Skip to content

دُعا

آفس ۲۰۰۷ میں آفس میں ہی اپنی تحریر لکھ کر بلاگ پر شائع کر دینے کا ایک آپشن ہے۔ اسی آپشن کو استعمال کرتے ہوئے یہ تحریر لکھی گئی ہے۔
فروری ۲۰۰۹ میںں ایوب ٹیچنگ ہسپتال کی ویب سائٹ بنی۔ ویب سائٹ کے بننے پر ہمیں بھی بہت خوشی ہوئی، اور کیوں نہ ہوتی، دنیا کے تمام بڑے ہسپتالوں نے اپنی ویب سائٹس بنا رکھی ہیں جن پر تمام ضروری معلومات بھی مہیا کر دی گئی ہیں۔ ہماری توقع تو یہ تھی کہ اس ویب سائٹ پر کام جلد از جلد مکمل ہوگا اور ہم بھی بڑے فخر سے کسی کو اپنے ہسپتال کی ویب سائٹ کا پتہ دے کر کہہ سکیں گےکہ، میاں انٹرنیٹ کا زمانہ ہے، جاؤ اور یہاں سے سب کچھ پڑھ لو۔ اور آ غاز بھی اچھا تھا ۔ سارے ڈیپارٹمنٹس کو چٹھی ملی کہ اپنی ضروری تفصیلات جلد از جلد ویب سائٹ کےانچارج صاحب کو فراہم کر دیں، اور ہو سکے تو تمام ڈاکٹرز کی ایک گروپ فوٹو بھی۔ ہم نے بڑے چاؤ سےایک عدد سوٹ سلوایا کہ تصویر میں اچھے لگیں۔ مگر پھر اس کام پر رفتار سست ہوتی چلی گئی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات ذہن سے محو بھی ہو گئی۔ آج اتفاق سے خیال آیا کہ ذرا دیکھیں تو سہی کیا ہوا ہماری ویب سائٹ کا۔ اور کچھ نہ ہوا تو گروپ فوٹو کے نہ ہونے پر ایڈمن صاحب سے ذرا ہلکا پھلکا احتجاج ہی کر لیں گے۔ مگر حیرت اُس وقت ہوئی جب فائر فاکس نے ویب سائٹ کھولنے سے انکار کردیا۔ غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ پتہ تو بلیک لسٹ میں شامل ہے۔ یعنی اس ویب سائٹ سےوائرس وغیرہ پھیلتے رہے ہیں۔ ایک دو اور طریقوں سے کنفرم کرنے کوشش کی اور تصدیق ہو گئی کی واقعی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ اس بات پر کفِ افسوس ملنے کے سِوا کِیا بھی کیا جا سکتا ہے؟ ایک بات کی تو تصدیق ہو گئی کہ ہمارے ملک میں نوکر شاہی کسی بھی کام کو بگاڑنے میں یدِ طولی رکھتی ہے۔ ویب سائٹ کا آغآز تو بڑے چاؤ سے کیا گیا، اور اب کسی کو اس میں‌دل چسپی ہی نہیں، لگتا ہے موجودہ انتظامیہ کو سابقہ انتظامیہ کا یہ قدم پسند نہیں آیا ۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موجودہ انتظامیہ ہسپتال کےحالات سُدھارنے میں اتنی مصروف ہے کہ اسے پتہ ہی نہیں ویب سائٹ کے ساتھ کیا ہوا۔ دیکھیں ,یہ سائٹ کب علاج کے بعد صحت یاب ہوتی ہے۔ آئیے اور اس کی صحت یابی کے لئیے ہمارے ساتھ دُعا میں شریک ہو جائیں۔

5 thoughts on “دُعا”

  1. جب ڈاکٹر ہی دعا کے لئے کہہ دے
    تو اس کا مطلب ہے
    مریض کے بچنے کی کوئی امید نہیں!

  2. منیر عباسی

    ہاہا

    یہ بات ہماری ایک عام سی سوچ کی طرف اشارہ بھی کرتی ہے،

    ہم لوگ عمل کی بجائے دعاؤں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔

  3. جناب ڈاکٹر عباسی صاحب اسلام علیکم میرا خیال ہے ہزار باہ سو سالانہ کی ھوسٹنگ اور دو چار ہزار بنانے کا خرچہ ہوگا اور پھر بھی یہ حال مگر سرکاری کاغذوں میں یہ لاکھوں میں ہو گی ۔
    اسی غصے کو کم کرنے کے لیے آپ نے اپنے بلاگ پر تصویر لگا لی ہے ۔
    ماشااللہ اچھا لکھتے ہیں انشااللہ چکر لگتا رہے گا اللہ کامیاب کرے آمین ۔

  4. ہمارے حکومتی ادارے سست روی کی اعلٰی مثال ہیں.

    بلاگ آپ نے بہت اچھا سیٹ کیا ہوا ہے. یہ جو سائیڈ بار میں دوسرے بلاگر کی پوسٹس کے اقتباسات ہیں یہ کیسے سیٹ ہونگے. کوئی پلگ ان وغیرہ . .

  5. منیر عباسی

    گمنام صاحب، تصویر تو تھانے میں بھی لگ جاتی ہے۔
    😛
    شکاری، میں نے کوشش کی کہ آ پ کے لیئے آسان الفاظ میں ایک طریقہ لکھ ڈٓالوں۔

    امید ہے پسند آئے گا۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں