Skip to content

سرخاب کی صلاحیت

زندگی اتار چڑھاو سے عبارت ہے۔ انھی مختلف موسموں کا نام زندگی ہے جو تغیر کے نام پر اس کا اصل حسن ہیں۔

ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی کے مختلف لمحوں کا انتخاب کرتا ہے۔

کوئی سب سے اچھے لمحوں کے حسن سے مسحور ہر کر ساری زندگی اسی طرح بتا دینا چاہتا ہے تو کوئی ایک ڈراونے لمحے سے ڈر کر ہمیشہ کے لئے ہتھیار پھینک دیتا ہے۔ ان یاد داشتوں کی بنیادپر ہم اپنے ماضی کے محل تعمیر کر کے ان کی حفاظت کرتے ہیں، اور مستقبل کی جھونپڑیوں کو اسی طرح کسی دیکھ بھال کے بغیر ویران ہو جانے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔

زندگی کے ان یاد گار لمحوں میں سے ایک لمحہ وہ ہوتا ہے جو بہت اژیت ناک ہوتا ہے۔

کونسا لمحہ اذیت ناک ہوتا ہے؟

  • کسی کا بچھڑجانا؟
  • کسی نصب العین کا نہ پاسکنا؟
  • کسی قیمتی چیز کا گم جانا؟
  • توقعات کا پورا نہ ہونا؟

ہم میں سے ہر کسی کے نزدیک اپنی خواہشات کے مطابق ایک لمحہ ایسا ہوتا ہے جسے ہم اپنی زندگی کا سب سے اذیت ناک لمحہ قرار دیتے ہیں۔

وہ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں جو شعور کی ان ساعتوں سے فائدہ اٹھا کر مستقبل کا لائحہ عمل تیار کر لیتے ہیں۔ باقی اکثریت، یا تو احساس جرم کے تلے دب جاتی ہے، یا پھر ضمیر کے ان کچوکوں کو کان وی نیینٹ لی نظر انداز کر دیتی ہے۔

میرے خیال میں سب سے اذیت ناک لمحہ وہ ہوتا ہے جب آپ کا اپنا سیلف امیج حالات و واقعات کی روشنی میں ٹوٹ جائے اور آپ کو اندازہ ہو کہ آپ کی سوچ کتنی غلط تھی، اپنے اور دوسروں کے بارے میں۔ یہ ایک کوالٹی سچویشن ہے۔

یہی وہ لمحہ ہے جب آپ میں سرخاب کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لمحے میں آپ نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ آپ نے سرخاب کی طرح ایک نیا جیون لے کر پیدا ہونا ہے یا اپنی محرومیوں کا ماتم کرنا ہے۔

2 thoughts on “سرخاب کی صلاحیت”

  1. میں تو پچھلی آدھی صدی سے سُرخاب کی تلاش میں ہوں کہ میرے سر کے اُوپر سے گذرے اور میں بادشاہ بن جاؤں ۔ ۔ ۔ (خیر ۔ یہ تھا مذاق)
    آپ نے مختصر مگر جامع تجزیہ کیا ہے ۔
    میں سوائے ایک بار کے کبھی غم کا شکار نہیں ہوا اور یہ تھا جب میں وطن سے دس بارہ ہزار کلومیٹر دور تھا ۔ میری والدہ محترمہ اچانک اس دارِ فانی سے چلی گئیں اور میں اُن کے جنازہ میں بھی شریک نہ ہو سکا ۔ اس علاوہ تو میں کبھی پریشان نہیں ہوا ۔ ایک وقت کھانا ملا تو اللہ کا شکر ادا کیا ۔ نہ ملا تو بھی صبر شکر کیا ۔ بچپن میں ریڈیو پر ایک گانا سُنا تھا جو مجھے پسند تھا اور میں نے اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال لیا ۔
    میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا ۔ ۔ ۔ ہر فکر کو ہوا میں اُڑاتا چلا گیا​
    بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا ۔ ۔ ۔ بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا
    جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا ۔ ۔ ۔ جو کھو گیا میں اُس کو بھُلاتا چلا گیا​
    ​غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں ۔ ۔ ۔ میں خود کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا​

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں