Skip to content

دیکھتے کیوں ہو؟

تی وی ڈرامے کافی کامیابی سے لوگوں کا ذہن بنا رہے ہیں۔ اتنی کامیابی اور خاموشی سے کہ کسی کو اندازہ بھی نہیں ہورہا۔ ہم جیسے سادہ دل لوگ تو کچھ منٹس کے ودیو کلپس پر اپنے ہم وطنوں کے کاروبار تباہ کر کے سمجھتے ہیں اپنے مذہب اور اقدار کی تباہی پر کامیاب احتجاج رجسٹر کرا لیا ہے۔

اس وقت ایک فضول سے تی وی چینل پر ایک عدد فضول سا ڈرامہ لگا ہوا ہے اور وہی روٹین کے موضوعات۔ زنانہ ملبوسات سکڑتے جا رہے ہیں، جسم کے نشیب و فراز نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود کوئی اگر یہ کہے کہ اس کا نقصان نہیں ہوگا تو کہہ سکتا ہے۔

جو کچھ میں محسوس کر رہا ہوں، وہ صرف اور صرف مولوی ، بنیاد پرست اور قدامت پسند لوگ کر اور کہہ سکتے ہیں جو اس معاشرے کو پتھر کے دور میں لے جانا چاہتے ہیں۔ ویسے پتھر کا دور تو آ ہی چکا ہے۔ طاقت ور کا زور چلتا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ بدمعاش کا اس معاشرے میں احترام اور شریف کی پگڑی اس الئے اچھالی جانی کہ وہ جواب میں ایذا نہیں پہنچا سکتا۔

پتھر کا دور نہیں تو کیا ہے۔ کوئی کسی اصول کی پاسداری نہیں کرتا سب اپنے نفس کے غلام ہیں۔ لگتا ہی نہیں کہ کوئی تعلیم یافتہ بھی ہے۔ کیا ڈگری ہولڈر، اور کیا ان پڑھ۔ سب اپنے پیٹ کی خاطر ایک جیسے ہتھکنڈے استعمال رہے ہیں۔

بچوں کے لئے جو پہناوے بازار میں دکانوں پر ٹنگے نظر آتے ہیں سب مغربی طرز کے۔ شلوار قمیضیں تو غائب ہی ہو گئی ہیں۔ تنگ پاجاموں کا فیشن ہو یا کھلے پا جاموں کا، "اِن" رہنے کی خواہش عورتوں کی بازاروں میں پاگلوں کی طرح درزیوں کی دکانوں کا طواف کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

ٹی وی ڈراموں میں اگر لباس مکمل بھی ہو تو وہ کچھ کہا اور سنایا جا رہا ہے جو شائد اگر حقیقی زندگی میں ہامرے آس پاس ہو تو کئی افراد کو کسی نا مناسب رد عمل پر مجبور کر دے۔ مگر آرٹ ہے، فن ہے۔ کیا کیا جائے،سوشل بننا ہے تو سرپرستی ہرنی ہو گی۔

اور ہم جیسے تنگ نظر لوگ؟ ان کے لئے ایک ہی مشورہ صائب لگتا ہے کہ اگر بُرا لگتا ہے تو دیکھتے کیوں ہو؟ آنکھیں کیوں بند نہیں کر لیتے؟

دیکھتے کیوں ہو؟

1 thought on “دیکھتے کیوں ہو؟”

  1. میں ڈرامے تو عرصہ دراز سے نہیں دیکھ رہا لیکن کبھی خرین دیکھنے کو دل چاہتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کہ کسی فلم کا ٹکڑا دیکھ رہا ہوں ۔ مختسر خبرین ہوں یا تفصیلی ان میں اور خرافات کے علاوہ کسی بھارتی اداکارہ یا بھارت نما پکستانی اداکارہ کا بے ہنگم ننگ دڑھنگ ناچ بھی شامل ہوتا ہے ۔ کہتے ہیں ثقافت بن رہی ہے جبکہ مجھے لگتا ہے کہ ثقافت مر رہی ہے

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں