Skip to content

ذہنی سکون

آج ہسپتال سے واپسی پر جب میں کھانا کھا کر آرام کی غرض سے لیٹا ، تو ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ ایک ایس ایم ایس کی ٹون نے چونکا دیا۔
اس خیال سے کہ شائد کسی دوست کو کوئی ضروری کام ہوگا، میں نے ایس ایم ایس پڑھا تو ایک انجانے نمبر سے یہ ایس ایم ایس وصول ہوا تھا۔ خیر ایس ایم ایس پڑھا تو ایک بے ضرر سا ایس ایم ایس تھا جس کا لُبِ لباب یہ تھا کہ ہر حال میں اللہ سےبہتری کی امید رکھنی چاہئے ۔
بہر حال شام کو میں نے ایس ایم ایس بھیجنے والے سے درخواست کی کہ وہ اپنی شناخت کروادیں کیونکہ یہ نمبر میرے پاس نہیں ، او ر ہو سکتا ہے ان کا کوئی پرانا نمبر میرے پاس محفوظ ہو۔
مجھے بتایا گیا کہ” میں ایبٹ آباد سے طارق ہوں”۔
میں نے پھر پوچھا کہ ، کونسا طارق؟ میں شناخت کرنے میں ناکام ہوگیا ہوں۔ تو موصوف نے بتایا کہ، ” در اصل میں مختلف معلوم اور نا معلوم نمبروں پر مذہبی ایس ایم ایس بھیج کر ذہنی سکون حاصل کرتا ہوں۔”
میں نے اس شخص کے اس جذبے کو سراہتے ہوئے درخواست کی، کہ چونکہ میں اسے جانتا نہیں ، اس لئے میں مستقبل میں اس کی طرف سے ایسے ایس ایم ایس بالخصوص اور ہر قسم کے ایس ایم ایس بالعموم وصول نہیں کرنا چاہتا۔ لہذا مجھے دوبارہ تنگ نہیں کیا جائے۔
اس نے شرافت سے میری بات مان لی۔ اور میں خوش ہوگیا کہ میری جان اتنی جلدی چُھوٹ گئی۔ مگر تھوڑی دیر بعد ہی ایک اور ایس ایم ایس بھیج دیا گیا۔ اب کی بار میں نے اسے فون کرنے کی کوشش کی مگر اس نے کال وصول نہیں کی تو میں نے ایک میسج میں صرف اتنا کہا کہ ” لگتا ہے آپ شریف زادے نہیں ہو” ۔ اس کے جواب نے مجھے اور حیران کیا ۔۔ رُوٹھنے کے انداز میں اس نے جواب دیا کہ” عجیب بات ہے آپ کو مذہب سے لگاؤ نہیں، اب میں دوبارہ کبھی ایس ایم ایس نہیں کروں گا” گویا مجھ پہ احسان جتایا جا رہا تھا۔
میں نے اس کی حوصلہ افزائی کی کوشش بھی نہیں کی اور جواب نہیں دیا۔
اس واقعے کے بعد اب میں سوچتا ہوں کہ ایک زمانے میں ہم مفت یا سستے ایس ایم ایس کی خواہش کیا کرتے تھے، اور اب جب کہ یہ خواہش پوری ہو گئی ہے، اس کے استعمال کے کتنے مکروہ پہلو سامنے آرہے ہیں؟ بلاوجہ دوسروں کو بلا اجازت ایس ایم ایس بھیجنا کس قسم کا ذہنی سکون فراہم کرتا ہے؟ آپ کہیں گے کہ ایک ہی میسج پر اتنا رد عمل؟ مگر آپ یہ بھی تو سوچیں کہ ہر برائی پہلے چھوٹے پیمانے پر شروع ہوتی ہے۔۔۔

11 thoughts on “ذہنی سکون”

  1. خورشیدآزاد

    بغیر اجازت اور بغیر طلب کیے ایس ایم ایس کسی کو بیجھنا غیر قانونی ہے.

  2. ڈاکٹر صاھب آپ میسج ٹون آف کرکے سویا کرٰیں. ورنہ آپ جانتے ہی ہیں کہ میسج کتنا سستا ہوگیا ہے، کسی وقت بھی اور کہیں سے بھی آسکتا ہے.

  3. عمر احمد بنگش

    محترم ڈاکٹر صاحب، اسلام وعلیکم جناب۔
    سب سے پہلے تو حاضری قبول کریں اور مجھے خوش آمدید کہا جائے۔ :)۔
    دوسری بات یہ کہ ایس ایم ایس والے کو ماریں گولی، بلکہ آپ کو مارنے کی کیا ضرورت آپ کھلا ہی لیں اس کو۔ :)۔ یہ رونا تو اب لگا رہے گا۔ کبھی ہم اور آپ روئیں گے اور کبھی رحمان ملک روئے گا۔ سو ٹینشن نہ لیں اور ابدی سکون پائیں۔

  4. عمر احمد بنگش

    ڈفر پاجی، تسی کِدرے مری تے نی رہندے او :)۔۔۔۔

  5. منیر عباسی جی پاکستان میں ہر ایک کی جان ایس ایم ایس میں اٹکی ہوتی ہے جن کو اردو پڑھنی نہیں آتی وہ دوسروں کے پاس جائے گا ۔ کہ دیکھو کیا لکھا ہوا ہے پوری پوری غزل لطیفے ۔ واہیات باتیں ۔ ھیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ جھاڑو لگانے والے بھی ایک دوسرے کو ایس ایم ایس کرتے ہیں ۔ پاکستانمیں کسی اور کام میں ترقی لیکن ایس ایم ایس اور موبائل فون میں سب سے آگے ہے ۔

  6. جی پیکج کروا لو تو مفت کے مول میں ورنہ سوا روپے کا ایس ایم ایس. ذلالت ہے نا؟

  7. ڈاکٹر صاحب۔۔۔ اسے کہتے ہیں اسلام کا ری مکس ورژن۔۔۔۔
    ایک ذاتی درخواست
    میرا بلاگ بھی بلاگ رول میں شامل کرکے ثواب دارین حاصل کریں۔۔۔!!!

  8. افتخار اجمل بھوپال

    انسان نے درست کہا ہے ۔ میں ایسے پیغام آنے پر اُن کو لکھ دیتا ہوں کہ آئندہ بھیجا تو پی ٹی اے سے کہہ کر سِم بلاک کروا دوں گا

  9. منیر عباسی

    بنگش صاحب ، سب سے پہلے تو تساں دی حاضری قبول کیتی گئی۔

    ہر کدے آؤ بنگش صاحب۔ تے پخیر راغلے وی موجود ہے۔

    گولی مارنا یا کھلانا کوئی مشکل کام نہیں، ساری قوم کو ہمارے لیڈر حضرات روزانہ گولیاں ہی تو کھلاتے ہیں۔

    دوست، سوا روپے کا ایس ایم ایس واقعی ذلالت ہے۔

    اجمل صاحب، اب تو لوگ پی ٹی اے والی تڑی پر بھی طنزیہ ہنسی ہنس جاتے ہیں۔ کل ہی کی بات ہے، ایک ایسا مشاہدہ بھی ہوا مجھے، اب تو لگتا ہے، مجبورا نمبر ہی بدلنا پڑے گا۔
    شریف بندہ کہیں بھی نہیں رہ سکتا۔۔

    تانیہ رحمان، ڈفر، اور جعفر بھائی، آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آپ رہنمائی کرتے رہیں گے۔

    جعفر، اپنے بلاگ کا لنک تو دیں۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں