Skip to content

دھوکہ !!!.

گرمیوں کے دن تھےاور اس زمانے میں لوڈشیڈنگ نام کی کوئی چیز نہیں ہوا کرتی تھی۔ دوپہر کا وقت تھا اور دونوں بے چینی سے کسی کا انتظار کر رہے تھے۔ سرکاری کوارٹر تھا، ٹیلی فون کی سہولت صرف امراء اور سرکاری افسروں کو ہی میسر تھی۔ موبائل فون نام کی چیز کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ لہذا انتظار کی اذیت برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔
تھوڑی دیر بعد ، مرد نے خاتون سے پوچھا، کب آئے گا یہ نالائق؟ کہیں رستہ نہ بھٹک گیا ہو۔
خاتون نے، جو خود بھی پریشان تھی، تحمل سے جواب دیا، اب بچہ نہیں رہا وہ، رستے پہچانتا ہے، آجائے گا۔ شائد دوستوں کے ساتھ کھیل رہا ہو۔ اور پھر کھڑکی سے جھانک کر دیکھا کہ شائد وہ رستے میں کہیں سےآتا نظر آجائے۔
کافی دیر بعد، وہ گھر کے دروازے پر پہنچا ، دستک دی، دروازہ کُھلا پا کر اندر داخل ہوا ، ماں باپ کو سلام کیا اور امتحانی گتہ ایک طرف پھینک دیا۔ ماں دیوانہ واراُٹھی، اور لپک کر اسے اپنی بانہوں میں لیا، ماتھے کو چوما اور بولی، کہاں رہ گیا تھا میرے لال؟
اُس نے ایک شان بے نیازی سے جواب دیا ۔ ماں میں دوستوں کے ساتھ بنٹے کھیل رہا تھا۔
باپ نے غصہ کرنا چاہا تو ماں نے اشارے سے منع کردیا۔
ماں نے بکھرے بالوں کو سنوارتے ہوئے پوچھا، اچھا آج کا پرچہ کیسا ہوا میرے بیٹے کا؟
بیٹے نے کھانے کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہوئے جواب دیا، اچھا تھا امی، مجھے تو آج بہت مزہ آیا۔ سب سوال آتے تھے مجھے۔
باپ نے پوچھا، کدھر ہے پرچہ؟
بیٹے نے ایک مُڑا تُڑا کاغذ فرمانبرداری سے باپ کے حوالے کر دیا۔ باپ نے پرچہ دیکھا اور پھر بیٹے سے سوالوں کے جواب پوچھنے لگا۔ لڑکے نے ناگواری سے جواب دیے اور ماں سمجھ گئی کہ بھوک لگی ہے۔ ماں جلدی سے اُٹھی کہ بیٹے کے لئے کھانا گرم کرے۔
اتنے میں باپ نے تبصرہ کیا ،پتہ نہیں جواب صاف صاف بھی لکھے تھےکہ نہیں اس کی لکھائی بہت گندی ہے۔ پتہ نہیں کیا کِیا ہوگا اِس نے پرچے میں۔
تو بیٹے نے اِٹھلا کر جواب دیا، ابو جی ، آج تو میں نے اپنی مِس کو دھوکہ دیا ہے۔۔ سارے سوال آتے تھے مجھے۔۔ مِس کو پتہ تھا، اور پھر بھی میں نے کچھ نہیں لکھا، خالی پرچہ دے کر آیا ہوں۔ مِس کو پتہ چلے گا تو بہت مزہ آئے گا۔
اِ س کے بعد جو کچھ ہوا، وہ ضبطِ تحریر کے قابِل نہیں۔

18 thoughts on “دھوکہ !!!.”

  1. آپ کے والد کافی متحمل مزاج معلوم ہوتے ہیں۔۔۔۔
    آپ نے بنٹے کھیلنے کا اقرار بھی کرلیا اور بچ گئے
    ہم تو کبھی بنٹوں، پتنگوں کا نام بھی نہیں زبان پر لا سکتے تھے۔۔۔
    حالانکہ چھپ کر یہ سارے شوق ہی پورے کئے تھے۔۔۔
    😆
    اور مس کو تو معلوم نہیں‌مزہ آیا ہوگا یا نہیں
    لیکن آپ کو تو ہاتھ کے ہاتھ ہی مزہ آگیا ہوگا۔۔۔۔
    😆

  2. ھاھاھاھا۔ بہت خوب بھئی۔ آپ تو ماشآ اللہ بہت”تیز” تھے۔ اتنی شان بے نیازی؟؟ کمال ہے بھئی۔
    ویسے یہ تو بتائیں کہ مس نے کیا کہا؟

  3. افتخار اجمل بھوپال

    سب سے دلچسپ بات مس کو دھوکہ دینے والی ہے ۔ ویسے آپ مجھے اب بھی اتنے ہی بھولے بھالے لگتے ہیں

  4. خورشیدآزاد

    بہت خوب!! لیکن جناب کہانی ادھوری، پھر کیا ہوا تفصیل سے بتائیں….. 🙂 🙂

    ویسے عباسی صاحب کیا بنٹوں کی یادیں تازہ کردیں. ویسے ایک بات بتاؤں میں نے بچپن میں جتنے بنٹے ہارے ہیں میرا خیال ہے شاید ہی کسی نے ہارے ہوں گے. ایسا نہیں ہے کہ کھلاڑی اچھا نہیں تھا بالکہ دو دو گز دور سے بھی نشانہ لگایا ہے لیکن پھر بھی نامعلوم، گھر سے آتے وقت بھرا جیب، جاتے وقت خالی ہوتا. 🙂

  5. منیر عباسی

    خورشید: جو مزہ تجسس میں ہے وہ عرفان میں کہاں؟ اس لئے اس بات کو رہنے دیں۔ مگر اتنا بتاتا چلوں کہ یہ وہ زمانہ تھا جب اساتذہ ہر بچے کے والدین سے واقفیت رکھتے تھے اور ان والدین ہی کی طرح بچوں کے بارے میں پریشان رہتے تھے۔۔

    ویسے بنٹے میں نے شاذ و نادر ہی جیتے ہوں۔

    ابو شامل: آپ بھی نا!! سب کے سامنے وہ بات پوچھتے ہیں جس پر پردہ ڈالنے کے لئے میں نے پوری کوشش کی ۔۔۔

    جعفر : الحمد للہ ، احقر نے کبھی بھی پتنگ بازی جیسی قبیح حرکت کا ارتکاب نہیں کیا۔۔ کیوں کہ بنٹے پھر بھی چھپائے جا سکتے ہیں، ایک عدد پتنگ نہیں۔۔
    😀

  6. شعیب صفدر

    نہ معلوم کیوں!! میرا نہیں خیال یہ آپ تھے!!!۔

  7. منیر عباسی

    وکیل اور پولیس شک نہ کریں تو معاملات کیسے سلجھیں؟

    😀

  8. محمد محمود مغل

    واہ صاحب کیا بات ہے ، یقیناً آپ کی آپ بیتی ہے ،، شکریہ شیئر کرنے کو

  9. اگر جان کی آمان پاوں تو کچھ میں بھی عرض کر دوں ۔ اس طرح کے کام تو ڈاکتٹر بابو ہی کر سکتے ہیں ۔ جو کچھ نہیں کرتے وہ ڈاکٹر بن جاتے ہیں بہت خوب لکھا ۔

  10. منیر عباسی

    ارے ارے ، کیوں شرمندہ کرتی ہیں، جان کی امان؟
    لا حول ولا قوۃ۔۔

    تانیہ،آپ موضوع کے دائرے میں رہتے ہوئے کچھ بھی کہہ سکتی ہیں۔۔

    😆

  11. عین لام میم

    میں بھی تانیہ صاحبہ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں. . . .!!
    سادہ اور مزے دار تحریر تھی صاحب. . .

  12. منیر عباسی جی میں نے تو عرض کر بھی دیا اور آپ کو پتہ بھی نہیں چلا ۔پہلے مجھے ایک دائرہ لگانا پڑا پھر اس کے اندر کھڑے ہو کر لکھا کتنا مشکل تھا ۔ یہ میں ہی جانتی ہوں ۔

  13. منیر عباسی

    تانیہ ، ایسا کیوں ہے کہ آپ کے جواب سے مجھے لگا کہ آپ کو سلمنگ کلینک جانے کی ضرورت ہے؟

    👿

  14. ہاہاہا ڈاکٹر صاحب ہر بات میں کلینک ۔ اب کیا ہو سکتا ہے سنا ہے ڈاکٹرز کو خواب میں بھی مریض نظر آتے ہیں ۔ خاص کر اس وقت جب کلینک پر خوب رش ہو ۔

  15. DuFFeR - ڈفر

    مزیدار
    ہمیں تو کبھی بنٹے ، اخروٹ اور پتنگ بازی کی اجازت نہیں ملی
    بلکہ ہم تو کبھی ان چیزون کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے
    نہیں ہاتھ تو تھے مطلب یہ کہ اتنا ڈرتے تھے امی ابو سے
    اور ابو کو تو سلام کا جواب بھی دیتے تو حلق سے آواز نا نکلنے پاتی
    آپ کی اس قدرتی شان بے نیازی کی واقعی دااد دینی پڑے گی

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں