Skip to content

جمعۃ مبارک

بچپن کی جو یادیں اب تک محفوظ رہ گئی ہیں ان میں سے کچھ ان دنوں کی ہیں جب ہم سارے گھر والے ایک وسرے کو کسی تہوار کی مبارک باد دیتے تھے۔ خیر ہمارے گھر میں تو یہ مواقع گنے چنے ہی تھے۔ رمضان کا آغاز، رمضان کا اختتام، عید الفطر، عید الاضحیٰ اور بس۔
اس کے علاوہ اگر سکول میں تھے تو تئیس مارچ، چودہ اگست، چھے ستمبر، 11 ستمبر وغیرہ سکول میں ہونے والی تقریبات اور ان میں اگر حصہ لیا تو اُن کی تیاری وغیرہ کے حوالے سے یاد رہ جاتی تھیں۔

ایک اہتمام یہ بھی ہوتا تھا کہ کسی قریبی عزیز کی سالگرہ یاد آ گئی ، تو اس کو سالگرہ کا کارڈ بھیجا۔ کارڈ کیا ہوتا تھا، ایک لحاظ سے خط ہی ہوتا تھا۔ عیدین کے مواقع پہ بھی کارڈ بھیجے اور وصول کئے جاتے تھے۔ باقی کا سال کیسے گزرتا تھا، معمول کا حصہ ہونے کی وجہ سے پتہ ہی نہ چلتا تھا۔

جمعے کے دن چھٹی ہوتی تھی، صبح، اگر ضرورت ہوتی تو حجام کے پاس جا کر بال ترشوانے کے بعد غسل کرنا ایک بڑا چیلنج ہوتا تھا۔ اور جمعے کی پہلی اذان کے ساتھ ہی مسجد میں بیٹھ جانا۔ کبھی زیادہ دل کرے تو خادم کے ساتھ مل کر مسجد کا صحن دھو ڈالنا۔ نماز کے بعد درخت کے سائے تلے ایک چھوٹا سے کرکٹ میچ کھیل کر دھول میں اٹا ہوا واپس آنا اور امی سے قولی اور فعلی ڈانٹ کھانا۔ یوں جمعہ گزر جاتا تھا۔ جمعہ اس لئے بھی یاد رہتا کہ جمعرات کو آدھی چھٹی ہوا کرتی تھی۔

پھر موبائل فون کے سیلاب نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میں میڈیکل کالج کے آخری سالوں میں تھا جب اس سیلاب کی زد میں آیا۔ شروع میں تو کال اور میسج کے چارجز بہت زیادہ تھے۔ صرف مِس کال دینے پر ہی اکتفا کیا جاتا اور اگر بہت ہی زیادہ ایمرجنسی ہوتی تو کوشش یہ ہوتی کہ ایک منٹ کے اندر اختصار سے کام لے کر بات مکمل کر دی جائے۔ کچھ کمپنیاں تو رومنگ چارجز بھی صارفین سے وصول کرتی تھیں۔

پھر اس طوفان نے سونامی کی شکل اختیار کر لی۔ میسج پیکجز اور کال پیکجز کا وہ طوفان بد تمیزی اٹھا کہ الحفیظ الامان۔ میسج فارورڈنگ جیسی بیماری کا شکار تقریبا ہر ایک ہوا۔ کچھ پہلے کچھ بعد میں، مگر بچا کوئی بھی نہیں۔ سستی قسم کی مسیجنگ سے یار لوگوں نے فائدے بھی اٹھائے۔ کسی نے محض لطیفے بھیجے تو کسی نے شاعری پر اکتفا کیا تو کچھ لوگوں نے اسے سیکسٹنگ کا ذریعہ بنا لیا۔ ویسے ہی جیسے چیٹ پروگرامز کو بنایا گیا تھا۔ یہ جبلت کبھی بھی ساتھ نہ چھوڑے گی۔

خیر، کچھ میسج پھر اس طرح گردش کرنے لگے کہ ایام کی مناسبت سے تھے، مثلا فادر ڈے، مدر ڈے، رمضان کا آغاز، عید کی مبارکباد، سالگرہ، برسی، ماتم خوشی، اور پھر دنوں کی مبارکباد کا سلسلہ چل نکلا۔ جمعہ کا دن پھر بھی اس سے نہ بچ سکا اور یوں جمعۃ مبارک کے میسجز بھی روزانہ کی سپیمنگ میں شامل ہو گئے۔

میں نے تحقیق تو نہیں کی، البتہ موبائل فون کے آنے سے پہلے تک کے معاشرتی رواج کو جب ذہن میں لاتا ہوں تو سمجھ میں آتا ہے کہ سوائے چند خاص مواقع کے، دنوں کی مبارکباد دینا کبھی بھی ہمارے عمومی مزاج کا حصہ نہ تھا۔ یہ وبا، موبائل فون کمپنیوں کے میسج پیکجز کے بعد اس معاشرے میں آئی اور اس کے ختم ہونے کا کچھ امکان نہیں کہ کب ختم ہو۔

موبائلز کے بعد سوشل میڈیا کا دور آیا۔ اور پھر پہلے تو سٹیٹس اپڈیٹ تھے، پھر فوٹو شاپ کی برکت سے ملے جلے، اکثر ناقص یا غلط معلومات و روایات پر مبنی مبارکباد کے پیغامات گردش کرنے لگے۔

ضروری نہیں کہ جو بات منطقی حساب سے درست لگتی ہو، وہ اُسی نے کہی ہو جس کا نام اس تصویری پیغام میں لکھا ہے۔ کون خیال کرتا ہے۔ بس لکھی جاؤ اور شئیر کرتے جاؤ۔ یار لوگوں نے تو رحمان بابا کا ایک شعر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے منسوب کر کے مارکیٹ میں پھیلا دیا تھا۔

بہر حال ، آج ٹویٹر پر کاشف نصیر کی جانب سے جمعہ مبارک کی ٹویٹ دیکھی تو یہ سب باتیں یاد آ گئیں اور لکھ ڈالیں کہ وقت تھا میرے پاس۔

1 thought on “جمعۃ مبارک”

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں