Skip to content

لاؤڈ سپیکر بھی ایسا ہی ایک مسئلہ ہے۔

اگر مجھ سے ہمارے معاشرے کی سب سے نقصان دہ چیز کے بارے میں پوچھا جائے تومجھے جواب دینے میں کوئی تأمل نہ ہوگا۔

آپ جانتے ہیں ہمارے معاشرے میں اس وقت بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ ان کی  نشان دہی کر کےاُن کو بآسانی اس زمرے میں لایا جا سکتا ہے، مگر ایک واحد چیز جو بذات خود کچھ نہ کرسکنے کے باجود خون کی ندیاں بہا دیتی ہے ،  اکثر نظر انداز ہو جاتی ہے۔

جی ہاں، میرا اشارہ لاؤڈ سپیکر کی جانب ہے، وہی لاؤڈ سپیکر  جسے استعمال کر کے ہمارے آتش بیان مقرر حضرات کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں،  اپنوں کی تعریف میں غُلو کی تمام حدیں پار کر جاتے ہیں اور حریف کو تحت الثریٰ میں جا بٹھاتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ اگر اس چیز کو آپ کی زندگی سے نکال دیا جائے تو شائد آپ کو شک ہونے لگے کہ آپ  بر صغیر  سے  نکل کر کہیں اور آ بسے ہیں۔  شہری زندگی کی مصروفیت، مسابقتی زندگی کی ہلچل اور اپنا معیار زندگی قائم رکھنے کی دوڑ میں انسان بہت کچھ بھول جاتا ہے، اور اگر یہ لاؤڈ سپیکر نہ ہوں تو آپ کو کیسے علم ہوگا کہ آج شب برأت ہے، شب معراج ہے یا کوئی اور موقع جس پر انسان ایک دو خاص عمل کر کے سارے سال کی لازمی عبادات سے چھٹکارا پا سکتا ہے۔

اس آخری جملے سے آپ متفق ہوں نہ ہوں، مگر یہ حقیقت ہے کہ شارٹ کٹ اپنانے کی عادت نے ہمیں دین کے معاملے میں بھی شارٹ کٹ ڈھونڈنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مذہب برصغیر کے مسلمان کی زندگی کا جزو لا ینفک ہے۔ یہ مسلمان عام زندگی میں جیسابھی ہو، مگر مذہبی معاملوں میں خطرناک حد تک جذباتی ہو جاتا ہے۔اس جذباتیت میں یہ مسلمان خون بہانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اس لئے بہت سے معاملے جن میں آسانی سے بات چیت کے ذریعے سے کوئی حل نکالا جاسکتا ہے، محض اس جذباتیت کی وجہ حل نہیں ہو پاتے اور مسلسل ایک معاشرتی تناؤ کا باعث بنے رہتے ہیں۔

لاؤڈ سپیکر بھی ایسا ہی ایک مسئلہ ہے۔

اب آپ شائد کہیں کہ یہ کیا بات ہوئی، میں شائد صیہونی مفادات کے تحت کام کر رہا ہوں، یا میں اسرائیلی ایجنٹ ہوں جو کہ اسلام کی شناخت کوتباہ کرنے کے درپے ہوں وغیرہ وغیرہ۔۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ لاؤڈ سپیکر کے حامی حضرات تقریبا یہی دلائل دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

بڑے شہروں میں رہنے والے میرے قارئین اس بات سے اتفاق کریں گے کہ سال کے کچھ مہینوں میں بالخصوص اور کچھ مسالک کی مسجدوں میں تو تقریبا پورے سال ہی اذان کے علاوہ بھی لاؤڈ سپیکر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ استعمال وہ لوگ بڑے شوق سے کرتے ہیں جو خود کو قاری عبدالباسط الصمد، قاری صداقت علی، خورشید احمد نعت خواں یا کچھ اور سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اہل محلہ  ان کی آواز سننے کے لئے تڑپ رہے ہیں اور اگر ایک ناغہ بھی ہوگیا تو شائد ناقابل تلافی نقصان ہو۔ غالبا اتوار کے دن کے علاوہ، ہفتے کے تمام دن فجر کی نماز کے بعد یہ ترتیب چلتی ہے۔

اب آپ ہمارے محلے کی مثال لے لیجئے۔ ایک صاحب، اپنی طرف سے پوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ قصیدہ بردہ شریف کے چند جملے اسی خوش الحانی سے پڑھیں جیسے کہ اسے گایا گیا ہے، مگر شائد ان کے گلے میں کوئی خرابی ہے، ان کی آوازہی بہت بھونڈی ہے۔ سُر ڈھونڈنا تو دور کی بات۔ مگر مجال ہے یہ صاحب اپنی روٹین سے ہٹیں۔ اگر ان کے مقررہ وقت پر بجلی نہ ہو تو یہ بجلی کے آنے کے بعد مسجدتو تشریف لائیں گے، مگر ناغہ نہیں کریں گے۔ ایک اور صاحب نے ان کی مسابقت کی کوشش کی اور تلاوت قرآن عین اسی وقت شروع کی جب ان کے قصیدہ پڑھنے کا وقت تھا، کچھ دن تو ہمیں دہری اذیت برداشت کرنی پڑی، مگر قصیدہ والے صاحب کی جیت ہوئی ہے اور اب وہی  بلا شرکت غیرے صبح صبح ثواب کماتے نظر آتے ہیں۔

کچھ مساجد میں نماز کے بعد با جماعت لاؤڈ سپیکر پرکلمہ توحید  پڑھا جاتا ہے۔  کچھ میں جمعہ کی نماز کے بعد مولانا احمد رضا خان صاحب کی مشہور زمانہ نعت پڑھی جاتی ہے۔ کچھ مؤحدین حضرات کسی ناظر کی تقریر کی آڈیو کیسٹ لگا کر مائکروفون کے سامنے رکھ جاتے ہیں، کچھ لوگ اپنی مساجد میں، تبلیغی بیانات کی کیسٹیں لگا جاتے ہیں۔ غرض یہ کہ کوئی بھی اس بیماری سے بچا ہوا نظر نہیں آتا۔

ماہ رمضان  میں تو حالت اور بری ہو جاتی ہے۔ بڑے شہروں میں ، جیسا کہ میرا تجربہ ہے، سحری سے دو یا تین گھنٹے پہلے ہی محلے کے لڑکے لاؤڈ سپیکر  پرقبضہ جما لیتے ہیں، روزے دارو اٹھو جیسے بیانات سے لے کر سائرن بجانے  تک ہر قسم کی وہ حرکت کی جاتی ہے جس سے کسی کے آرام سے بیٹھنے کا اندیشہ بھی باقی نہ رہے۔ایک صاحب کی تو اتنی بھیانک آواز تھی کہ میں تو نیند میں ہی ڈر گیا۔  مگر مجال ہے کہ کوئی بھی اس پر اعتراض کرے؟

ہم لوگ تکلیف برداشت کر تو لیتے ہیں ، مگر آواز بلند نہیں کرتے ۔۔ میں نے آج تک بہت کم لوگوں کو اس ایذا رسانی پر احتجاج کرتے ہوئے دیکھا ہے۔۔ رمضان کے آخری عشرے میں صورت حال اور بگڑ جاتی ہے، ساری ساری رات لاؤڈ سپیکر کھلے رہتے ہیں، لوگوں کو اذیت پہنچائی جاتی ہے اور ہم، ہم بھلے مانس لوگ محض اس وجہ سے اس پر احتجاج نہیں کرتے کہ شائد گناہ کے مرتکب نہ ہوجائیں۔  اس اذیت سے انسانی صحت کو جو نقصان ہوتا ہے اس کی جھلک اس مضمون میں دیکھیں۔

حکومت پاکستان نے لاؤڈ سپیکر کے اس بے جا استعمال پر پابندی تو لگائی ہوئی ہے ، مگر ہمارے اہل جبہ و دستار جس طرح کھلے عام اس پابندی کا مذاق  اڑا رہے ہیں اس سے مجھے قرآن کی کچھ آیات یاد آتی  ہیں۔ مجھےیاد ہے  جب بہت سال پہلے لاؤڈ سپیکر پر پابندی کا قانون نافذ کیا گیا تو ہمارے اہل جبہ و دستار نے اس کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ یہ شعائر اسلام میں مداخلت کے مترادف ہے اور یہ کہ ہماری حکومت یہودیوں  کے ایجنڈے پہ عمل کر رہی ہے کہ اسلام کو مسلمان کی زندگی سے نکال دیا جائے۔ یہ ایسی بات تھی جس پہ تمام مسالک کے علما ء متفق تھے۔ ہے نا مزے کی بات۔ بالکل اسی طرح جب مساجد سے پانی اور بجلی کا ٹیکس یا بل لینے کی بات کی جاتی ہے تو یہ لوگ متحد ہو جاتے ہیں۔

مجھے سمجھ نہیں آتی اذان  اور خطبہ جمعہ کے علاوہ لاؤڈ سپیکر کے استعمال  پر پابندی سےہمارے اسلام میں کون سی کمی رہ جائے گی۔

نبی اکرم ﷺسے منقول ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

8 thoughts on “لاؤڈ سپیکر بھی ایسا ہی ایک مسئلہ ہے۔”

  1. لاؤڈ اسپیکر کلینڈر کچھ اسطرح سے ہے کہ محرم، صفر اور ربیع الاول کے اول عشرہ آپ کو مجالس سنوائی جائیں گی۔ ربیع الاول سے محافل میلاد و محافل سماع کا سلسلہ شروع ہوگا جو رجب کے درمیان تک رہے گا۔ رجب اور شعبان میں شب معراج اور شب برات کا سلسلہ زور پکڑے گا اور رمضان آتے ہی لاؤڈ اسپکر کا آل فقہ نیشنل ٹورنامنٹ۔ عید کے فورا بعد اچانک شادیوں کا سلسلہ شروع ہوگا اور بھاری فلمی گانوں کی مکمل اپڈیٹ آپ کو گھر بیٹھے فراہم کی جائے گی اور قربانی کی کھالوں کے اعلانات کے ساتھ سال اختتام کو پہنچے گا۔
    ڈاکٹر صاحب طویل تبصرے کی معذرت لیکن ویلکم ٹودی کافر کلب۔ http://urdu.inspire.org.pk/wp-content/plugins/tango-smileys-extended/tango/smile.png

  2. لاؤڈ سپیکر صرف اذان کیلئے ہونا چاہیئے ۔ نہ اس پر کیا جانے والا وعظ مسجد سے باہر جائے اور نہ اس پر گایا ہوا گانا حال یا ہوٹل سے باہر جائے اور نہ کسی کار سے باہر اس کی دھمک سنائی دے

  3. میں بالکل اس بات سے متفق ہوں کہ لاؤڈ سپیکر پر اذان و خطبات کے علاوہ سختی سے پابندی لگا دینی چاہیے۔
    ہمارے گاؤں میں اگر کسی کی مرغی رات تک گھر واپس نہ آئے تو تو مسجد سے اعلان کیا جاتا ہے جس میں مرغی کا حلیہ و عمر تفصیل سے بتا کر مالک کو اطلاع دینے کی درخواست کی جاتی ہے۔
    ایک سبزی والا روز صبح تازہ سبزی کے ریٹ انتہائی تفصیل کے ساتھ مسجد سے نشر کرتا ہے۔
    ایک بار تو حد ہی ہو گئی، عید کے روز گاؤں کی دو مقامی ٹیموں کے درمیان کرکٹ میچ کھیلا جانا تھا۔ اس کا اعلان مسجد سے کیا گیا جس میں یہ بھی بتایا گیا کہ میچ پر پانچ پانچ ہزار روپے لگائے گئے ہیں۔ یہ اعلان کرنے والا ہمارے نمبردار کا بیٹا تھا۔

  4. میں بھی اس بات پر متفق ہوں، لاوڈ سپیکر صرف اذان اور خطبے کے لیے ہونا چاہیے، ماہ محرم میں شیہ حضرات اسے نوحے پڑھنے کے لیے رات بھر استعمال کرتے ہیں،
    سعودی عرب والوں نے اسکا بہت اچھا انتظام کر رکھا ہے، صرف اذان و خطبہ کے لیے استعمال ہوتا ہے، دوسرے خطبہ محکمہ اوقاف سے تصدیق شدہ ایک کاغذ کی صورت میں آتا ہے جسے مولوی صاحب پڑھتے ہیں بس
    اگر پاکستان میں‌بھی ایسا ہی نظام بنا دیاجائے تو عوام کو بڑھکا کر انہیں عیسائیوں کے قتل عام پر نہ اکسایا جا سکے، نہ ہی کہیں جھوٹے توہین قران کے واقع پر قتل ہوں، جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ایسا کرنا ممکن نہیں، فیکس مشین استعمال کرتے ہوے ہر جمعہ کو محکمہ اوقاف والے تمام مساجد کو خطبہ تحریری شکل میں‌مہیا کریں،
    خطبہ دینا ایک امانت کی طرح ہوتا ہے، کسی مولوی کو یہ حق نہیں کہ وہ اس میں ذاتی نفرت پر مبنی باتیں‌کر کے عوام کے ذہین خراب کرے

  5. راشد:: تبصرے کا شکریہ۔ مجھ پر یہ لیبل بہت پہلے لگ چکا ہے ۔۔ تفصیل پھر کبھی ۔۔
    سعد اور یاسر مرزا صاحبان :: کیا بات ہے کہ ہم اپنی مجالس میں تو اس بات پر اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں بہت کم لوگ اس بات پر عمل کرواتے ہیں؟

    افتخار اجمل صاحب‌ :: آپ نے اچھی چیز کی طرف توجہ دلائی۔ یعنی اگر قانون پر عمل کروانا ہی ہے تو پھر سب لاؤڈ سپیکرز پر ہو ، جن میں کار کے سٹیریو سپیکرز بھی شامل ہیں۔ میرا مقصد صرف اس بات کی طرف توجہ دلانا تھا کہ ہم لوگ کتنی آسانی سے مذہب کے نام پر بلیک میل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے آس پاس کے لوگ، مذہب کے نام پر ہمیں اذیت دئے جا رہے ہیں اور ہم آواز نہیں اٹھاتے۔

    کار کے سپیکرز تو شائد کچھ دیر کے لئے مخل ہوں کہ کار چلتی رہتی ہے۔ مگر آپ اس مسجد اور اس شخص کا کیا کریں گے جو قرآن مجید کی آیات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کے ذریعے آپ کو اذیت میں مبتلا کر رہا ہے؟ آپ مسجد کو تباہ نہیں کروا سکتے۔ آپ کسی کو کہہ بھی نہیں سکتے کہ وہ خاموش رہے۔ کہنے کی صورت میں کم سے کم وہابی کا لقب اور سماجی قطع تعلق اور زیادہ سے زیادہ توہین رسالت یا قرآن کا الزام جس کے نتیجے میں تھانے پہنچنے سے پہلے پہلے ہی اکثر ملزم کو قتل کر دیا جاتا ہے عوامی انصاف کے نام پہ۔۔

    مجھے بذات خود نعت گوئی یا تلاوت قرآن سے کسی قسم کی پرخاش نہیں ہے ، مگر جس طرح انھیں استعمال کیا جاتا ہے ، وہ طریقہ غلط ہے۔ اس کی اصلاح بہت ضروری ہے۔

  6. جبکہ انہی صاحبان جبہ و دستار کے ”اکابرین“ نے آلہ مکبر الصوت کے بارے میں فتوے دے رکھے ہیں کہ اس میں سے شیطان بولتا ہے!
    اکابرین کے باقی فتووں پر تو یہ خون کی ندیاں بہانے پر تیار ہوجاتے ہیں
    لیکن اس فتوے کا ذکر آتے ہی سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے
    مجھے تو سکول کے زمانے میں ہی کافر کلب کا رکن ڈکلئیر کیا جاچکا ہے
    ویلکم ٹو دی کلب۔۔۔

  7. میں رمضان کے مہینے میں بازار میں ایک دوکان میں کھڑی تھی۔ گرمی اور روزے کی وجہ سے ویسے ہی جان نکلی ہوئ تھی لیکن جس چیز نے میرے ہوش اڑادءیے وہ پڑوس کی دوکان پر چلنے والی نعتیں تھیں جن میں بیک گرائونڈ میزک میں کچھ دھک دھک کی آوازیں ڈالی ہوئ تھیں، اور ہر دھک دھک کے ساتھ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ سر پھٹ جائے گا۔ میں نے دوکاندار سے پوچھا کیا یہ ہر وقت بجتا رہتا ہے۔ اس نے کہا، ہر وقت اور پورے رمضان۔ شور کی آلودگی نہ صرف سننے کی حس کو متاءثر کرتی ہے بلکہ یہ انسانی رویوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ کیا نیکیاں صرف اپنے زور بازو پر نہیں کمائ جا سکتیں۔ اگر یہ بات ان لوگوں کو کہیں تو یقینآ کافر یا ملحد کہلائیں گے۔
    یہی حال کچھ ریستورانتس کا ہے۔ اگر وہاں کھانا کھانے جائیں تو صرف کھانا ہی کھاتے ہیں آپس میں بات چیت ہی نہیں ہو پاتی اور شور سے تھکن ہوجاتی ہے۔
    کون کرے گا اسکی اصلاح۔

  8. ہمارے ہاں تو کئی بار لڑائی ہوچکی ہے جمعہ اور عید والے دن تو جیسے کوئی میلہ منڈی کا سماء ہوتا ہے ایک نماز پڑھا رھا ہے تو دوسرا اپنا شورمچا رہا ہے ۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں