Skip to content

سوائن فلو ۔ کچھ معلومات

622px Symptoms of swine flu.svg

800px H1N1 map.svg



a



ابھی ہم سارس اور برڈ فلو سے ہوئے نقصانات کے صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ مارچ ۲۰۰۹ کے اواخر سے ایسی اطلاعات آنی لگیں کہ ایک اور وبا پھیلنے لگی ہے۔ شروع میں تو یہ ایک نئی بیماری تھی، اور ماہرین محتاط بھی تھے مگر اپریل ۲۰۰۹ کے اواخر میں اس بیماری نے ایک عالمی وبا کی شکل اختیار کرلی۔

جی ہاں، میں سوائن فلو یا خنزیر میں ہونے والے انفلوائنزا وائرس کی بات کر رہا ہوں۔ ان جانوروں میں یہ وائرس عام ہے اوران میں سے اکثر فلو کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ وائرس انسانی فلو وائرس سے مشابہ ہوتے ہیں مگر ان میں سے کم ہی اتنے مہلک ہوتے ہیں کہ انسانوں کے لیئے خطرے کا باعث بن سکیں۔ ملاحظہ ہو یہ تحریر۔ اب آ پ کہیں گے، اگر یہ پریشانی کی بات نہیں ہے تو پھر اتنا شور و غوغا کیوں؟

جناب ، انسانی فلو وائرس میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں مسلسل جینیاتی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے اس وائرس کے نئے اجزا بنتے ہیں جو وائرس کی طرح ہی مہلک ہوتے ہیں مگر ان کے خلاف پرانی ویکسین موثر نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان تبدیلیوں کی وجہ سے ویکسین کے ٹارگٹ بدل چکے ہوتے ہیں۔

ان تبدیلیوں کے نتیجے میں بننے والے وائرسز کو سب ٹائپ کا نام دیا گیا ہے۔ ایسی ہی ایک سب ٹائپ نے برڈ فلو میں اپنا اہم کردار ادا کیا تھا۔ سوائن فلو کی موجودہ وبا

influenza A virus subtype H1N1

کی وجہ سے ہے۔ یہ سب ٹائپ انسانی فلو وائرس، برڈ فلو وائرس اور سوائن فلو وائرس کے مختلف اجزا سے کشیدہ ہے۔ اس کی ابتدا کیسے ہوئی، اس کا اب تک پتہ نہیں چلایا جا سکا۔ عالمی ادارہ برئے صحت جانوراں کا کہنا ہے کہ یہ سب ٹائپ جانورون میں کبھی پائی ہی نہیں گئی!!! یہ فلو ایک انسان سے دوسرے انسان تک با آسانی منتقل ہو جاتی ہے، مگر اس کا طریقہ کار ابھی مخفی ہے۔ ابھی تک یہی خیال کیا جا رہا ہے کہ کھانسنے ، چھینکنے اور متاثرہ شخص کو چھونے سے یہ مرض ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے۔ حوالہ

اس بیماری کے حوالے سے خدشات مندرجہ ذیل نکات پر مبنی ہیں۔

۱: ماہرین کے مطابو یہ انفلوائنزا وائرس کی ایک نئی قسم ہے ، جس کے خلاف ابھی تک کوئی مدافعتی نظام انسانی جسم میں موجود نہیں۔ اور ابھی تک کسی قسم کی کوئی ویکسین بھی دریافت نہیں کی جاسکی ہے۔

۲: یہ بیماری چھوت کی بیماری ہے۔ ایک انسان سے دوسرے انسان کو بہت جلد لگ جاتی ہے۔ کچھ مریضوں کے بارے میں علم ہوا ہے کہ ان کا خنازیر سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

۳: اس بیماری کی ہلاکت خیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے، کہ دو ہفتوں کے اندر اندر میکسیکو میں اب تک اس وائرس کے ایک سو انسٹھ مریض ہلاک ہوئے ہیں۔ میکسیکو سے باہر ہلاک ہونے والوں کی تعداد دس سے کم ہے۔

۴: پھر اس بیماری کے ایک شخص سے دوسرے میں انتقال کی رفتار ، اور دوسرے عوامل جو اس بیماری کی نوعیت متعین کرتے ہیں، واضح نہیں ہیں۔ حتٰی کہ ہمیں یہ بھی علم نہیں کہ موجودہ دافع انفلوئنزا دوائیں اس کہ خلاف کارگر ہونگی کہ نہیں۔

لہٰذا اس بیماری سے بچاؤ کے لئے فی الحال کچھ ہ

3 thoughts on “سوائن فلو ۔ کچھ معلومات”

  1. شعیب صفدر

    آپ نے اچھا کیا تمام معلومات ایک جگہ جمع کر دی!!! ویسے دینا بہت ڈری ہوئی ہے اس خنزیری زکام سے!!! 🙁

  2. افتخار اجمل بھوپال

    تفصیلات لکھنے کا شکریہ ۔ اللہ آپ کو ایف سی پی ایس میں کامیاب کرے ۔ اگر میں زندہ رہا تو آپ کا پہلا مریص ہوں گا ۔ میرا تنفس کی بیماریوں میں مبتلا رہنے کا بہت لمبا تجربہ ہے ۔ اسلئے مجھے سے آپ بہت سیکھ سکیں گے ۔ ہی ہی ہی ۔ یہ ہوئی نہ بات ۔ اُلٹے بانس بریلی کو

  3. منیر عباسی

    پسندیدگی کا شکریہ، بس دعاؤں میں یاد رکھیئے گا۔
    شعیب، اس زکام سے ڈرنا ہی چاہئے، کیونکہ اس کی علامات بالکل ایک عام سے زکام کی طرح ہیں اور، کون جانے کیا ہو جائے۔
    ہمارے جسم کا مدافعتی نظام کسی بھی جرثومے کے خلاف کچھ عرصے بعد ہی اینٹی باڈیز بناتا ہے، اس لئےاس زکام کا پہلا حملہ کچھ لوگوں میں مہلک بھی ہو سکتا ہے۔ پھر اب تک کی تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اس زکام کے شکار لوگ پہلے سے بیمار نہیں تھے۔ سب جوان لوگ تھے، اور اس سے پہلے صحت مند تھے۔
    میں پہلے ہی ذکر کر چکا ہوں کہ بہت سے مریضوں کا تو خنزیروں سے کسی قسم کا واسطہ بھی نہیں تھا۔

    اب تو شائد یہ وائرس پاکستان میں بھی آ چکا ہے۔

    افتخار اجمل بھوپال، میری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو جلد از جلد صحت کاملہ عطا فرمائے۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں