Skip to content

دیوتا

دیوتا نے بہت عرصے اپنے سحر میں مبتلا کئے رکھا. مجھے یاد نہیں کب دیوتا سے میری شناسائی ہوئی اور کب یہ شناسائی آگے بڑھ کر ایک عارضے میں بدل گئی.

میں بات کر رہا ہوں اردو زبان کے سب سے طویل سلسلے دیوتا کی جو ماہنامہ سسپنس ڈائجسٹ میں 1977 سے لگاتار شائع ہوتا رہا اور اب جنوری 2010 کے شمارے میں اس کا آخری باب شائع ہو چکا ہے.

ماہنامہ سسپنس ڈائجسٹ کے مطابق دیوتا 33 سال تک لگاتار شائع ہوتی رہی اور اسے اردو کیا ، دنیا کی کسی بھی زبان میں شائع ہونے والی طویل ترین داستان کا اعزاز حاصل ہے.

ابتداء میں تو میں سمجھتا تھا کہ واقعی فرہاد علی تیمور ہی اس داستان کا راوی ہے اور بڑی دلچسپی سے اس داستان کو پڑھتا تھا. کبھی لاہور جانے کا اتفاق ہوا تو شاہدرہ پُل کے آس پاس دیکھتا تھا کہ شائد کہیں فرہاد علی تیمور کسی درخت کے نیچے خیال خوانی میں مصروف نظر آجائے، مگر صرف کنکریٹ کی عمارتوں کا جنگل ہی نظر آپاتا تھا. اس خیال سے کہ لوگ مذاق نہ اڑائیں کبھی بھی اس خواہش کا اظہار نہ کیا. مگر پھر، وقت کے ساتھ ساتھ جب آس پاس کی چیزوں کو سمجھنے شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ اور بہت سے کہانیاں بھی تھیں جن کا طرز تحریر بالکل فرہاد علی تیمور کی طرح کا تھا.
پہلے تو یہ گمان ہوا کہ دراصل فرہاد علی تیمور ، محی الدین نواب کے نام سے لکھتا ہے، مگر جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ حقیقت اس کے برعکس ہے. یہ محی الدین نواب تھے جنھوں نے فرہاد علی تیمور کی داستان قلم بند کی.

دیوتا 33 برس تک شائع ہوتی رہی.میں اس کو مستقل تو نہ پڑھ سکا، بیچ میں بہت لمبے لمبے وقفے آئے، تعلیمی میدان میں مسابقت کی دوڑ کی وجہ سے دیوتا سے رابطہ منقطع رہا ، مگر بھلا ہو لائیبریریوں کا، اور میرے دوستوں کا، کہ پرانے ڈائجسٹ مل جاتے تھے اور اس داستان میں پائے جا نے والے خلا تھوڑے تھوڑے کم ہوجاتے تھے.
محی الدین نواب صاحب کا بہت زرخیز دماغ ہے، اس لمبے عرصے تک ایک داستان کو چلائے رکھنا اور ایسا چلائے رکھنا کہ ہر باب میں ایک نیا موڑ. ایک بہت کٹھن کام ہے. مجھے یاد ہے، فرہاد علی تیمور کی داستان کے شروع کے حصوں میں سپر ماسٹر اور ماسک مین دو اہم کردار تھے جو کہ اس وقت امریکہ اور سوویت یونین کی بالادستی کی نمائیندگی کرتے تھے. سوویت یونین کے زوال کے بعد ماسک مین کے کردار کو زوال آیا اور پھر خطے کے حالات کے مطابق کہانی چلنے لگی. کبھی فرہاد کو سوڈان میں بھیجا گیا، تو کبھی طالبان کے درمیان. اکثر بھارتی کالے جادو کے ماہرین خال چاٹتے نظر آتے تھے. فرہاد نے رسونتی کو مسلمان کرا کے آمنہ بنا ڈالا اور یوں کہانی آگے بڑھتی گئی.

دیوتا اور ٹیلی پیتھی نے دماغ پر ایسا اثر ڈالا تھا کہ ایک زمانے میں مَیں نے کتابیات پبلیکیشنز کی ٹیلی پیتھی پر اکثر کتابیں خرید ڈالی تھیں. شمس بینی کے چکر میں صبح اٹھنا اور فلیٹوں کے پانی کے پائپوں کے ذریعے چھت پر چڑھ کر بند آنکھوں سے سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھنا ، کہ شائد اس سے آنکھوں میں وہ طلسماتی طاقت پید اہو جائے جس سے ہم امتحان میں آنے والے سوالات ٹیچر کو سحر زدہ کر کے معلوم کر سکیں.
رات کو پڑھتے پڑھتے ایک موم بتی لگا کر شمع بینی کی مشقیں کرنا، یا پھر ایک سادہ کاغذ پر ایک سیاہ دائرہ بنا کر اسے دیر تک دیکھنا بھی انھی مشقوں میں شامل تھا.

پھر کافی عرصے تک تو یہ تجسس رہا کہ آخر فرہاد کب اپنی داستان ختم کرے گا؟ وہ دن کب آئے گا جب ہم اس داستان کے اختتامی جملے پڑھیں گے، مگر وہ دن اُس وقت نہ آنا تھا. دیوتا چلتی رہی اور اس عرصے کے دوران بہت سے سلسلے شروع ہو کر ختم ہو بھی گئے مگر فرہاد ہر بار ایک نیا جنم لے کر سامنے آ جاتا تھا. یہ بات مجھے اچھی نہ لگی کہ صرف داستان گوئی کی خاطر آواگون کے فلسفے کو بھی بعض اوقات اسلامی رنگ چڑھایا گیا، مگر جب لوگوں کی عقیدت کو دیکھتا تو سسپنس ڈائجسٹ کی انتظامیہ کو لکھنے کا ارادہ ترک کر دیتا.

اب بھی جب کہ یہ داستان ختم ہو چکی ہے، مجھے بہت سے پہلو تشنہ دکھائی دے رہے ہیں. گزشتہ چھے برس سے اس داستان کا باقاعدہ مطالعہ کرتے ہوئے مجھے کئی ماہ پہلے اندازہ ہو گیا تھا کہ محی الدین نواب صاحب اب اس داستان کو ختم کرنے کے چکر میں ہیں. بابا فرید واسطی کی کئی پیش گوئیوں کا سہارا لے کر اس داستان کو مصنوعی تنفس فراہم کیا گیا مگر، یہ سب کب تک چلتا؟

اب جب کہ آج میں اس داستان کا آخری باب پڑھ چکا ہوں، مجھے یہی محسوس ہو رہا ہے کہ اگلے ماہ پھر کسی پیش گوئی یا روحانی طاقت کا سہارا لے کر فرہاد علی تیمور میدان میں کھڑا دشمنوں کو للکار رہا ہوگا.

15 thoughts on “دیوتا”

  1. محی الدین نواب کا انداز تحریر ایک سطر پڑھنے کے بعد ہی پہچانا جاتا ہے۔ میری بدقسمتی یہ ہے کہ جب سے ڈائجسٹ پڑھنے شروع کئے،اسی وقت سے نواب صاحب سے چڑ سے ہوگئی تھی، دیوتا کے شروع کے حصے ٹین ایج تک تو خوب مزے لے کے پڑھے، جب ذرا ہوش ٹھکانے لگے تو احساس ہوا کہ دھت تیرے کی!
    میرا ایک چچا زاد بھی اسی خیال خوانی کے چکر میں عینک لگوا بیٹھاتھا وہ بھی موٹے شیشوں کی۔۔۔۔
    اور آپ کے چشمے کا راز بھی سمجھ میں آگیا۔۔۔

  2. ایک لمبے عرصے تک میں بھی دیوتا اور ٹیلی پیتھی کے سحر میں مبتلا رہی۔ اس دوران بہت دلچسپ تجربے بھی ہوئے۔ میری دلچسپی تو اس میں ہے کہ آپ نے جب یہ تمام مشقیں کیں تو نتیجہ کیا نکلا۔
    میں نے تو اتنی کلفت نہیں اٹھائ۔ کیونکہ بہت شروع میں احساس ہو گیا تھا کہ اس ٹیلی پیتھی کے سرے اور ڈانڈے کچھ اور چیزون سے بھی جا کر ملتے ہیں۔
    ایک لمبے عرصے تک سسپنس ڈائجسٹ چاٹنے کے بعد پتہ چلا کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
    محی الدین نواب ایک دلچسپ لکھاری ہیں۔ اگر دیوتا کو آپ شروع سے اب تک پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ جیسے یہ پاکستانی معاشرہ میں آنیوالی تبدیلیوں کی کہانی ہے۔
    .-= عنیقہ ناز´s last blog ..ایک بلاگر کے لئے =-.

  3. قدیر احمد: ہیں ختم ہو گئی؟ بڑی بات ہے، اسے ابھی ۲۲ سال مزید چلنا چاہیے تھا
    ویسے اینڈ کیا ہوا؟ فرہاد مر گیا کہ زندہ ہے؟اور اپنی بلاگ رول میں میرے بلاگ کا پتہ اپ ڈیٹ کر لیجیے پلیز۔

    جی جناب:: فرہاد اور سونیا دونوں مَر گئے.

  4. میں سسپنس ڈائجسٹ کا ایک عرصہ قاری رہا ہوں لیکن سولہ سترہ سال کی عمر میں ہی مجھے یہ کہانی حد درجے بیوقوفانہ لگنے لگی تھی اس لئے پڑھنا چھوڑ دی مگر محی الدین نواب صاحب کی دیگر کہانیاں پڑھتا رہا ہوں اور ان کی خیال آفرینی اور قدرت بیان کا قائل ہوں۔ یہ اطلاع واقعی اہم ہے اردو پڑھنے والے لاکھوں نوجوانوں نے اس کہانی کو پڑھا ہے اور اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں یہ اردو زبان اور داستان گوئی کا ایک اہم اثاثہ ہے نواب صاحب اس سلسلے کو ختم کرنے پر داد کے مستحق ہیں۔ بہت شکریہ آپ نے یہ اطلاع دی ورنہ شاید مجھے اس کی خبر بھی نہ ہوتی۔

  5. اور ہاں میں عنیقہ کے تبصرے میں موجود اس سطر سے اتفاق کرونگا کہ یہ کہانی پاکستانی معاشرے کی کہانی ہے۔ شروع میں نہ صرف یہ کہ کہانی بے دلچسپ تھی بلکہ ہندو یہودی امریکی گٹھ بندھن کی بے تکی کہانیوں اور غیر مسلم دشمن رویے سے بھی پاک تھی جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے پاکستان میں اسلامائزیشن آگے بڑھتی ہے۔ جیسے جیسے پاکستانی معاشرے کا رویہ عقل دشمن ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے یہ داستان بھی بے سروپا ہوتی چلی جاتی ہے۔

  6. ہیں ختم ہو گئی؟ بڑی بات ہے، اسے ابھی ۲۲ سال مزید چلنا چاہیے تھا 😛

    ویسے اینڈ کیا ہوا؟ فرہاد مر گیا کہ زندہ ہے؟

    اور اپنی بلاگ رول میں میرے بلاگ کا پتہ اپ ڈیٹ کر لیجیے پلیز۔
    .-= قدیر احمد´s last blog ..Maula Dil Badal Dey =-.

  7. عنیقہ صاحبہ :: ایک کوئی شمس الدین عظیمی صاحب ہیں، قلندر بابا اولیا ء کے حوالے سے کوئی روحانی سلسلہ چلا رہے ہیں. ایک روحانیات ڈائجسٹ نکالتے ہیں. وہ بھی شوق سے پڑھا مگر ایک دن ایک بات پڑھ کر الجھن سی ہوئی.
    روحانیات ڈائجسٹ میں ٹیلی پیتھی ہی کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ قبلہ رخ ہو کر سونا چاہئے کہ اس سے ایک تو داہنے ہاتھ سونے کی سنت پوری ہوتی ہے اور دوسرے شمال سے آنے والی مقناطیسی لہریں آپ کے جسم کو مسلسل اپنے زیر اثر رکھیں گی.

    ذہن میں خیال آیا کہ ان مریدین کا کیا ہوگا جو یورپ ، امریکہ یا افریقہ میں رہتے ہیں. کوئی جواب نہ مل پانے پر اس کا مطالعہ بھی ترک کر دیا.

    جہاں تک مشقوں کی بات ہے تو زیادہ عرصے نہیں کر سکا، کیونکہ چھت پر سویرے سویرے چڑھنا ایک مشکل کام تھا. 🙂 ایک بات ہے کہ شمع بینی کی مشقوں سے اپنے خیالات کے ارتکاز کی عادت پڑی اور اس نے تعلیمی میدان میں میری تھوری بہت مدد کی. سوچتا ہوں اب تک جاری رکھ پاتا تو جانے کیا ہو چکا ہوتا.

    محی الدین نواب صاحب ایک ذہین قلم کار ہیں. اور اتنے لمبے عرصے تک ایک ذہین مصنف ہی ایک داستان کو چلا سکتا ہے. نواب صاحب نے آس پاس کے حالات کو دیکھ کر ہی داستان کو آگے بڑھایا ہے، مثلا 1996 کے بعد کی کچھ اقساط میں فرہاد طالبان کے ساتھ مل کر امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کے خلاف کام کر تا ہے، مگر جیسے ہی امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا، فرہاد کی ساری توانائیں بھارت میں مہم جوئی پر صرف ہونے لگیں.

    نعمان : یہ کہا نی بے سروپا ، بے وقوفانہ سہی، مگر اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ کم از کم دو نسلیں اس کہانی کے سحر میں مبتلا رہیں. مجھے یا د ہے ایک مرتبہ محلے کے ایک لڑکے کے ساتھ کھڑا اس کہانی پر تبصرہ کر رہا تھا، کہ اُس کے والد صاحب آ گئے. انھوں نے فرہاد کا نام سُن لیا اور اس کے بعد وہ ڈانٹ پڑی کہ نہ پوچھیں. وہ خود بھی اس داستان کو پڑھتے رہے تھے اور تنگ آ کر انھوں نے اس کو پڑھنا چھوڑدیا تھا. 🙂

  8. بالکل منیر اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو زبان میں یہ ایک اہم داستان ہے۔

  9. جی ہاں شمس الدین عظیمی ساحب اس سلسلے میں ایک خاصہ مشہور نام ہیں۔ انکے پانچ سالہ پوتے سے میری ملاقات ہوئ۔ اور یہ خاصی حیران کن تھی۔ میں اسکی تفصیلات اپنے بلاگ پہ ڈالنا چاہوں گی۔ اس میں شک نہیں کہ ارتکاز ذہن ایک بڑی ذہنی قوت ہے۔ میں اکثر یہ بات دہراتی ہوں کہ بہت ذہین ہونے سے آپ اتنا فائدہ نہیں اٹھا سکتے جتنا اپنی ذہنی قوتوں کو مرتکز کر کے کر سکتے ہیں۔ یہاں ایک بات مزید بتانا چاہوںگی کہ ارتکاز ذہن کے لئے شمع بینی کی ضرورت نہیں۔ اور نہ ہی اسے دیر تک گھورنے کی۔ یہ مشقیں آنکھیں بند کر کے بھی کی جا سکتی ہیں۔
    .-= عنیقہ ناز´s last blog ..ہائے فیس بک =-.

  10. عنیقہ صاحبہ :: ایک کوئی شمس الدین عظیمی صاحب ہیں، قلندر بابا اولیا ء کے حوالے سے کوئی روحانی سلسلہ چلا رہے ہیں. ایک روحانیات ڈائجسٹ نکالتے ہیں. وہ بھی شوق سے پڑھا مگر ایک دن ایک بات پڑھ کر الجھن سی ہوئی.
    روحانیات ڈائجسٹ میں ٹیلی پیتھی ہی کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ قبلہ رخ ہو کر سونا چاہئے کہ اس سے ایک تو داہنے ہاتھ سونے کی سنت پوری ہوتی ہے اور دوسرے شمال سے آنے والی مقناطیسی لہریں آپ کے جسم کو مسلسل اپنے زیر اثر رکھیں گی.

    ذہن میں خیال آیا کہ ان مریدین کا کیا ہوگا جو یورپ ، امریکہ یا افریقہ میں رہتے ہیں. کوئی جواب نہ مل پانے پر اس کا مطالعہ بھی ترک کر دیا.
    ارے اتنی سی بات پر آپ ان سے فرنٹ ہوگئے حالانکہ قبلہ رخ تو دنیا کے ہر ملک میں ہوا جاسکتا ہے اور انہوں نے ایسا کرنے کی قسم تو نہیں کھلوائی تھی صرف ایسا کرنے کے فوائد بتائے تھے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا!

    1. سب سے پہلے تو توجہ سے پڑھنے کا شکریہ۔ عبداللہ

      بات در اصل اس طرح لکھی جانی چاہئے تھی کہ، مریدین کو شمال سے ٓنے والی مقناطیسی ہواؤں سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ یہ کہا گیا تھا کہ داہنے ہاتھ سونے سے ایک تو سنت پوری ہو گی دوسرے انسان قبلہ رخ سوئے گا۔

      اب وہ مریدین جو کہ برصغیر پاک و ہند کے رہنے والے نہین ہیں اور افریقہ ، یورپ یا امریکہ میں رہتے ہیں تہ قبلہ کی سمت تو ایسی نہیں ہو گی نا۔ اب اگر وہ ان تمام تین شرائط پر عمل کرنا چاہیں تو ممکن نہ ہوگا۔

      آپ خود تصور کر لیجئے، برطانیہ میں رہنے والا ایک مرید ان تین شرائط پر کیسے عمل کر سکتا ہے۔

      بلاگ پر آتے جاتے رہئے۔

  11. مراسلہ اور اُس پر ہونے والے تبصرے بغور پڑھے لیکن سر کے اُوپر سے ایسے گذر گئے جیسے میڈیکل کالج میں پہلا لیکچر- لیکن وہ تو اُردو ذریعہءِ تعلیم اور انگلش میڈیم کے درمیان ابدی تصادم کے سبب تھا، معلوم نہیں یہاں کیا چیز آڑے آرہی ہے؟؟؟

  12. بڑی خبر سنائی جے دیوتا ختم هو گئی
    میں نے چھٹی میں شروع کی تھی لیکن چند سال بعد جھوڑ دیا بلکه محی دین نواب سے هی چڑ هو گئی که بات کو لمبا هی کیے جاتا ہے

  13. جی ایم بھٹی بورے والا پنجاب

    کہانی کچھ بھی۔ ہو اصل دیکھنے والی چیز یہ ہے لکھنے والا کہنا کیا چاہتا ہے ۔ اس کا لکھنے کا مقصد کیا ہے اور وہ ہمیں بتانا کیا چاہتا ھے کیا کبھی کسی نے اس بات پر غور کیا ھے ۔

  14. ساحل فخر

    میں نے حال میں ہی دیوتا کو پڑھنا شروع کیا ہے دیکھتے ہیں کہ ٹیلی پیتھی ہمیں کس دنیا کی سیر کرواتی ہے ?

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں