ ہے اس لئیے آپکے ذہن سے پھسل گئ ہے۔
    .-= عنیقہ ناز´s last blog ..ارادے باندھتا ہوں =-.

  2. سلام

    آپ کا حسنِ ظن ھے کہ ابھی تک ایسا سوچ رھے تھے
    تعلیم کا جنازہ تو کب کا نکل چکا
    کچھ دیوانے لوگ ابھی تک اسے مصنوعی تنفس کے زریعے
    زندہ رکھنے کی کوشش کر رھے ھیں

  3. عنیقہ ناز: بات تو آپ نے اچھی لکھی ہے لیکن فیروزاللغات میں یہ جملہ بالکل اسی طرح لکھا ہے یعنی لکھے موسی پڑھے خدااور اسے غلط العام بھی نہیں لکھا۔ میراخیال ہے کہ بات کچھ پرانی ہو گئ ہے اس لئیے آپکے ذہن سے پھسل گئ ہے۔

    ارے واہ.یہ تو ایک نئی بات سامنے آ گئی. 🙂

  4. بحیثیت طالب علم میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ تعلیم کا شعبہ اتنا ہی کرپشن کا شکار ہے جتنا کہ سیاست۔ اس اہم شعبہ میں پیسے کے زور سے جس آسانی سے امتحان میں کامیابی اور ڈگریاں حاصل کی جاسکتی ہیں اتنی آسانی سے تو الیکشن بھی نہیں جیتے جاسکتے ہوں گے۔ آپ کی بات درست کے اردو رسم الخظ کے حوالے سے زیادہ ذمہ داری اساتذہ ہی کی ہے۔ یہاں تو عالم یہ ہے کہ انگلش میڈیم میں ایف ایس سی کے ایک سال میں صرف ایک مضمون ‘اردو’ ہی اردو زبان میں پڑھایا جاتا ہے۔ اور اکثر ساتھی اسے بھی رومن میں لکھنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ اس پر اساتذہ کی خاموشی ہی دراصل اس مسئلہ کی بڑی وجہ ہے جس کا ذکر آپ نے فرمایا۔

  5. جناب جب سمجھ اور ذہانت کی جانچ کے بجائے یاداشت کی جانچ کی جاتی ہو تو ایسے امتحانی نظام میں طالب علم اور اساتذہ اردو تو ایک طرف سائنسی مضامین میں بھی پہلے سے تیار شدہ نوٹس اور مضامین پر تکیہ کرتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے اور ایک غلطی نسل در نسل نوٹس کی شکل میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔

  6. وجہ بس اتنی ہے کہ ہم سب اردو ادب سے دور ہیں ۔۔ تعلیم حاصل کرنے والے زیادہ وقت ایس ایم ایس کرنے یا نیٹ پر بتا دیتے ہیں ۔۔ کون ٹائیم دیتا ہے آج کل کتابیں پڑھنے کو ۔۔ ویسے جیسے پڑھنی چاہیے
    .-= ریحان´s last blog ..بڑی عید مبارک =-.

  7. ریحان: وجہ بس اتنی ہے کہ ہم سب اردو ادب سے دور ہیں ۔۔ تعلیم حاصل کرنے والے زیادہ وقت ایس ایم ایس کرنے یا نیٹ پر بتا دیتے ہیں ۔۔ کون ٹائیم دیتا ہے آج کل کتابیں پڑھنے کو ۔۔ ویسے جیسے پڑھنی چاہیے

    ریحان ، پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی ضروری ہے. اور درست لکھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ کل کو نئی نسل رہنمائی کے لئے ہماری طرف دیکھے گی.

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں