Skip to content

خود روئی

اکبر صاحب کا بیٹا نون غنہ کا غلط استعمال کرتا تھا. اکبر صاحب نے کئی مرتبہ اپنے بیٹے کو نون غنہ کے درست استعمال کے بارے میں سمجھایا مگر وہ سمجھا نہیں.
ایک دن اکبر صاحب اپنے بیٹے پر ہاتھ آٹھانے والے تھے کہ ان کے بڑے بھائی نے دیکھ لیا.  امجد صاحب نے اپنے چھوٹے بھائی کو ایک طرف لے جا کر سمجھایا “ارے میاں، اس طرح مت کیا کرو. اولاد پہ ہاتھ اٹھانے سے اولاد بگڑ جانے کا خطرہ ہوتا ہے. بچہ ہے ہمارا لڑکا ابھی. کرنے دو نون غنے کا غلط استعمال .. بڑا ہوگا تو سیکھ جائے گا اس کو بھی”.

اکبر صاحب نے بات مان لی بھائی کی.

=========
قریشی صاحب کا بیٹا حساب کتاب میں کمزور تھا. اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دکان پر سودا سلف بیچتے ہوئے درست حساب کتاب نہ کر پانے پر کاروبار گھاٹے میں جانے لگا.

قریشی صاحب کے پاس دو آپشن بچ گئے تھے. یا تو کسی ایسے شخص کو ملازم رکھیں جو حساب کتاب میں تگڑا ہونے کے ساتھ ساتھ ایماندار بھی ہو،  یا پھر اپنے بیٹے کو ریاضی کی ٹیوشن لگوا لیں.

ان کے دوستوں کو پتہ چلا کہ قریشی صاحب کو اپنے بیٹے کے لئے ریاضی کا ٹیوٹر چاہئے تو سب نے شدت سے اس کی مخالفت کی. ان کا کہنا تھا کہ کاروبار میں گھاٹا ہونے کے باوجود قریشی صاحب کے بیٹے کو کام سنبھالتے رہنا چاہئے اور یہ واحد طریقہ تھا جس سے بچہ حساب کتاب میں ماہر ہوسکتا تھا.

========
شکیل صاحب کا بیٹا غلط صحبت میں پڑ گیا تھا. سگرٹ چرس تو معمولی بات تھی، بچے کے تیوروں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ بہت آگے جائے گا. شکیل صاحب نے بچے کو ایک دن سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا. تیار بیٹھے تھے کہ بچے کے استاد آگئے.
ان کو شکیل صاحب کے ارادے کا علم ہوا تو انھوں نے شکیل صاحب کو سختی سے منع کیا. ان کا کہنا تھا کہ عادتیں جتنی بھی بُری ہوں، وہ ایک اچھا بچہ تھا اور یہ کہ شکیل صاحب کو بچے کی حرکتوں کو نظر انداز کر دینا چاہئے. ایک نہ ایک دن بچہ خود سُدھر جائے گا. مارنے دھمکانے سے بچے کے بگڑنے کا قوی خطرہ تھا اور اس بات کا امکان بھی تھا کہ بچہ گھر سے ہی بھاگ جاتا.

======
مجید صاحب کے بچے کو سودا سلف کے بچے کھچے پیسے پار کرنے کی لت پڑ گئی تھی. دس بیس یا پچاس روپے پار کرنا تو معمولی بات ہوگئی تھی.

مجید صاحب نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ صورت حال قابو سے باہر ہوجائے کچھ کرنا چاہئے. اس سے پہلے کہ بچہ نامی گرامی ڈاکو بن جائے بچے کی اصلاح ضروری ہے.

ایک دن انھوں نے بچے کو مرغا بنایا ہوا تھا کہ اُن کے والد آگئے جنھوں نے فی الفور اپنے لاڈلے پوتے کو اس تکلیف سے جان چھڑائی اور کچھ پیسے دے کر باہر بھیج دیا.

اس کے بعد وہ مجید صاحب سے یوں مخاطب ہوئے، ” ارے بیٹا یہ کیا حماقت تھی؟ کوئی اپنی سگی اولاد کے ساتھ اس طرح کرتا ہے؟”

“مگر ابا اِس کو چوری کی لت پڑ گئی ہے. آج دس بیس پچاس روپے ہیں کل کون جانے کتنا لمبا ہاتھ مارے”

“وہ تو ٹھیک ہے بیٹا مگر سختی نہیں کرو، اولاد بگڑنے کا خطرہ ہوتا ہے. کرنے دو اس کو یہ حرکتیں. ابھی بچہ ہے، بڑا ہوگا تو خود اپنا بُرا بھلا جان جائے گا. سُدھر جائے گا. اپنی اولاد پراعتماد کرنا سیکھو. تمھارا خون ہے وہ”.

مجید صاحب اپنا سا مُنہ لے کر رہ گئے.

====
پس تحریر: ان سب مثالوں کی کسی بیانیے سے مماثلت محض اتفاقی تصور کی جائے.

1 thought on “خود روئی”

  1. حضور ۔ یہ کُلیہ کہ خود ٹھیک ہو جائے گا ۔ میری سمجھ اور تجربہ میں نہیں ہے ۔ البتہ مار پیٹ سے بچے سدھر بھی جائیں تو اُن کی ﷺوتِ اردا یا قوتِ فیصلہ مجروح ہو چکی ہوتی ہے ۔ ہونا یہ چاہیئ کہ بچے کی تربیت پنگھوڑے سے ہی شروع کی جائے ۔تیوریاں چڑھا کر نہیں بلکہ ہنس ہنس کر
    میں نے اپنے بچوں کی تربیت مار پیٹ تو بڑی بات ہے بغیر ڈانٹ پلائے تربیت کی اور کئی دوستوں کے تھوڑے بگڑے بچے اللہ کے فضل سے چند دنوں میں اچھے بچے بنا دیئے ۔
    بچہ سیکھ رہا ہوتا ہے ۔ وہ ہر چیز جاننا چاہتا ہے ۔ دوسرے وہ بڑوں کی نقل بھی کرتا ہے ۔ اسلئے سب سے پہلے والدین کو اپنے کردار اور رویّئے کو درست کرنا چاہیئے

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں