Skip to content

سُنی اتحاد کونسل

آج صبح اخبار میں پڑھا کہ بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی آٹھ جماعتوں نے سُنی اتحاد کونسل کے نام سے ایک مشترکہ تنظیم یا پلیٹ فارم بنا لیا ہے جس کے تحت ملک میں طالبا ن کے بڑھنے ہوئے اثر کے خلاف جدوجہد کی جا ئے گی۔
اگر منطقی انداز سے دیکھا جائے تو اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ طالبان کا مسئلہ اس وقت تر جیحی طور پر حل کرنا چاہئے۔ سوات ، بونیر، مالاکنڈ اور دوسرے علاقوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ باجوڑ سے تعلق رکھنے والے بہت سے مہاجرین پہلے سے ہی پشاور اور نوشہرہ کے کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ حالات کی نزاکت کے باوجود طالبان کی قیادت کو اس کا ادراک نہیں اور وہ مسلسل ایسے اقدامات اٹھائے جا رہی ہے کہ جس کے نتیجے میں اور خرابی پیدا ہو رہی ہے۔ ان کے بیانات اور زیادہ خوف پیدا کر رہے ہیں۔
ملک میں طالبان کے لئے رائے عامہ مختلف آراء میں بٹی نظر آ رہی ہے۔ کچھ لوگ انھیں ظالمان کے نام سےسے پکارتے ہیں اور کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ طالبان کے روپ میں غیر ملکی ایجنٹ ملک میں خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں۔ وہ یہ سوال بھی اُٹھاتے ہیں کہ اگر یہ غیر ملکی ایجنٹ نہیں ہیں تو چہرہ کیوں چھپاتے ہیں؟
ان سب باتوں سے بالکل مختلف ، کچھ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ طالبان اور آرمی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ اِن لوگوں کے اپنے دلائل ہیں۔ ان سب باتوں سے قطع نظر، یہ بات تو مسلم ہے کہ اب طالبان اب مصلحین سے بڑھ کر مفسدین کا روپ اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کی اولیں نیت خواہ کچھ بھی رہی ہو، مگر اب ان کا ہر قدم فساد ہی پیدا کر رہا ہے۔
گو کہ یہ لوگ بھی کلمہ گو مسلمان ہیں ، مگر اس فتنے سے لڑنے کے لئے ہر ممکن قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے، خواہ اس کے لئے ہتھیار ہی کیوں نہ اُٹھانے پڑیں۔ مگر جنگ و جدل آخری قدم ہونا چاہئے۔ اس نازک مرحلے پر پوری قوم کو یکجا ہو کر اس فتنے کا سامنا کرنا چاہئے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس موڑ پر مسلکی اختلافات اجاگر کرنا اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کہ طالبان کا نقطہ نظر۔
طالبان کا اپنا ایک نظریہ ہے۔ یہ نظریہ باقی سب لوگوں کے اسلام کے نظریہ سے متصادم ہے خصوصا بریلوی مکتبہ فکر سے تو بالکل متضاد۔ مزاروں کے معاملے میں ان دونوں مسالک کی رائے کا موازنہ کر لیجئے۔ کچھ لوگ اسے وہابی اسلام کہتے ہیں اور کچھ پشتون اسلام۔ وہ اسلام کے نفاذ کے بارے میں خود بھی شکوک و شبہات کا شکار ہیں، جیسا کہ مجھےمولانا صوفی محمد کے سلیم صافی کو دیئے گئے انٹرویو سے لگا۔ بات بات پر پینترا بدلنے والا ایک شخص کسی انداز سے بھی ایک قائد نظر نہیں آ رہا تھا۔
اب اگر اس موقع پر دوسرے مسالک اپنے طور پر ایک تنظیم یا اتحاد بناتے ہیں جس میں کسی اور مسلک کی نمائندگی نہیں ہوتی تو مجھے ڈر ہے کہ مسالک کے درمیان کی خلیج اور چوڑی ہوجائے گی۔ اور مسئلہ سلجھنے کی بجائے اور الجھ جائے گا۔

6 thoughts on “سُنی اتحاد کونسل”

  1. افتخار اجمل بھوپال

    آپ کے بلاگ کا ربط میں نے اپنے بلاگ کے روابط میں شامل کر دیا ہے ۔ خُوش ؟

  2. DuFFeR - ڈفر

    یعنی اب اسلام کے ایک اور نئے ورژن کے لئے تیار ہو جائیں؟
    😀

  3. بالکل بجا فرمایا آپ نے بریلوی مکتب فکر کے علما کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ دیگر مکاتب فکر بالخصوص دیوبند علما کو قائل کرنے کی کوشش کریں اگر پلیٹ فارم ہی بنانا ہے تو وہ متحدہ ہو نہ کہ محض ایک مکتب فکر کے لوگوں پر مبنی ہو۔

    بلکہ مسلکی بنیاد پر طالبان کی مخالفت نہ کی جائے خالصتا ملکی مفاد میں ان کی مخالفت کی جائے

  4. یہ مکاتب فکر کی اصطلاح سمجھ نہیں آئی مجھے کبھی بھی
    کس فکر کی نمائندگی کرتے ہیں یہ
    مکھی پر مکھی مارنے کی
    لکیر کے فقیر ہونے کی
    اسلام ایک مکتبہ فکر ہے
    تو یہ نئے مکاتب فکر کہاں سے آگئے؟؟؟

  5. میرے خیال میں اس خلیج میں کمی ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔ جب تک کہ اسلام کے نام پر پالنے والوں ہم گھگھو گھوڑون کو یہ سمجھ نہیں آ جاتی کہ ہمارے یہ پیر و مرشد ملا مولوی تو اپنے قول فعل میں اس قدر تضاد رکھتے ہیں کہ ان سے کسی خیر کی توقع فضول ہے ۔
    وسلام

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں