Skip to content

سوائن فلو پاکستان میں؟

میری کوشش تھی کہ میں انٹرنیٹ پر مہیا معلومات سے کچھ اپنے قارئین کے لئے پیش کر دوں۔ ای سلسلے میں میں آج اخبار دیکھ رہا تھا تو میری نظر اس خبر پر پڑی۔ یہ خبر روزنامہ ایکسپریس میں مورخہ یکم مئی کو شائع ہوئی ہے۔
خبر کا عکس یہ ہے: ۔1100615551 1

 

خبر پر مجھے تشویش اس لئے ہوئی ، کہ پاکستان کی تمام حکومتوں کے دعووں کے برعکس صحت کے میدان میں کوئی قابل ذکر ترقی نہیں ہوئی ہے۔ ہمارا صحت کا شعبہ ابھی بھی ترقی پذیر ہے۔ گو کہ پاکستان کے کئی مستند ادارے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز ڈگری کے کورسز کروا رہے ہیں، مگر پالیسیاں بنانے کا کیا فائدہ جب ان پر عمل درآمد کے لئے ایک سسٹم ہی موجود نہ ہو؟

بڑے شہروں میں رہنے والے میرے قارئین اپنے شہروں کے ان اداروں کی کارکردگی سے بخوبی واقف ہوں گے۔
پاکستان میں ، کم از کم میری معلومات کے مطابق وبائی امراض سے نپٹنے کا سسٹم موجود نہیں ہے۔ہم لوگ کسی ایسی طویل مدتی منصوبہ بندی سے ناواقف ہیں جو حلومت کی طرف سے نافذ ہو اور مفید بھی ہو۔

اب قرنطینہ کا مسئلہ لے لیجئے۔ یہ مریض جو نیویارک سے آیا، اُسے ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے، اگر تو مناسب احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی گئی ہیں تو ہسپتال میں موجود ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف اور دوسرے مریض بھی خطرے میں ہیں۔

مجھے امید ہے مجھ سے پہلے کسی حکومتی بزرجمہر کی نظر اس پہلو پر پڑی ہوگی، اور مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کرلی گئی ہونگی، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو اس مرض سے آگاہ کرنے کے لئے ایک منظم مہم چلائی جائے۔
۱۹۷۶ میں امریکہ میں اس فلو سے بچنے کے لئے پورے ملک میں ایک ویکسینیشن کی مہم چلائی گئی تھی اور اس وقت کی کُل آبادی کے۳۳ فی صد حصے کو ویکسین دی جا چکی تھی۔ یہ مہم کچھ وجوہات کی بنا پر ناکام ہوئی مگر اس کا مطلب یہ بالکل نہیں تھا کہ ویکسینیشن کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا تھا۔

گو کہ انفلوئنزا کے وائرس کے خلاف ویکسین اس حد تک کار آمد نہیں ہوتی، جتنی دوسری بیماریوں کے خلاف بنائی جانے والی ویکسینیں، مگر، اس نئی سب ٹائپ سے جتنا بھی بچاؤ ہو سکے اتنا ہی اچھا ہے۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں