Skip to content

جمپنگ جینز ، عقل اور راجہ گدھ

گزشتہ دنوں پتہ نہیں‌کتنویں‌مرتبہ راجہ گدھ ختم کی تو ایک عجیب سا ملال تھا ذہن پہ۔ اب کے یہ کتاب، یا یہ ناول زیادہ بہتر سمجھ میں‌ آیا۔ گو کہ کچھ باتیں‌ایسی تھیں کہ میں‌نے انھیں فکشن کے کھاتے میں‌ڈال کر آگے گزر جانا چاہا، مگر کوئی چیز تھی جو مجھے ایسا نہ کرنے پر اُکساتی تھی۔راجہ گدھ میں، جہاں تک میں‌سمجھا ہوں، مصنفہ نے حلال اور حرام کی تھیوری پر روشنی ڈالی ہے۔ اب تک میں‌سمجھتا چلا آ رہا تھا، کہ ایک علمی خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے مجھے بہت کچھ پتہ ہے، مگر اس ناول نے یہ غرور بھی توڑ دیا۔ مصنفہ نے بہت اچھے طریقے سے یہ استدلال پیش کیا ہے کہ اگر اسلام میں، اللہ رب العزت نے کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا ہے تو اس کی وجہ ہے، اورحرام اختیار کرنے سے، آخرت میں‌جو کچھ ہوگا وہ اپنی جگہ پر، دنیا میں‌بھی اس کی عجیب سزا ملتی ہے۔

گو کہ ایک دو باتیں‌ایسی ہیں‌کہ میں ان کی تشریح‌ بانو قدسیہ صاحبہ سے خود جاننا چاہوں‌گا، مگر وہ بعد کی بات ہے۔ موضوع کی طرف آتے ہیں۔ اگر میں ناول کا وہ حصہ ،جو میرے اس مراسلے کی بنیاد بنا، اقتباس کی صورت میں‌پیش کروں‌ تو یہ مراسلہ بہت لمبا ہو جائے گا، لہٰذا میں‌خلاصہ پیش کرنے پر ہی اکتفا کروں‌گا۔
خلاصہ کچھ یوں‌ہے کہ ، ناول کا ہیرو جب اپنے اس پروفیسر سے بہت عرصے بعد ملتا ہے جس سے وہ کافی مرعوب رہتا تھا تو یہ جان کر حیران رہ جاتا ہے کہ اس پروفیسر کے پاس ہمیشہ کی طرح کوئی نئی تھیوری ہے دوسروں‌کو مرعوب کرنے کے لئے۔ اور اس مرتبہ پروفیسر کا کہنا ہے کہ رزق حرام انسانی جینز یا جینیاتی بنیاد میں‌تبدیلیاں‌لاتا ہے، توڑ پھوڑ کے ذریعے۔ حرام رزق کی شکل میں‌ہو یا کسی اور شکل میں، اس کا نتیجہ ایک سا ہوتا ہے، جینیاتی مادے میں‌ایسی توڑ پھوڑ جو کہ بعد میں‌میوٹیشن کی صورت میں‌نظر آتا ہے۔ اور نسل انسانی مین دیوانگی کی ایک وجہ یہ حرام ہے۔ حرام کا ارتکاب، یا اکتساب دیوانگی پیدا کرتا ہے۔ اسی لئے کچھ کلمات یا افعال کے ذریعے رزق کو حلال بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ حلال رزق جب خون میں‌شامل ہوتا ہے تو یہ ایک مثبت اثر پیدا کرتا ہے۔ حرام رزق منفی اثر پیدا کرتا ہے۔
یہ تو بہر حال مصنفہ کی سوچ تھی۔

میری توجہ مبینہ طور پر پروفیسر سہیل کی تھیوری نے لے لی۔ میں‌نے سوچا کیا واقعی ایسا ہونا ممکن ہے؟ مرحوم اشفاق احمد نے کئی مرتبہ نور والوں کے ڈیرے کا ذکر کیا، تو ہو سکتا تھا کہ بانو صاحبہ نے بھی اس ڈیرے سے کوئی فیض حاصل کیا ہو۔ میں نے اپنی کتابیں‌ کھولیں‌مگر شائد میں‌غلط جگہ تلاش کر رہا تھا اس لئے میں اس حرام و حلال کی نئی تھیوری کی ‌کوئی سائنسی توجیہ کرنے میں‌ناکام رہا۔

الیکشن میں‌جیت کے بعد اپنے ایک محترم استاد کی صحبت میں‌بیٹھنے کا موقع ملا تو میں‌نے یہ بات چھیڑ دی۔ ان سے پہلے بھی راجہ گدھ کے بارے میں‌بات ہوئی تھی اور انھوں‌نے مشورہ دیا تھا کہ اگر میں‌اسے اچھی طرح سمجھنا چاہوں‌تو اسے بار بار پڑھوں۔ چونکہ اب کچھ سمجھ آگیا تھا، لہذا ان پر رعب ڈالنے کا سنہری موقع تھا۔
میں‌نے بڑے جوش سے بات کی اور مکمل کرنے کے بعد ان کی طرف دیکھا کہ اب یہ کچھ کہیں‌گے ، مگر استاد بالآخر استاد ہوتا ہے، انھوں نے مجھے باربرا مکلنٹوک کی جمپنگ جینز والی تھیوری پڑھنے کا مشورہ دیا۔

باربرا مکلنٹوک نے 1950 میں مکئی کے پودے پر اپنی تحقیق کے بعد یہ تھیوری پیش کی کہ مکئی کے ایک ہی بھٹے ، یا سٹے، جیسا کہ ہم اسے جانتے ہیں ، میں‌ بعض‌اوقات موجود مختلف رنگوں‌کے دانوں‌کی موجودگی ٹرانسپوزونز کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ ٹرانسپوزونز جمپنگ جینز بھی کہلاتے ہیں۔ باربرا مکلنٹوک کو 1983 میں اس تحقیق کی وجہ سے نوبیل انعام ملا۔

وکی پیڈیا کے مطابق ہی :

Transposons are sequences of DNA that can move around to different positions within the genome of a single cell, a process called transposition. In the process, they can cause mutations and change the amount of DNA in the genome. Transposons were also once called jumping genes, and are examples of mobile genetic elements. They were discovered by Barbara McClintock early in her career, for which she was awarded a Nobel prize in 1983.

اس حرکت کا فائدہ بھی ہوتا ہے اور نقصان بھی۔ یہ ربط دیکھئے۔

شائد یہ ربط بھی کچھ مفید ثابت ہو۔

یہ جمپنگ جینز پیدا کیسے ہوتے ہیں،اس پر آگے چل کر بات کریں‌گے۔ البتہ گوگل نے یہ دلچسپ ربط میرے سامنے لا رکھا۔تازہ ترین خبر ہے یہ بھی۔
بانو قدسیہ کی کتاب تو پہلی مرتبہ کوئی پچیس برس قبل شائع ہوئی تھی۔مگر 25 جون 2010 کو شائع ہونے والی اس خبر میں‌کہا گیا ہے کہ

Stretches of DNA known as “jumping” genes are far more common than anyone thought, and almost everyone has a unique pattern of them, U.S. researchers reported on Thursday

That people have transposons is not new. “Forty-five percent of the genome is known to be transposon sequences,” Devine said. But most hopped in and are now inactive, passing down unchanged and in place from one generation to the next. “What we are interested in are the ones that are moving around today. We found an average of 15 new insertions per person,” Devine said in a telephone interview.

CHEAPER NEW TECHNOLOGY

New genetic sequencing technology made it possible to find these transposons. It costs thousands of dollars to map an individual’s genome, the entire genetic sequence, but companies such as Illumina , Life Technologies , Roche and others are driving the price down.
Devine’s team used Roche’s 454 sequencer to find 1,145 new inserted transposons that had not been documented before.
They developed a genetic probe that would target only these active jumping genes and estimated a new insertion is happening with each generation.
The human genome has 3 billion so-called base pairs – the A, C, T and G of the genetic code. “This could affect every base pair somewhere on the planet,” Devine said

ہے نا دلچسپ۔ انسانی جنوم کی میپنگ کے بعد، جس میں‌3 ارب کے قریب بیس پئیر ہیں، ان سائنسدانوں‌کو نئے جینز دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ آپ کے ذہن میں میری طرح‌یہ سوال اٹھ رہا ہوگا کہ آخر یہ ٹرانسپوزونز پیدا کیسے ہوتے ہیں، اس سوال کی کوئی سائنسی یا عقلی توجیہ ہو سکتا ہے ممکن ہو۔

مگر پھر اس سب کے بعد ایک ہی جواب سامنے آتا ہے:

The first question has two corollaries: (a) What is the ultimate origin of transposable elements? (b) How were the thousands of copies generated?
The ultimate origin of transposons is unknown, but retrotransposons are believed to have derived from retroviruses.

تو ان جمپنگ جینز کا مآخذ یا منبع کیا ہے؟ ابھی تک شائد کو ئی جان نہیں‌پایا۔ کیا کوئی مستقبل میں‌جان پائے گا؟ ہم دعویٰ نہین کر سکتے۔ واپس موضوع کی طرف آتے ہیں،
یہ سب سائنسی توجیہ اپنی جگہ پر، کیا مذہب اس سب کی تشریح کر سکتا ہے؟ سائنس تو یہ کہتی ہے کہ جمپنگ جینز محض جمپنگ جینز ہیں‌اور یہ ڈی این اے میں‌ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرتے ہیں، جہاں‌تک میرا مطالعہ ہے، اس حرکت کی کوئی توجیہ نہیں‌کی گئی کہ کونسے عوامل اس حرکت کا باعث بنتے ہیں ، بس یہ بتایا گیا ہے کہ جینز کی اس حرکت کی وجہ سے بہت سی نئی چیزیں دیکھنے میں‌آتی ہیں۔ نئی بیماریاں، مکئی کے نئے رنگ، شائد دیوانگی بھی؟؟؟

متذکرہ بالا آخری ربط میں‌اس پر ایک چھوٹی سی بحث‌ بھی کی گئی ہے کہ آخر ان جمپنگ جینز کا فائدہ کیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا۔

اب میں اس طویل تمہید کے بعد اپنی بات پر آنا چاہوں‌گا۔ کیا بانو قدسیہ نے باربرا مکلنٹوک کی اس تھیوری کو مذہبی نقطہ نظر سے دیکھ کر یہ فیصلہ کیا ہوگا کہ ہمارے اعمال دراصل ان جمپنگ جینز کی حرکت کا باعث بنتے ہیں؟ حرام رزق یا حرام کا اکتساب جین کی میوٹیشن کا سبب بنے اور حلال رزق جین کے سدھرنے کا؟
کیا بانو قدسیہ نے یہی سوچ کر یہ ناول لکھا ہوگا، یہ تو وہی بہتر بتا سکتی ہیں۔

اگر حرام رزق سے جین کے بگڑنے کی بات مان لی جائے تو پھر یہ بھی ماننا ہوگا کہ توبہ الی اللہ سے یہ میوٹیشن ٹھیک ہو سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کلام الٰہی سے بیماریوں کا علاج بھی ہو سکتا ہے؟ قرآنی آیات کے بطور تعویذ استعمال سے فائدے کو ثابت بھی کیا جاسکتا ہے؟ اس تھیوری کو ٹیسٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایک گنہگار، رزق حرام پہ پلنے والے انسان کے جینوم کا مطالعہ کر لیا جائے اور پھر اگر اللہ نے اسے سچے دل سے توبہ کی توفیق دی تو دوبارہ اس کے جینوم کو دیکھ لیا جائے۔ انٹرسٹنگ!!!‌اگر بالفرض‌کوئی سچے دل سے توبہ نہیں بھی کرتا اور صرف رزق حرام سے اجتناب کرتا ہے تو اس کے جینوم کا ارادے کے فورا بعد، ایک دن بعد، سات دن بعد، اور چالیس دن بعد مختلف نمونوں‌سے معائنہ کر کے دیکھا جا سکتا ہے کہ جمپنگ جینز تھیوری کا بانو قدسیہ کی رزق حرام والی تھیوری سے کیا تعلق ہے۔ کیا دونوں خواتین غلطی پر ہیں‌یا کوئی ایک درست ہے؟

عقل کے گھوڑ ے کو جتنا دوڑائیں، دوڑے گا، ثبوت کون لائے گا؟

مرحوم اشفاق احمد اپنے ڈرامے من چلے کا سودا کی ابتدا میں کہتے ہیں:

ہمیں اب سائنس کو مذہب اسلام کی نگاہ سے دیکھنا ہی پڑے گا۔ پتہ نہیں‌مذہب اسلام سائنس سے کس مقام پر جدا ہوتا ہے۔ یا ہوتا ہی نہیں؟

10 thoughts on “جمپنگ جینز ، عقل اور راجہ گدھ”

  1. انسانی نفسات کے متعلق کیا خیال ہے؟
    آپ کو ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جو آپ کو بتائیں‌ گے کہ فلاں‌ پتھر پہننے سے یا فلا ں مذہبی نشان گلے میں‌ ڈالنے سے ان کی زندگی میں‌ یہ یہ حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
    وجہ؟
    پتھروں‌ یا ان نشانات کی “حقانیت”؟
    یا پھر انسانی نفسیات اوو قوت خود رادی؟
    آپ جن باتوں پر حیران ہورہے ہیں یہ اتنی نئی نہیں ہیں۔ مغرب میں ایسے کرسچن اپالوجسٹ عام پائے جاتے ہیں‌ جو ہردم مذہب کو سائنس سے جوڑ کر مذہب کی حقانیت بذریعہ سائنس ثابت کرنے میں‌ لگے رہتے ہیں۔ ایمازان ڈاٹ کام پر آپ کو ان “ماہرین” کی بہت سی کتب مل جائیں گی۔
    سائنس برائے سائنس کرنے کی کوشش کیوں نہ کی جائے؟

  2. یار انگریزی اقتباسات کا اردو ترجمہ کرو تو ہم پڑھیں گے۔ ورنہ اردو میں انگریزی کا تڑکا نہ لگاؤ۔ اتنی اچھی پوسٹ لیکن دو مونہی۔

  3. انسان اپنے نفس کا غلام ہو تو تصوير کا ايک رُخ بنتا ہے ۔ اگر نفس کو غلا بنا لے تو تصوير کا دوسرا رخ سامنے آتا ہے جو کہ لامتناہی ہے ۔ يہاں پہنچ کر انسان تصوف کے راستہ پر چلنے کے قابل ہوتا ہے اور اگر چلتا رہے تو سائنس اس کے سامنے ہيچ ہو جاتی ہے کيونکہ اس پر اللہ کی قدرت کے راز افشاء ہونے شروع ہو جاتے ہيں ۔ سائنس ہميں کوئی نئی چيز نہيں بتاتی بلکہ وہ کچھ ہی بتاتی ہے جو کہ پہلے سے موجود ہے مگر ہمارے علم مں نہيں ہے

    جو بات عثمان صاحب نے کی ہے
    درست کہ کچھ پتھر يا ڈھاتيں ايسی ہيں کہ خاص اثر رکھتی ہيں مگر زيادہ تر معاملہ نفسيات کا ہے ۔
    ميں نے بچپن ميں ايسے لوگ ديکھے ہيں جو بخار ہونے کی صورت ميں دودھ سوڈا پی کر تندرست ہو جاتے تھے ۔ دسويں پاس کرنے کے بعد ميں لاہور گيا ہوا تھا ۔ اس وقت ک ماہرِ طب ڈاکٹر يوسف صاحب جو فادر آف ميڈيسن کہے جاتے تھے نے بتايا کہ ايک مريض بہت تکليف ميں تھا ۔ اس کا بہت علاج کيا مگر وہ تندرست نہ ہو رہا تھا اس کی ايک ہی ضد تھی کہ ٹيکہ لگائيں ۔ آخر اسے ايک دن ايک ملی لٹر سيلائين گلوکوز کا ٹيکہ لگا ديا گيا اور وہ تندرست ہو کر گھر چلا گيا

  4. راجہ گدھ نے مجھے بھی بہت سالوں سے پریشان کیا ہوا ہے
    میں‌چونکہ اتنا پڑھا لکھا نہیں ہوں، اس لئے سائنس کی بحث وغیرہ میں نہیں‌پڑتا
    لیکن میرے تجربے (جتنا بھی تھوڑا بہت ہے) اور مشاہدے (ناقص!) نے بانو قدسیہ کے اس نظریے کو درست ہی ثابت کیا ہے۔
    باقی اللہ بہتر جانتا ہے

  5. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    واقعی راجہ گدھ تومیں نےبھی نہیں پڑھی ہے۔ لیکن یہ حقیقت پوری طرح آشکارہےکہ صوفی لوگوں کی دنیاایک ایسی دنیاہےکہ جواس میں اتراتوپھروہ اس میں ڈوبتاہی چلاگیا۔اوردنیاکی سائنس اس کےآگےہیچ نظرآئےگي۔

    والسلام
    جاویداقبال

  6. تھوڑی سی آف ٹاپک بات ہے لیکن بانو قدسیہ کے ذکر پر ذہن میں آ گئی۔۔۔میں نے سنا تھا کہ بانو قدسیہ اشفاق صاحب سے شادی سے قبل ہندو تھیں۔پھر اسلام قبول کیا۔
    کیا اس بات میں کوئی سچائی ہے؟

  7. بہت عرصہ پہلے راجہ گدھ نصف تک پڑی تھی۔ ابھی بھی ادہر ادھر پڑی ہوگی۔ آدھی کے لگ بھگ پڑھ کے اسلئیے چھوڑ دی کہ کتاب کی مرکزی کردار جب بٹ نامی لڑکے کے نسبتاََ کم خوبصورت دوست کے ساتھ بٹ کو تصور کر کے منہ کالا کرتی ہے تو جملہ تفضیلات سے گھن محسوس ہوئی اور شرم و غیرت نے مزید پڑھنا گوارا نہ کیا۔

    جہاں تک یہ جو رواج چل پڑا ہے کہ مذھب کو سائینس سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ چلن ٹھیک نھیں ۔ یہ نصرانیوں کا طریقہ ہے۔ مسلمان کو صرف یہ یقینِ کامل ہونا چاہئیے کہ اسلام درست ہے اور صحیح ہے خواہ دنیا بھر کی سائینس اسے درست چابت کرنے میں ناکام رہے۔ سائینس ارتقاء کے تسلسل کی وجہ سے نت نئی دریافتوں کا نام ہے۔ جبکہ دین الہامی اور الوہی ہے۔ جس پہ آنکھیں بند کر کے صدق دل سے ایمان لانے سے دین مکمل ہوتا ہے۔

    سائینس اسلام پہ کیا کہتی ہے۔ اس سے مسلمان کے ایمان کو مسئلہ نہیں ہونا چاہئیے۔ خواہ سائینس کا نتیجہ اسلام کے حق میں آئے یا خلاف۔ بہ حیثیت مسلمان ہم وہ کرتے ہیں جس کا ہمیں حکم ہے۔ اور سائینس بھی اللہ کی دی ہوئی عقل و دانش کا اطہار ہے۔ اسلئیے سائینس سے مذھب کو ثابت کرنے کا رویہ احسن نہیں۔

  8. عثمان :: بات کرسچین یا اسلامسٹ اپالوجسٹ ہونے کی نہیں‌ہے۔ بات یہ بھی نہیں‌ہو رہی کہ انسانی نفسیات اور مذۃب کا کیا رشتہ ہے۔ بات تو یہ ہو رہی ہے کہ آخر ان ٹرانسپوزونز کی موجودگی کی کوئی وجہ ہوگی ؟؟؟

    سائنس کے پاس اس کی کوئی وجہ موجود نہیں‌تو ہمیں‌ادھر ادھر بھی دیکھنا چاہئے، کہ سائنس بذات خود کچھ نہیں‌ہے۔

    دوست:: میرا خیال تھا کہ لسانیات کے ماہر ہونے کی وجہ سے کم از کم آپ کو کوئی مسئلہ نہیں‌ہوگا۔

    افتخار اجمل صاحب:: جی میں‌آپ سےمتفق ہوں کہ سائنس ہميں کوئی نئی چيز نہيں بتاتی بلکہ وہ کچھ ہی بتاتی ہے جو کہ پہلے سے موجود ہے مگر ہمارے علم میں نہيں ہے۔

    جعفر:: جی ہاں لگتا تو کچھ اس طرح ہی ہے۔

    ڈفر:: فیس بک سے کچھ وقت نکال کر اسے بھی پڑھ لیں۔

    احمد عرفان:: مجھے اس بارے میں‌ کچھ علم نہیں۔

    جاوید گوندل :: آپ کی بات بجا ، ایمان بالغیب سب سے بڑی چیز ہے، دیکھ کر ایمان لائے تو وہ کیسا ایمان، البتہ سائنس اور مذہب کو ساتھ ساتھ رکھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بہت سی چیزوں کے اوپر سے سوالیہ نشان ہٹ جاتا ہے۔

  9. ہر دور میں‌ ایسے سوالات اور مسائل ہوتے ہیں جن کا اس دور کی سائنس میں‌ کوئی جواب نہیں‌ہوتا۔ صرف جمپنگ جینز ہی نہیں‌اور بھی ہزاروں باتیں‌ ایس ہیں‌ جن کا جواب سائنس کے پاس فی الحال نہیں ہے۔ لیکن جوں جوں تحقیق ہوتی جائے گی ان باتوں کے جوابات ملتے جائیں گے۔ سائنس کا ایک ادنیٰ سا طالب علم بھی اس بات کو سمجھتا ہے۔
    انسانی تاریخ‌ گواہ ہے کہ جب جب مذہب اور سائنس کا زبردستی ملاپ کرنے کی کوشش کی گئی۔۔۔۔مزید مسائل اور غیر ضروری سوالیہ نشانہ پیدا ہوئے۔۔۔۔ہٹے نہیں۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں