Skip to content

جھینگر

نوجوان نے سر اٹھایا تو اس کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی، “تم ہمیں کبھی بھی شکست نہ دے سکو گے”۔
نوجوان کا مخاطب ایک درمیانہ قامت کا انسان تھا ، جس کے لباس سے اس کے پیشے یا معاشرتی حیثیت کی نشاندہی تو نہ ہو سکتی تھی، البتہ اس کے ایک ہاتھ میں پکڑا ہوا وائرلیس سیٹ اور دوسرے میں ایک عدد پستول صورت حال میں مخاطب کی زورآوری کی پرزور تائید کر رہے تھے۔ اس کی پشت پر موجود چاند جو شائد اس ملاقات کی اطلاع ملنے پر ابھی ابھی ہی طلوع ہوا تھا، اس ناکافی روشنی میں اس کے چہرے کو ایک بھیانک روپ دے رہا تھا۔ مخاطب نے اپنے پاوں ذرا پھیلائے، اور مڑ کر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا، “بس یہی رہ گیا تھا نا؟”۔
ساتھیوں نے تائید میں سر ہلائے اور مخاطب ایک بار پھر نوجوان کی طرف متوجہ ہوگیا۔
نوجوان کے چہرے پر موجود نیل، ماتھے پر نمودار دو گومڑ، ایک کونے سے پھٹے اور سوجے ہوئے ہونٹ اس گمان کو جھٹلانے کی پوری طرح کوشش کررہے تھے کہ یہی چہرہ کچھ دن قبل کسی وجیہہ شخص کا چہرہ تھا۔ نوجوان کے چہرے پر موجود فاتحانہ تاثر میں تھکاوٹ کا غلبہ صاف نظر آ رہا تھا، کئی دنوں کی شیو اب چہرے پر جھاڑ جھنکار کی طرح اُگی ہوئی تھی، بال خاک آلود اور بے ترتیب تھے، اور سلیٹی رنگ کی وہ قمیض جس پر عمودی باریک سیاہ دھاریاں اس سلیٹی رنگ کو ایک نیا روپ دے رہی تھیں، اپنا رنگ کھو چکی تھی۔ نوجوان کی سیاہ رنگ کی پتلون شکنوں سے بھرپور اور گھٹنوں کے قریب سے پھٹ چکی تھی، لیکن وہ شگاف اس وقت اس وجہ سے بھی نظر نہیں آ رہے تھے کہ وہ اس وقت گھٹنوں کے بل کھڑا تھا۔ زمانہ طالبعلمی میں ایک اچھا مقرر ہونے کی وجہ سے کسی بات پر زور دینے کے لئے بازو کو ایک خاص انداز میں اٹھاتا تو اس کے سامنے بیٹھے لوگ یک دم خاموش ہو جاتے تھے،لیکن اب اس کے بازو اس کے پشت کے پیچھے بندھے تھے، بازو اٹھانے کی کوشش کی تو ایک تیز ٹیس کندھے سے اٹھی اور ایک سسکی بے اختیار اس کے ہونٹوں سے نکل گئی۔
یہ شہر کا ایک مضافاتی علاقہ تھا۔چھوٹے چھوٹے ٹیلوں پر مشتمل یہ خطہ زمین دور دور تک پھیلا ہوا تھا، ان خطوں پر اُگی ہوئی خود رو جھاڑیاں اتنی بھی بڑی یا بلند نہیں تھیں کہ کسی کو پناہ دے سکیں۔ اس چٹانی علاقے میں دور دورتک پانی نہیں ملتا تھا۔ اس لئے یہاں کوئی آباد بھی نہیں ہوتا تھا۔
مخاطب نے جو کہ باقیوں کا سربراہ معلوم ہوتا تھا وائرلیس سیٹ ایک ساتھی کو پکڑایا اور اپنے پستول کو چیک کرنے کے بعد اس کا رُخ نوجوان کی طرف کیا، “تیار ہوجاو، مُنے”۔
نوجوان نے ایک طرف حقارت سے تھوکتے ہوئے اپنے مخاطب کو دیکھا جس کی پُشت پر موجود چاند اب عید اس کے کاسہِ سر کے عقب میں آن کھڑا ہوا تھا، ہر طرف خاموشی تھی، ہوا تک ساکن ہوچکی تھی مگر چند ایک جھینگر جو شائد ان افراد کی طرف سے دخل در معقولات پر احتجاج کر رہے تھے بآواز بلند اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے “میں موت سے نہیں ڈرتا، ایک عظیم مقصد کے حصول کے لئے جدو جہد کی ہے، میں جانتا ہوں موت بھی آ سکتی ہے اور مجھے فخر ہے کہ مجھے شہادت نصیب ہو رہی ہے”۔
مخاطب نے ایک قہقہہ لگایا اور پستول سیدھا کیا، پستول کی نال کا سرا نوجوان کے ماتھے سے چند انچ دور تھا، “مُنے، شہید تو تم تب ہوگے جب تمھارا گروہ اس فساد میں ہم پر قابو پالے گا، تب تک تم محض ایک باغی ہو جس کا مقدر موت ہے۔ جس دن تم لوگ کامیاب ہوئے، تب دیکھا جائے گا”۔
ایک دھماکہ ہوا اور گولی نوجوان کے سر کے ٹکڑے کرنے کے بعد ویرانے میں کہیں جا چھپی۔ نوجوان کا مردہ لاشہ ایک طرف کو گرا، ایک ماتحت آگے بڑھا اور مردہ جسم سے لگی ہتھکڑی کھولنے کے بعد ذرا دور گاڑی کی طرف چلنے لگا۔
گولی کی آواز نے شائد جھینگروں کو بھی صورت حال کی سنگینی کا احساس دلا دیا تھا، ویرانے میں یک دم سکوت طاری ہوگیا۔ اس سکوت کو گاڑیوں کے جانے کی آوازوں نے جیسے ہی توڑا، جھینگر دوبارہ شورکرنے لگے۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں